خیثمہ نے حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے (اس آیت کے بارے میں) روایت کی: "اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت اور آخرت میں پختہ قول پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ "کہا: یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ"جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ قول ثابت (کلمہ شہادت) سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھے گا۔" قبر کے عذاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا بديل ، عن عبد الله بن شقيق ، عن ابي هريرة ، قال: " إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها، قال حماد: فذكر من طيب ريحها، وذكر المسك، قال: ويقول: اهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الارض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه، فينطلق به إلى ربه عز وجل، ثم يقول: انطلقوا به إلى آخر الاجل، قال: وإن الكافر إذا خرجت روحه، قال حماد، وذكر من نتنها، وذكر لعنا، ويقول اهل السماء: روح خبيثة جاءت من قبل الارض، قال: فيقال: انطلقوا به إلى آخر الاجل "، قال ابو هريرة: فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم ريطة كانت عليه على انفه هكذا.حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا، قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا، وَذَكَرَ الْمِسْكَ، قَالَ: وَيَقُولُ: أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ، قَالَ: وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ، قَالَ حَمَّادٌ، وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا، وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ عَلَى أَنْفِهِ هَكَذَا.
مجھے عبید اللہ بن عمر قواریری نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ہمیں بدیل نے عبد اللہ بن شقیق سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: "جب مومن کی روح نکل جاتی ہے تو وہ فرشتے اس (روح) کو لیتے ہیں اور اسے اوپر کی طرف لے جاتے ہیں۔"حماد نے کہا: انھوں نے اس کی خوشبو کا ذکر کیا اور کستوری کی بات کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آسمان والے کہتے ہیں۔یہ ایک پاکیزہ روح ہے زمین والوں کی طرف سے آئی ہے (اے روح مومن!) تجھ پر اور اس جسم پر جسے تونے آباد کیے رکھا اللہ کی رحمت ہو۔ چنانچہ اسے اس کے رب عزوجل کے پاس لے جایا جاتا ہے پھر وہ فرماتا ہے۔اسے مقررشدہ آخری مدت تک کے لیے (عالی شان ٹھکانے پر) لے جاؤ۔" فرمایا: "اور کافرجب اس کی روح نکلتی ہے۔ حماد نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بدبو اور (اس پر کی جانے والی) لعنتوں کا ذکر کیا۔ اور آسمان والے کہتے ہیں۔گندی روح ہے زمین کی طرف سے آئی ہے فرمایا: تو کہاجاتا ہے اسے مقرر شدہ آخری مدت تک کے لیے (برےٹھکانے) پر لے جاؤ۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر جو آپ کے جسم مبارک پر تھی اس طرح موڑ کر اپنی ناک پر رکھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:"جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اس کو وصول کر کے اسے اوپر لے جاتے ہیں۔"حماد کہتے ہیں،آپ نے روح کی خوشبو اور مشک کا ذکر کیا آپ نے فرمایا:" آسمان والے کہتے ہیں پاکیزہ روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے، اللہ تجھ پر رحمت فرمائے اور اس بدن پر بھی جسے تو آباد کیے ہوئے تھی، پھر اسے اس کے رب عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہےپھر وہ فرماتا ہے اسے وقت مقررہ (برزخ) تک کے لیے لے جاؤ، آپ نے فرمایا:"اور کافر جب اس کی روح نکلتی ہے۔حماد کہتے ہیں، آپ نے اس کی بد بو اور لعنت کا ذکر کیا اور آسمان والے کہتے ہیں پلید روح زمین کی طرف سے آئی ہے سو کہا جاتا ہے اس کو آخر مدت کے لیے(سجین)لے جاؤ۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بدبو کے ذکر پر) اپنی چادر کا پلو اس طرح اپنی ناک پر ڈال لیا۔"
حدثني إسحاق بن عمر بن سليط الهذلي ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، قال: قال انس : كنت مع عمر. ح وحدثنا شيبان بن فروخ واللفظ له، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: كنا مع عمر بين مكة والمدينة، فتراءينا الهلال وكنت رجلا حديد البصر، فرايته وليس احد يزعم انه رآه غيري، قال: فجعلت اقول لعمر اما تراه، فجعل لا يراه، قال: يقول عمر : ساراه وانا مستلق على فراشي، ثم انشا يحدثنا عن اهل بدر، فقال: " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرينا مصارع اهل بدر بالامس، يقول: هذا مصرع فلان غدا إن شاء الله، قال: فقال عمر: فوالذي بعثه بالحق ما اخطئوا الحدود التي حد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فجعلوا في بئر بعضهم على بعض، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتهى إليهم، فقال: يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان، هل وجدتم ما وعدكم الله ورسوله حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني الله حقا، قال عمر: يا رسول الله، كيف تكلم اجسادا لا ارواح فيها؟، قال: ما انتم باسمع لما اقول منهم غير انهم لا يستطيعون ان يردوا علي شيئا ".حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ الْهُذَلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ : كُنْتُ مَعَ عُمَرَ. ح وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ وَكُنْتُ رَجُلًا حَدِيدَ الْبَصَرِ، فَرَأَيْتُهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَآهُ غَيْرِي، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ أَمَا تَرَاهُ، فَجَعَلَ لَا يَرَاهُ، قَالَ: يَقُولُ عُمَرُ : سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالْأَمْسِ، يَقُولُ: هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا الْحُدُودَ الَّتِي حَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا؟، قَالَ: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَرُدُّوا عَلَيَّ شَيْئًا ".
