ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی پیشاب کرے تو اپنے عضو تناسل کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے، اور جب کوئی بیت الخلاء جائے تو داہنے ہاتھ سے استنجاء نہ کرے، اور جب پانی پیئے تو ایک سانس میں نہ پیئے“۔
Narrated Abu Qatadah: The Prophet ﷺ said: When any one of you urinates, he must not touch his penis with his right hand, and when he goes to relieve himself he must not wipe himself with his right hand (in the privy), and when he drinks, he must not drink in one breath.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 31
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (153، 154) صحيح مسلم (267)
حارثہ بن وہب خزاعی کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو کھانے، پینے اور کپڑا پہننے کے لیے استعمال کرتے تھے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو ان کے علاوہ دوسرے کاموں کے لیے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبوداود، (تحفة الأشراف: 15794)، مسند احمد (6/288) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے، اور بایاں ہاتھ پاخانہ اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15917)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 31 (168)، الصلاة 47 (426)، الجنائز 10 (1255)،الأطمعة 5 (5380)، اللباس 38 (5854)، اللباس 77 (5926)، صحیح مسلم/الطہارة 19 (268)، سنن الترمذی/الجمعة 75 (608)، سنن النسائی/الطہارة 90 (112)، وفي الزینة برقم: (5062)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 42 (401)، مسند احمد (6/170، 265) (صحیح) (وأبو معشر هو زياد بن كليب)»
Narrated Aishah, Ummul Muminin: The Prophet ﷺ used his right hand for getting water for ablution and taking food, and his left hand for his evacuation and for anything repugnant.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 33
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن أبي عروبة مدلس (طبقات المدلسين: 2/50 وھو من الثالثة) وعنعن والحديث السابق (الأصل: 32 وسنده حسن) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 14
Aishah, also reported a tradition bearing similar meaning through another chain of transmitters.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 34
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن أبي عروبة مدلس (طبقات المدلسين: 2/50 وھو من الثالثة) وعنعن والحديث السابق (الأصل: 32 وسنده حسن) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 14
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي، اخبرنا عيسى بن يونس، عن ثور، عن الحصين الحبراني، عن ابي سعيد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من اكتحل فليوتر، من فعل فقد احسن من لا فلا حرج، ومن استجمر فليوتر، من فعل فقد احسن ومن لا فلا حرج، ومن اكل فما تخلل فليلفظ، وما لاك بلسانه فليبتلع، من فعل فقد احسن ومن لا فلا حرج، ومن اتى الغائط فليستتر، فإن لم يجد إلا ان يجمع كثيبا من رمل فليستدبره فإن الشيطان يلعب بمقاعد بني آدم، من فعل فقد احسن ومن لا فلا حرج"، قال ابو داود: رواه ابو عاصم، عن ثور، قال حصين الحميري: ورواه عبد الملك بن الصباح، عن ثور، فقال ابو سعيد الخير، قال ابو داود: ابو سعيد الخير هو من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنِ الْحُصَيْنِ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنِ اكْتَحَلَ فَلْيُوتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ مَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنْ أَكَلَ فَمَا تَخَلَّلَ فَلْيَلْفِظْ، وَمَا لَاكَ بِلِسَانِهِ فَلْيَبْتَلِعْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنْ أَتَى الْغَائِطَ فَلْيَسْتَتِرْ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ إِلَّا أَنْ يَجْمَعَ كَثِيبًا مِنْ رَمْلٍ فَلْيَسْتَدْبِرْهُ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَلْعَبُ بِمَقَاعِدِ بَنِي آدَمَ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ثَوْرٍ، قَالَ حُصَيْنٌ الْحِمْيَرِيُّ: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ ثَوْرٍ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخَيْر، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو سَعِيدٍ الْخَيْر هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سرمہ لگائے تو طاق لگائے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں، جو شخص (استنجاء کے لیے) پتھر یا ڈھیلا لے تو طاق لے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو شخص کھانا کھائے