(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سمي، عن ابي صالح السمان، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح، فكانما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية، فكانما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة، فكانما قرب كبشا اقرن، ومن راح في الساعة الرابعة، فكانما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة، فكانما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ، فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کیا پھر (پہلی گھڑی میں) جمعہ کے لیے (مسجد) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو دوسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک گائے اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک سینگ دار مینڈھا اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو چوتھی گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک مرغی اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں پیش کیا، پھر جب امام (خطبہ کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے بھی آ جاتے ہیں اور ذکر (خطبہ) سننے لگتے ہیں“۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Whoever takes bath due to sexual defilement on Friday and goes out (for Friday prayer), is treated like one who offers a camel as sacrifice; he who goes out in the second instance as one who offers a cow; he who goes out in the third instance is treated as one who offers horned cow ; he who goes out in the fourth instance is treated as one who offers hen ; he who goes out in the fifth instance is treated as one who offers an egg. When the Imam comes out (for sermon), the angels too attend to listen to the sermon.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 351
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (881) صحيح مسلم (850)
(موقوف) حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت:" كان الناس مهان انفسهم، فيروحون إلى الجمعة بهيئتهم، فقيل لهم: لو اغتسلتم". (موقوف) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّاسُ مُهَّانَ أَنْفُسِهِمْ، فَيَرُوحُونَ إِلَى الْجُمُعَةِ بِهَيْئَتِهِمْ، فَقِيلَ لَهُمْ: لَوِ اغْتَسَلْتُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ اپنے کام خود کرتے تھے، اور جمعہ کے لیے اسی حالت میں چلے جاتے تھے (ان کی بو سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، جب اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا) تو ان لوگوں سے کہا گیا: ”کاش تم لوگ غسل کر کے آتے“۔
Aishah said: The people (mostly) were workers and they would come for Friday prayer in the same condition, so it was said to them: If only you were to perform Ghusl.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 352
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (903) صحيح مسلم (847)
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن عمرو بن ابي عمرو، عن عكرمة، ان اناسا من اهل العراق جاءوا، فقالوا: يا ابن عباس، اترى الغسل يوم الجمعة واجبا؟ قال: لا، ولكنه اطهر وخير لمن اغتسل، ومن لم يغتسل فليس عليه بواجب،" وساخبركم كيف بدء الغسل، كان الناس مجهودين يلبسون الصوف ويعملون على ظهورهم وكان مسجدهم ضيقا مقارب السقف إنما هو عريش، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم حار وعرق الناس في ذلك الصوف حتى ثارت منهم رياح آذى بذلك بعضهم بعضا، فلما وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الريح، قال: ايها الناس، إذا كان هذا اليوم فاغتسلوا وليمس احدكم افضل ما يجد من دهنه وطيبه"، قال ابن عباس: ثم جاء الله بالخير، ولبسوا غير الصوف وكفوا العمل ووسع مسجدهم وذهب بعض الذي كان يؤذي بعضهم بعضا من العرق. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ جَاءُوا، فَقَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَتَرَى الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبًا؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ أَطْهَرُ وَخَيْرٌ لمن اغتسل، ومن لم يغتسل فليس عليه بواجب،" وَسَأُخْبِرُكُمْ كَيْفَ بَدْءُ الْغُسْلِ، كَانَ النَّاسُ مَجْهُودِينَ يَلْبَسُونَ الصُّوفَ وَيَعْمَلُونَ عَلَى ظُهُورِهِمْ وَكَانَ مَسْجِدُهُمْ ضَيِّقًا مُقَارِبَ السَّقْفِ إِنَّمَا هُوَ عَرِيشٌ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ حَارٍّ وَعَرِقَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الصُّوفِ حَتَّى ثَارَتْ مِنْهُمْ رِيَاحٌ آذَى بِذَلِكَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَلَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الرِّيحَ، قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمَ فَاغْتَسِلُوا وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُمَّ جَاءَ اللَّهُ بِالْخَيْرِ، وَلَبِسُوا غَيْرَ الصُّوفِ وَكُفُوا الْعَمَلَ وَوُسِّعَ مَسْجِدُهُمْ وَذَهَبَ بَعْضُ الَّذِي كَانَ يُؤْذِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا مِنَ الْعَرَقِ.