سلیمان بن مغیرہ نے کہا: ہمیں ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو ہم نے پہلی کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں تیز نظر انسان تھا میں نے چاند کو دیکھ لیا۔میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جس کا خیال ہو کہ اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ دیکھ نہیں رہے؟چنانچہ انھوں نے اسے دیکھنا چھوڑ دیا کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے عنقریب میں اپنے بستر پر لیٹا ہوں گا تو اسے دیکھ لوں گا، پھر انھوں نے ہم سے اہل بدرکا واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا۔انھو ں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن پہلے ہمیں بدر (میں قتل ہونے) والوں کے گرنے کی جگہیں دکھا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔"ان شاء اللہ!کل فلاں کے قتل ہونے کی جگہ یہ ہوگی۔"کہا: توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا!وہ لوگ ان جگہوں کے کناروں سے ذرا بھی ادھر اُدھر (قتل) نہیں ہوئے تھے جن کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ان (کی لاشوں) کو ایک دوسرے کے اوپر کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر ان کے پاس پہنچے اور فرمایا: "اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں فلاں بن فلاں!کیا تم نے اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدےکو سچا پایا؟بلاشبہ میں نے اس وعدے کو بالکل سچا پایا ہے جو اللہ نے میرے ساتھ کیا تھا۔" حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان جسموں سے کیسے بات کر رہے ہیں جن میں روحیں ہیں۔؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔مگر وہ میری بات کا کوئی جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے تو ہم نے پہلی کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں تیز نظر انسان تھا میں نے چاند کو دیکھ لیا۔میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جس کا خیال ہو کہ اس نے اسے دیکھ لیا ہے۔(حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ دیکھ نہیں رہے؟چنانچہ انھوں نے اسے دیکھنا چھوڑ دیا کہا: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ رہے تھے عنقریب میں اپنے بستر پر لیٹا ہوں گا تو اسے دیکھ لوں گا،پھر انھوں نے ہم سے اہل بدرکا واقعہ بیان کرنا شروع کر دیا۔انھو ں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن پہلے ہمیں بدر(میں قتل ہونے)والوں کے گرنے کی جگہیں دکھا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے۔"ان شاء اللہ!کل فلاں کے قتل ہونے کی جگہ یہ ہوگی۔"کہا: توحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا!وہ لوگ ان جگہوں کے کناروں سے ذرا بھی ادھر اُدھر (قتل) نہیں ہوئے تھے جن کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر ان (کی لاشوں)کو ایک دوسرے کے اوپر کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر ان کے پاس پہنچے اور فرمایا:"اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں فلاں بن فلاں!کیا تم نے اللہ اور اس کے رسول سے کیے ہوئے وعدےکو سچا پایا؟بلاشبہ میں نے اس وعدے کو بالکل سچا پایا ہے جو اللہ نے میرے ساتھ کیا تھا۔"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان جسموں سے کیسے بات کر رہے ہیں جن میں روحیں ہیں۔؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم لوگ اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔مگر وہ میری بات کا کو ئی جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"
حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك قتلى بدر ثلاثا ثم اتاهم، فقام عليهم فناداهم، فقال: يا ابا جهل بن هشام، يا امية بن خلف، يا عتبة بن ربيعة، يا شيبة بن ربيعة اليس قد وجدتم ما وعد ربكم حقا؟ فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقا "، فسمع عمر قول النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، كيف يسمعوا وانى يجيبوا وقد جيفوا؟، قال: " والذي نفسي بيده ما انتم باسمع لما اقول منهم، ولكنهم لا يقدرون ان يجيبوا "، ثم امر بهم فسحبوا فالقوا في قليب بدر "،حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلَاثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ، فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا "، فَسَمِعَ عُمَرُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَسْمَعُوا وَأَنَّى يُجِيبُوا وَقَدْ جَيَّفُوا؟، قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ لَا يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا "، ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ "،
حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک بدر کے مقتولین کو پڑا رہنے دیا۔پھر آپ گئے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو پکارکر فرمایا: اے ابوجہل بن ہشام!اے امیہ بن خلف!اے عتبہ بن ربیعہ!اےشیبہ بن ربیعہ!کیاتم نے وہ وعدہ سچانہیں پایا جو تمھارے رب نے تم سے کیا تھا؟میں نے تو اپنے رب نے کے وعدے کو سچا پایاہے۔جو اس نے میرے ساتھ کیاتھا!"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد سنا تو عرض کی۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لوگ کیسے سنیں گے اور کہاں سے جواب دیں گے۔جبکہ وہ تولاشیں بن چکے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم اس بات کو جو میں ان سے کہہ رہا ہوں ان کی نسبت زیادہ سننے والے نہیں ہو۔ لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔"پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو انھیں گھسیٹا گیا اور بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔
حضرت انس بن املک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک مقتولین بدرکو رہنے دیا۔ پھر ان کے پاس آئے اور ان پر کھڑے ہو کر ان کوآواز دی۔"اے ابو جہل بن ہشام،اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ،کیا اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس کو وقوع پذیر ہوتے پا لیا۔"کیونکہ میں نے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا اس کو شدنی (واقع ہوتے) پالیا۔"سو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا تو عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے سنیں گے جواب دے سکیں گے، جبکہ یہ لاش بن چکے ہیں؟ آپ نے فرمایا:"اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے جو کہہ رہا ہوں،تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو، لیکن انہیں جواب دینے کی قدرت حاصل نہیں ہے۔"پھرآپ نے اس ان کے بارے میں کھینچنے کا حکم دیا تو انہیں کھینچ کر بدر کے کھڈر میں ڈال دیا گیا۔"
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ جب بدر کا دن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں پر غالب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا بیس پر کئی آدمی قریش کے سرداروں کے لیے ان کی نعشیں ایک کنویں میں ڈالیں گئیں بدر کے کنوؤں میں سے۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن حجر جميعا، عن إسماعيل ، قال ابو بكر حدثنا ابن علية، عن ايوب ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حوسب يوم القيامة عذب "، فقلت: اليس قد قال الله عز وجل فسوف يحاسب حسابا يسيرا سورة الانشقاق آية 8، فقال: " ليس ذاك الحساب إنما ذاك العرض من نوقش الحساب يوم القيامة عذب "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ جَمِيعًا، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حُوسِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عُذِّبَ "، فَقُلْتُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 8، فَقَالَ: " لَيْسَ ذَاكِ الْحِسَابُ إِنَّمَا ذَاكِ الْعَرْضُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عُذِّبَ "،
اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے انھوں نے عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن جس سے حساب لیا گیا وہ عذاب میں مبتلا! ہو گیا۔میں نے عرض کی۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: "عنقریب اس سے آسان حساب لیا جا ئے گا؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ حساب نہیں وہ تو حساب کے لیے پیش ہونا ہے جس سے قیامت کے دن حساب کی پوچھ گچھ ہوئی اسے عذاب (میں ڈال) دیا جائے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کا قیامت کے دن مناقشہ ہوا، (تونے یہ کام کیوں کیا؟) اسے عذاب ہو گا۔"میں نے عرض کیا، کیااللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں ہے، اس کا جلد ہی آسان محاسبہ کیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا:"یہ مناقشہ نہیں ہے، یہ تو بس پیشی ہے جس کا قیامت کے دن حساب میں مناقشہ ہوا، اسے عذاب ہو گا۔"
ابو یونس قشیری نے ہمیں حدیث بیان کی کہا: ہمیں ابن ابی ملیکہ نے قاسم سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا بھی حساب کتاب شروع ہو گیا وہ ہلاک ہو گیا۔"میں نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا: "آسان حساب ہوگا:؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تو حساب کے لیے پیش ہونا ہے لیکن جس سے محاسبے میں پوچھ گچھ شروع ہو گئی وہ ہلاک ہو جا ئے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس کا محاسبہ ہو گیا وہ مارا گیا۔"میں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا للہ کا یہ فرمان نہیں ہے حساب یسیرہو گا؟آپ نے فرمایا:" وہ محض پیشی ہے، لیکن جس کا محاسبہ کے وقت مناقشہ ہوگیا، ہلاک ہو جائے گا۔"
عثمان بن اسود نے ابن ابی ملیکہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جس سے حساب میں پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ بلاک ہوجائے گا۔"پھر ابو یونس کی حدیث کے مانند بیان کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، آپ نے فرمایا:"جس کا حساب وقت مناقشہ ہوا ہلاک ہو جائے گا۔"آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
یحییٰ بن زکریا نے اعمش سے، انھوں نےابو سفیان سے اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نےکہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا: "تم میں سے ہر شخص کو اسی حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا:"تم میں سے ہر شخص کو اسی حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھتا ہو۔"