(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن محمد بن المنكدر، عن سعيد بن جبير، عن رجل عنده رضي، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ما من امرئ تكون له صلاة بليل يغلبه عليها نوم إلا كتب له اجر صلاته، وكان نومه عليه صدقة". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ عِنْدَهُ رَضِيٍّ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا مِنَ امْرِئٍ تَكُونُ لَهُ صَلَاةٌ بِلَيْلٍ يَغْلِبُهُ عَلَيْهَا نَوْمٌ إِلَّا كُتِبَ لَهُ أَجْرُ صَلَاتِهِ، وَكَانَ نَوْمُهُ عَلَيْهِ صَدَقَةً".
سعید بن جبیر نے ایک ایسے شخص سے جو ان کے نزدیک پسندیدہ ہے روایت کی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص جو رات کو تہجد پڑھتا ہو اور کسی رات اس پر نیند غالب آ جائے (اور وہ نہ اٹھ سکے) تو اس کے لیے نماز کا ثواب لکھا جائے گا، اس کی نیند اس پر صدقہ ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/قیام اللیل 52 (1785)، (تحفة الأشراف: 16007)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ صلاة اللیل 1 (1)، مسند احمد (6/63، 72، 180) (صحیح)»
Narrated Aishah, Ummul Muminin: The Prophet ﷺ said: Any person who offers prayer at night regularly but (on a certain night) he is dominated by sleep will be given the reward of praying. His sleep will be almsgiving.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1309
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه النسائي (1785) وھو في الموطأ (رواية يحييٰ:1/ 117 ح 254، رواية ابن القاسم: 86) قال ابن عبد البر: ’’الرجل الرضي المذكور في هذا الإسناد هو الأسود بن يزيد وهو رضي عند الجميع‘‘ (الاستذكار: 2/ 80 واللفظ له، التمھيد: 12/ 261) وللحديث شواھد
(قدسي) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، وعن ابي عبد الله الاغر، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى سماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر، فيقول: من يدعوني فاستجيب له، من يسالني فاعطيه، من يستغفرني فاغفر له". (قدسي) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب ہر رات جس وقت رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، آسمان دنیا پر اترتا ہے ۱؎، پھر فرماتا ہے: کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں؟“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 14 (1145)، والدعوات 14 (6321)، والتوحید 35 (7494)، صحیح مسلم/المسافرین 24 (758)، سنن الترمذی/الصلاة 212 (446)، والدعوات 79 (3498)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 182 (1366)، (تحفة الأشراف: 13463، (صحیح)15241)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ القرآن 8 (30)، مسند احمد (2/264، 267، 283، 419، 487)، سنن الدارمی/الصلاة 168 (1519)، ویأتي برقم (4733)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ رب العزت کے لئے نزول کی صفت ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے بارے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول سے اس سلسلے میں ثابت ہے اس پر ہم صدق دل سے ایمان لے آئیں اور ان صفات کا نہ تو انکار کریں، اور نہ ان کے حقیقی معانی کو معطل کریں، اور نہ ہی کسی صفت کو کسی مخلوق کی صفت کے مشابہ قرار دیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «ليس كمثله شيئ وهو السميع البصير» ۔ بعض لوگوں نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے یا اس کا حکم اترتا ہے، لیکن یہ سراسر غلط ہے، یہ تاویل کسی طور سے بھی حدیث کے الفاظ کے ساتھ میل نہیں کھاتی، کیوں کہ اگر رحمت اترتی یا حکم اترتا تو وہ یہ کیسے کہتا کہ ” جو مجھ سے دعا کرے گا میں اسے قبول کروں گا، جو مانگے گا میں دوں گا، جو استغفار کرے گا میں اس کی مغفرت کروں گا “، یہ تو خاص شان کبریائی ہے، دوسرے یہ کہ اللہ کی رحمت ہر جگہ موجود ہے «ورحمتي وسعت كل شيئ» تو خاص تہائی رات میں نزول (اترنے) کے کیا معنیٰ؟! تیسرے یہ کہ رحمت اتر کر آسمان دنیا ہی پر رہ گئی تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوا! اگر ہم تک آتی تو ہمیں فائدہ پہنچتا، اس لئے بہتر طریقہ وہی ہے جو محققین اہل سنت و اہل حدیث کا ہے کہ اس قسم کی حدیثیں یا آیتیں جن میں اللہ جل جلالہ کی صفات مذکور ہیں جیسے: اترنا، چڑھنا، ہنسنا، تعجب کرنا، دیکھنا، سننا، عرش کے اوپر ہونا، وغیرہ وغیرہ، ان سب صفات و افعال باری تعالی کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، لیکن یہ مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں، جیسے اللہ تعالی کی ذات مخلوقات کی ذات کے مشابہ نہیں ہے۔
Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: Our Lord who is blessed and exalted descends every night to the lowest heaven when the last one-third of the night remains, and says: Who supplicated Me so that I may answer him ? Who asks of Me so that I may give to him ? Who asks My forgiveness so that I may forgive him ?
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1310
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1145) صحيح مسلم (758)
(مرفوع) حدثنا حسين بن يزيد الكوفي، حدثنا حفص، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليوقظه الله عز وجل بالليل فما يجيء السحر حتى يفرغ من حزبه". (مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُوقِظُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِاللَّيْلِ فَمَا يَجِيءُ السَّحَرُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ حِزْبِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ رات کو جگا دیتا پھر صبح نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معمول سے فارغ ہو جاتے۔
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا ابو الاحوص. ح وحدثنا هناد، عن ابي الاحوص وهذا حديث إبراهيم، عن اشعث، عن ابيه، عن مسروق، قال: سالت عائشة رضي الله عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت لها: اي حين كان يصلي؟ قالت:" كان إذا سمع الصراخ قام فصلى". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ. ح وحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ وَهَذَا حَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيَّ حِينٍ كَانَ يُصَلِّي؟ قَالَتْ:" كَانَ إِذَا سَمِعَ الصُّرَاخَ قَامَ فَصَلَّى".