تو خلال کرنے سے جو کچھ نکلے اسے پھینک دے، اور جسے زبان سے نکالے اسے نگل جائے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، جو شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو پردہ کرے، اگر پردہ کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو بالو یا ریت کا ایک ڈھیر لگا کر اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے کیونکہ شیطان آدمی کی شرمگاہ سے کھیلتا ہے ۱؎، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے نہیں کیا تو کوئی مضائقہ نہیں“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوعاصم نے ثور سے روایت کی ہے، اس میں (حصین حبرانی کی جگہ) حصین حمیری ہے، اور عبدالملک بن صباح نے بھی اسے ثور سے روایت کیا ہے، اس میں (ابوسعید کی جگہ) ابوسعید الخیر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوسعید الخیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطھارة 23 (338)، الطب 6 (3498)، (تحفة الأشراف: 14938)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضو 26 (162)، صحیح مسلم/الطہارة 8 (237) سنن النسائی/الطھارة 72 (88)، موطا امام مالک/الطھارة 1(2)، مسند احمد (2/236، 237، 308، 401، 371)، سنن الدارمی/الطھارة 5 (689) (ضعیف)» (حصین اور ابوسعید الخیر الحبرانی مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: شیطان کے کھیلنے سے یہ مقصود ہے کہ اگر آڑ نہ ہو گی تو پیچھے سے آ کر کوئی جانور اسے ایذا پہنچا دے گا، یا بے پردگی کی حالت میں دیکھ کر کوئی آدمی آ کر اس کا ٹھٹھا و مذاق اڑائے گا۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: If anyone applies collyrium, he should do it an odd number of times. If he does so, he has done well; but if not, there is no harm. If anyone cleanses himself with pebbles, he should use an odd number. If he does so, he has done well; but if not, there is no harm. If anyone eats, he should throw away what he removes with a toothpick and swallow what sticks to his tongue. If he does so, he has done well; if not, there is no harm. If anyone goes to relieve himself, he should conceal himself, and if all he can do is to collect a heap of send, he should sit with his back to it, for the devil makes sport with the posteriors of the children of Adam. If he does so, he has done well; but if not, there is no harm.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 35
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف،ابن ماجه (337،3498) حصين مجھول كما في تقريب التھذيب (1393) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 15
(مرفوع) حدثنا يزيد بن خالد بن عبد الله بن موهب الهمداني، حدثنا المفضل يعني ابن فضالة المصري، عن عياش بن عباس القتباني، ان شييم بن بيتان اخبره، عن شيبان القتباني، قال: إن مسلمة بن مخلد استعمل رويفع بن ثابت على اسفل الارض، قال شيبان: فسرنا معه من كوم شريك إلى علقماء، او من علقماء إلى كوم شريك يريد علقام. فقال رويفع: إن كان احدنا في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لياخذ نضو اخيه على ان له النصف مما يغنم ولنا النصف. وإن كان احدنا ليطير، له النصل والريش وللآخر القدح، ثم قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا رويفع، لعل الحياة ستطول بك بعدي، فاخبر الناس انه من عقد لحيته او تقلد وترا او استنجى برجع دابة او عظم، فإن محمدا صلى الله عليه وسلم منه بريء". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ يَعْنِي ابْنَ فَضَالَةَ الْمِصْرِيَّ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيِّ، أَنَّ شِيَيْمَ بْنَ بَيْتَانَ أَخْبَرَهُ، عَنْ شَيْبَانَ الْقِتْبَانِيِّ، قَالَ: إِنَّ مَسْلَمَةَ بْنَ مُخَلَّدٍ اسْتَعْمَلَ رُوَيْفِعَ بْنَ ثَابِتٍ عَلَى أَسْفَلِ الْأَرْضِ، قَالَ شَيْبَانُ: فَسِرْنَا مَعَهُ مِنْ كَوْمِ شَرِيكٍ إِلَى عَلْقَمَاءَ، أَوْ مِنْ عَلْقَمَاءَ إِلَى كُومِ شَرِيكٍ يُرِيدُ عَلْقَامَ. فَقَالَ رُوَيْفِعٌ: إِنْ كَانَ أَحَدُنَا فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيَأْخُذُ نِضْوَ أَخِيهِ عَلَى أَنَّ لَهُ النِّصْفَ مِمَّا يَغْنَمُ وَلَنَا النِّصْفُ. وَإِنْ كَانَ أَحَدُنَا لَيَطِيرُ، لَهُ النَّصْلُ وَالرِّيشُ وَلِلْآخَرِ الْقِدْحُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا رُوَيْفِعُ، لَعَلَّ الْحَيَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِي، فَأَخْبِرِ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا أَوِ اسْتَنْجَى بِرَجِعِ دَابَّةٍ أَوْ عَظْمٍ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بَرِيءٌ".