عکرمہ کہتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے: اے ابن عباس! کیا جمعہ کے روز غسل کو آپ واجب سمجھتے ہیں؟ آپ نے کہا: نہیں، لیکن جو غسل کرے اس کے لیے یہ بہتر اور پاکیزگی کا باعث ہے، اور جو غسل نہ کرے اس پر واجب نہیں ہے، اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ غسل کی ابتداء کیسے ہوئی: لوگ پریشان حال تھے، اون پہنا کرتے تھے، اپنی پیٹھوں پر بوجھ ڈھوتے تھے، ان کی مسجد بھی تنگ تھی، اس کی چھت نیچی تھی بس کھجور کی شاخوں کا ایک چھپر تھا، (ایک بار) ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت گرمی کے دن نکلے، لوگوں کو کمبل پہننے کی وجہ سے بےحد پسینہ آیا یہاں تک کہ ان کی بدبو پھیلی اور اس سے ایک دوسرے کو تکلیف ہوئی، تو جب یہ بو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”لوگو! جب یہ دن ہوا کرے تو تم غسل کر لیا کرو، اور اچھے سے اچھا جو تیل اور خوشبو میسر ہو لگایا کرو“، ابن عباس کہتے ہیں: پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو وسعت دی، وہ لوگ اون کے علاوہ کپڑے پہننے لگے، خود محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، ان کی مسجد بھی کشادہ ہو گئی، اور پسینے کی بو سے ایک دوسرے کو جو تکلیف ہوتی تھی ختم ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6179)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة 6 (883)، مسند احمد (6/276) (حسن)»
Amr bin Abi Amr and Ikrimah reported: Some people of Iraq came and said: Ibn Abbas, do you regard taking a bath on Friday as obligatory ? He said: No, it is only a means of cleanliness, and is better for one who washes oneself. Anyone who does not take a bath, it is not essential for him. I inform you how the bath (on Friday) commenced. The people were poor and used to wear woolen clothes, and would carry loads on their backs. Their mosque was small and its rood was lowered down. It was a sort of trellis of vine. The Messenger of Allah ﷺ once came out on a hot day and the people perspired profusely in the woolen clothes so much so that foul smell emitted from them and it caused trouble to each other. When the Messenger of Allah ﷺ found the foul smell, he said: O people, when this day (Friday) comes, you should take bath and every one should anoint the best oil and perfume one has. Ibn Abbas then said: Then Allah, the Exalted, provided wealth (to the people) and they wore clothes other than the woolen, and were spared from work, and their mosque became vast. The foul smell that caused trouble to them became non-existent.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 353
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (544) وصححه ابن خزيمة (1755) والحاكم علٰي شرط البخاري (1/280، 281) ووافقه الذھبي وحسنه الحافظ في الفتح الباري (2/362) وسنده حسن
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فهو افضل". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَهُوَ أَفْضَلُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ اچھی بات ہے، اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجمعة 5 (497)، سنن النسائی/الجمعة 9 (1381)، مسند احمد (5/15، 16، 22)، (تحفة الأشراف: 4587) (حسن) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری رحمہ اللہ کا سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع ثابت نہیں، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے،متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ جمعہ کے لئے وضو کافی ہے اور غسل افضل ہے فرض نہیں۔
Narrated Samurah: If any one of you performs ablution (on Friday) that is all right; and if any of you takes a bath, that is better.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 354
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (540) وصححه ابن خزيمة (1757) ورواه شعبة عن قتادة به والحسن البصري صرح بالسماع عند الطوسي في مختصر الأحكام (3/10 ح 334-/467) وسنده حسن
قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے ارادے سے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پانی اور بیر کی پتی سے غسل کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 303 (605)، سنن النسائی/الطھارة 126 (188)، (تحفة الأشراف: 11100)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/61) (صحیح)»
Narrated Qays ibn Asim: I came to the Prophet ﷺ with the intention of embracing Islam. He commanded me to take a bath with water (boiled with) the leaves of the lote-tree.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 355
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (543) سنن النسائي (188) وسنده حسن
(مرفوع) حدثنا مخلد بن خالد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرت عن عثيم بن كليب، عن ابيه، عن جده، انه جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: قد اسلمت، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" الق عنك شعر الكفر يقول: احلق، قال: واخبرني آخر، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال لآخر معه: الق عنك شعر الكفر واختتن". (مرفوع) حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ عَنْ عُثَيْمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَدْ أَسْلَمْتُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلْقِ عَنْكَ شَعْرَ الْكُفْرِ يَقُولُ: احْلِقْ، قَالَ: وأَخْبَرَنِي آخَرُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِآخَرَ مَعَهُ: أَلْقِ عَنْكَ شَعْرَ الْكُفْرِ وَاخْتَتِنْ".