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا: میں نے ان سے کہا: آپ کس وقت نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: جب آپ مرغ کی بانگ سنتے تو اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور نماز شروع کر دیتے۔
Masruq said: I asked Aishah about the prayer of the Messenger of Allah ﷺ, and I said to her: At what time he prayed at night ? She said: When he heard the cock crow, he got up and prayed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1312
قال الشيخ الألباني: صحيح ق بلفظ الصارخ
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1132) صحيح مسلم (741)
Hudhaifah said: When anything distressed the Prophet ﷺ, he prayed.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1314
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن عبد اللّٰه بن أبي قدامة الدؤلي مجهول (التحرير: 6041) وثقه ابن حبان وحده وفي السند اختلاف وحديث أحمد (4/ 333 ح 18937 وسنده صحيح) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 54
ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارتا تھا، آپ کو وضو اور حاجت کا پانی لا کر دیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مانگو مجھ سے“، میں نے عرض کیا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے علاوہ اور کچھ؟“، میں نے کہا: بس یہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو اپنے واسطے کثرت سے سجدے کر کے (یعنی نماز پڑھ کر) میری مدد کرو“۔
Narrated Rabiah bin Kab al-Aslami: I used to live with the Messenger of Allah ﷺ at night. I would bring water for his ablution and his need. He asked: Ask me. I said: Your company in Paradise. He said: Is there anything other than that ? I said: It is only that. He said: Help me for yourself by making prostrations abundantly.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1315
(موقوف) حدثنا ابو كامل، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس بن مالك، في هذه الآية: تتجافى جنوبهم عن المضاجع يدعون ربهم خوفا وطمعا ومما رزقناهم ينفقون سورة السجدة آية 16، قال: كانوا يتيقظون ما بين المغرب والعشاء يصلون، وكان الحسن، يقول: قيام الليل. (موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فِي هَذِهِ الْآيَةِ: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ سورة السجدة آية 16، قَالَ: كَانُوا يَتَيَقَّظُونَ مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ يُصَلُّونَ، وَكَانَ الْحَسَنُ، يَقُولُ: قِيَامُ اللَّيْلِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ جو اللہ تعالیٰ کا قول ہے «تتجا فى جنوبهم عن المضاجع يدعون ربهم خوفا وطمعا ومما رزقناهم ينفقون»”ان کے پہلو بچھونوں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈر اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں“(سورۃ السجدۃ: ۱۶) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان جاگتے اور نماز پڑھتے ہیں۔ حسن کہتے ہیں: اس سے مراد تہجد پڑھنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف: 1212)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 33 (3196) (صحیح)»
Anas bin Malik said (explaining the meaning of the Quranic verse "Who forsake their beds to cry unto their Lord in fear and hope, and spend of what We have bestowed on them" (32: 16). The people used to remain awake between the sunset and the night prayers and would pray. Al-Hasan used to say: (This verse means) the prayer and vigil at night.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1316
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة وسعيد بن أبي عروبة مدلسان (تقدما: 29،33) وعنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 55
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، وابن ابي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، في قوله عز وجل: كانوا قليلا من الليل ما يهجعون سورة الذاريات آية 17، قال: كانوا يصلون فيما بين المغرب والعشاء، زاد في حديث يحيى: وكذلك تتجافى جنوبهم سورة السجدة آية 16. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: كَانُوا قَلِيلا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ سورة الذاريات آية 17، قَالَ: كَانُوا يُصَلُّونَ فِيمَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى: وَكَذَلِكَ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ سورة السجدة آية 16.
انس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «كانوا قليلا من الليل ما يهجعون»”وہ رات کو بہت تھوڑا سویا کرتے تھے“(سورۃ الذاریات: ۱۷) کے بارے میں روایت ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے تھے۔ یحییٰ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ «تتجافى جنوبهم» سے بھی یہی مراد ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1213) (صحیح)»
Anas said (explaining the meaning) of the following Quranic verse "They used to sleep but little of the night" (51: 17): They (the people) used to pray between the Maghrib and 'Isha. The version of Yahya adds: The verse tatajafa junubuhum also means so.
USC-MSA web (English) Reference: Book 5 , Number 1317
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (1321) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 55
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی رات کو اٹھے تو دو ہلکی رکعتیں پڑھے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف: 14572)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 26 (768)، مسند احمد (2/232، 279، 399) (صحیح)» (آگے کے ابوداود کے تبصرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرفوع قولی کی جگہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر وقف زیادہ صحیح ہے، نیز صحیح مسلم وغیرہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: 2؍ 59- 60)
وضاحت: ۱؎: غالبا ً اس سے تحیۃ الوضو مراد ہے، یعنی پہلے یہ دونوں رکعتیں پڑھ لے، پھر تہجد شروع کرے، یا یہ تہجد ہی کی نماز ہے، مگر ابتداء ہلکی سے شروع کرے، دوسری روایت میں ہے «ثم ليطول بعد ما شاء» یعنی پھر اس کے بعد جتنی چاہے لمبی کرے۔