شیبان قتبانی کہتے ہیں کہ مسلمہ بن مخلد نے (جو امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے بلاد مصر کے گورنر تھے) رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ کو (مصر کے) نشیبی علاقے کا عامل مقرر کیا، شیبان کہتے ہیں: تو ہم ان کے ساتھ کوم شریک ۱؎ سے علقماء ۱؎ کے لیے یا علقما ء سے کوم شریک کے لیے روانہ ہوئے، علقماء سے ان کی مراد علقام ہی ہے، رویفع بن ثابت نے (راستے میں مجھ سے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کا اونٹ اس شرط پر لیتا کہ اس سے جو فائدہ حاصل ہو گا اس کا نصف (آدھا) تجھے دوں گا اور نصف (آدھا) میں لوں گا، تو ہم میں سے ایک کے حصہ میں پیکان اور پر ہوتا تو دوسرے کے حصہ میں تیر کی لکڑی۔ پھر رویفع نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”رویفع! شاید کہ میرے بعد تمہاری زندگی لمبی ہو تو تم لوگوں کو خبر کر دینا کہ جس شخص نے اپنی داڑھی میں گرہ لگائی ۲؎ یا جانور کے گلے میں تانت کا حلقہ ڈالا یا جانور کے گوبر، لید یا ہڈی سے استنجاء کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزینة 12 (5070)، (تحفة الأشراف: 8651، 3616)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/108، 109) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”کوم شریک“ اور ”علقماء“ مصر میں دو جگہوں کے نام ہیں۔ ۲؎: داڑھی کو گرہ دینا، یا بالوں کو موڑ کر گھونگریالے بنانا، یا نظر بد سے بچنے کے لئے جانوروں کے گلوں میں تانت کا گنڈا ڈالنا، زمانہ جاہلیت میں رائج تھا، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے منع فرمایا۔
Narrated Ruwayfi ibn Thabit: Shayban al-Qatbani reported that Maslamah ibn Mukhallad made Ruwayfi ibn Thabit the governor of the lower parts (of Egypt). He added: We travelled with him from Kum Sharik to Alqamah or from Alqamah to Kum Sharik (the narrator doubts) for Alqam. Ruwayfi said: Any one of us would borrow a camel during the lifetime of the Prophet ﷺ from the other, on condition that he would give him half the booty, and the other half he would retain himself. Further, one of us received an arrowhead and a feather, and the other an arrow-shaft as a share from the booty. He then reported: The Messenger of Allah ﷺ said: You may live for a long time after I am gone, Ruwayfi, so, tell people that if anyone ties his beard or wears round his neck a string to ward off the evil eye, or cleanses himself with animal dung or bone, Muhammad has nothing to do with him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 36
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (351) وانظر الحديث الآتي
ابوسالم جیشانی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اس وقت سنا جب وہ ان کے ساتھ (مصر میں) باب الیون کے قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: الیون کا قلعہ فسطاط (مصر) میں ایک پہاڑ پر واقع ہے۔
This tradition has also been narrated by Abu Salim al-JAishahni on the authority of Abd Allaah bin Amr. He narrated this tradition at the time when he besieged the fort at the gate of Alyun. Abu Dawud said: The fort of Alyun lies at the mountain in Fustat. Abu Dawud said: The kunyah (surname) of Shaiban bin Umayyah is Abu Hudhaifah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 37
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح انفرد به ابو داود، وانظر الحديث السابق
ابو الزبیر کا بیان ہے کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہڈی یا مینگنی سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطھارة 17 (263)، (تحفة الأشراف: 2709)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/343، 384) (صحیح)»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنوں کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: آپ اپنی امت کو ہڈی، لید (گوبر، مینگنی)، اور کوئلے سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیجئیے کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے روزی بنائی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 9349) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ہڈی جنوں کی اور لید ان کے جانوروں کی خوراک ہے، اور کوئلے سے وہ روشنی کرتے، یا اس پر کھانا پکاتے ہیں، اسی واسطے اس کو بھی روزی میں داخل کیا۔
Narrated Abdullah ibn Masud: A deputation of the jinn came to the Prophet ﷺ and said: O Muhammad, forbid your community to cleans themselves with a bone or dung or charcoal, for in them Allah has provided sustenance for us. So the Prophet ﷺ forbade them to do so.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 39
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (375) اسماعيل بن عياش صرح بالسماع من شيخه الشامي عند الدارقطني (1/ 55) وروايته عن الشاميين مقبولة عند الجمھور (الفتح المبين: 3/68) وانظر دارقطني (1/ 56)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو تین پتھر اپنے ساتھ لے جائے، انہی سے استنجاء کرے، یہ اس کے لیے کافی ہیں“۔
Narrated Aishah, Ummul Muminin: The Messenger of Allah ﷺ said: When any of you goes to relieve himself, he should take with him three stones to cleans himself, for they will be enough for him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 40
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (349) وصححه الدارقطني (1/54،55) وسنده حسن