کلیب کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے: میں اسلام لے آیا ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم اپنے (بدن) سے کفر کے بال صاف کراؤ“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”بال منڈوا لو“، عثیم کے والد کا بیان ہے کہ ایک دوسرے شخص نے مجھے یہ خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے شخص سے جو ان کے ساتھ تھا فرمایا: ”تم اپنے (بدن) سے کفر کے بال صاف کرو اور ختنہ کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11168، 15666)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/415) (حسن)» (اس کی سند میں ضعف ہے: ابن جریج اور عثیم کے درمیان ایک راوی مجہول ہے، نیز خود عثیم اور ان کے والد کثیر بن کلیب بھی مجہول ہیں، اس کو تقویت قتادہ اور ابو ہشام کی حدیث سے ہے جو طبرانی میں ہے 19؍14) (صحیح ابی داود: 383)۔
Uthaim bin Kulaib reported from his father (Kuthair) on the authority of his grandfather (Kulaib) that he came to the Prophet ﷺ: I have embraced Islam. The Prophet ﷺ said to him: Remove from yourself the hair that grew during of unbelief, saying "shave them". He further says that another person (other than the grandfather of 'Uthaim) reported to him that the Prophet ﷺ said to another person who accompanied him: Remove from yourself the hair that grew during the period of unbelief and get yourself circumcised.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 356
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف السند منقطع (انظر الأصل) وعثيم بن كليب مجهول الحال وللحديث شاھدان ضعيفان انوار الصحيفه، صفحه نمبر 26
معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حائضہ کے بارے میں دریافت کیا جس کے کپڑے پر (حیض کا) خون لگ جائے، تو انہوں نے کہا: ”وہ اسے دھو ڈالے اور اگر اس کا اثر زائل نہ ہو تو اسے کسی زرد چیز سے (رنگ کر) بدل دے“، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ”مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین تین حیض اکٹھے لگاتار آتے تھے، میں (ایام حیض میں پہنا ہوا) اپنا کپڑا نہیں دھوتی تھی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17971)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/250)، سنن الدارمی/الطھارة 104 (1052) (صحیح)»
Muadhah said that Aishah was asked about (washing) the clothes of a menstruating woman smeared with blood. She said: She should wash it; in case mark is not removed she should change it by applying some yellow color. I had three menstruations together while I lives with the Messenger of Allah ﷺ, but I did not wash my clothes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 357
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أم الحسن: لايعرف حالھا (تقريب: 8718) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 27
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کے پاس سوائے ایک کپڑے کے کوئی اور کپڑا نہیں ہوتا تھا، اسی کپڑے میں اسے حیض (بھی) آتا تھا، اگر اس میں (حیض کا) کچھ خون لگ جاتا تو وہ اپنے تھوک سے اسے تر کرتی پھر اسے تھوک کے ذریعہ ناخن سے کھرچ دیتی تھی۔
Aishah said: Each of us (wives of the Prophet) had only one clothe in which she would menstruate. Whenever it was smeared with blood, she would moisten it with her saliva and scratch it with saliva.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 358
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي، حدثنا بكار بن يحيى، حدثتني جدتي، قالت: دخلت على ام سلمة فسالتها امراة من قريش عن الصلاة في ثوب الحائض، فقالت ام سلمة:" قد كان يصيبنا الحيض على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فتلبث إحدانا ايام حيضها ثم تطهر فتنظر الثوب الذي كانت تقلب فيه، فإن اصابه دم غسلناه وصلينا فيه، وإن لم يكن اصابه شيء تركناه، ولم يمنعنا ذلك من ان نصلي فيه، واما الممتشطة، فكانت إحدانا تكون ممتشطة فإذا اغتسلت لم تنقض ذلك ولكنها تحفن على راسها ثلاث حفنات، فإذا رات البلل في اصول الشعر دلكته ثم افاضت على سائر جسدها". (مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا بَكَّارُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَتْهَا امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ عَنْ الصَّلَاةِ فِي ثَوْبِ الْحَائِضِ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:" قَدْ كَانَ يُصِيبُنَا الْحَيْضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلْبَثُ إِحْدَانَا أَيَّامَ حَيْضِهَا ثُمَّ تَطَّهَّرُ فَتَنْظُرُ الثَّوْبَ الَّذِي كَانَتْ تَقْلِبُ فِيهِ، فَإِنْ أَصَابَهُ دَمٌ غَسَلْنَاهُ وَصَلَّيْنَا فِيهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَصَابَهُ شَيْءٌ تَرَكْنَاهُ، وَلَمْ يَمْنَعْنَا ذَلِكَ مِنْ أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِ، وَأَمَّا الْمُمْتَشِطَةُ، فَكَانَتْ إِحْدَانَا تَكُونُ مُمْتَشِطَةً فَإِذَا اغْتَسَلَتْ لَمْ تَنْقُضْ ذَلِكَ وَلَكِنَّهَا تَحْفِنُ عَلَى رَأْسِهَا ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ، فَإِذَا رَأَتِ الْبَلَلَ فِي أُصُولِ الشَّعْرِ دَلَكَتْهُ ثُمَّ أَفَاضَتْ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهَا".
بکار بن یحییٰ کی دادی سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی تو قریش کی ایک عورت نے ان سے حیض کے کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا، تو ام سلمہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آتا تو ہم میں سے (جسے حیض آتا) وہ اپنے حیض کے دنوں میں ٹھہری رہتی، پھر وہ حیض سے پاک ہو جاتی تو ان کپڑوں کو جن میں وہ حیض سے ہوتی تھی دیکھتی، اگر ان میں کہیں خون لگا ہوتا تو ہم اسے دھو ڈالتے، پھر اس میں نماز پڑھتے، اور اگر ان میں کوئی چیز نہ لگی ہوتی تو ہم انہیں چھوڑ دیتے اور ہمیں ان میں نماز پڑھنے سے یہ چیز مانع نہ ہوتی، رہی ہم میں سے وہ عورت جس کے بال گندھے ہوتے تو وہ جب غسل کرتی تو اپنی چوٹی نہیں کھولتی، البتہ تین لپ پانی لے کر اپنے سر پر ڈالتی، جب وہ بال کی جڑوں تک تری دیکھ لیتی تو ان کو ملتی، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتی۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18298) (ضعیف)» (اس کے راوی بکار بن یحییٰ اور ان کی دادی مجہول ہیں)
Narrated Umm Salamah, Ummul Muminin: Bakkar ibn Yahya said that his grandmother narrated to him: I entered upon Umm Salamah. A woman from the Quraysh asked her about praying with the clothes which a woman wore while she menstruated. Umm Salamah said: We would menstruate in the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ. Then each one of us refrained (from prayer) during menstrual period. When she was purified, she would look at the clothe in which she menstruated. If it were smeared with blood, we would wash it and pray with it; if there were nothing in it, we would leave it and that would not prevent us from praying with it (the same clothe). As regards the woman who had plaited hair - sometimes each of us had plaited hair - when she washed, she would not undo the hair. She would instead pour three handfuls of water upon her head. When she felt moisture in the roots of her hair, she would rub them. Then she would pour water upon her whole body.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 359
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف بكار بن يحيي: مجهول (تقريب: 736) وجدته: لم أعرفھا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 27
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے ایک عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے سنا: جب ہم میں سے کوئی عورت پاکی دیکھ لے تو ایام حیض میں پہنے ہوئے کپڑوں کو وہ کیا کرے؟ کیا اس میں نماز پڑھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اسے دیکھے اگر اس کپڑے میں خون لگا ہوا نظر آئے تو تھوڑے سے پانی سے اسے کھرچ دے اور دھو لے یہاں تک کہ وہ چھوٹ جائے، اور اس میں نماز پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15742) (حسن صحیح)» (اس سند میں ابن اسحاق مدلس راوی ہیں اور عنعنہ سے روایت کی ہے، مگر اگلی سند اور صحیحین کی سندوں میں ثقہ رواة ہیں)
Asma daughter of Abu Bakr said: I heard a woman asking the Messenger of Allah ﷺ: What should any of us to with her clothe (in which she menstruated) when she becomes purified ? Can she pray in that (clothe) ? He said: She should see; if she finds blood in it, she should scratch it with some water and (in case of doubt) sprinkle upon it (some water) and pray so long as she does not find (any blood).
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 360
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن ابن إسحاق صرح بالسماع عند الدارمي (778) وصححه ابن خزيمة (276، وسنده حسن)