منصور نے ابو وائل (شقیق) سے، انھوں نے عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم تین لوگ (ایک ساتھ) ہوتو ایک کو چھوڑ کردو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں، یہاں تک کہ تم بہت سے لوگوں میں مل جاؤ، کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ (دوکی سرگوشی) اسے غمزدہ کردے۔"
امام صاحب کے پاس اساتذہ، تین سندوں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم تین افراد ہو تو دو، تیسرے کو چھوڑ کر باہمی سرگوشی نہ کرو، حتی کہ لوگوں سے گھل مل جاؤ، اس لیے کہ اس سے اسے غم ہو گا۔“
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے شقیق سے، انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"جب تم تین لوگ ہوتو اپنے ساتھی کو چھوڑ کر دو آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ یہ چیز اس کو غم زدہ کردے گی۔"
حضرت عبداللہ بن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم تین افراد ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر، دو آدمی سرگوشی نہ کریں، کیونکہ اس سے اسے یقینا غم لاحق ہو گا۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوتے تو جبریل علیہ السلام آپ کو دم کرتے، وہ کہتے: "اللہ کے نام سے، وہ آپ کو بچائے اور ہر بیماری سے شفا دے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اورنظر لگانے والی ہر آنکھ کے شرسے (آپ کومحفوظ رکھے۔) "
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑتے تو جبریل علیہ السلام آپ کو دم کرتے، یہ کلمات پڑھتے، ”اللہ کے نام سے، وہ آپ کو صحت بخشے گا اور ہر بیماری سے شفا دے گا اور حسد کرنے والے کے حسد کے ہر شر سے اور ہر بدنظر کی نظر سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔“
ابونضرہ نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد!کیا آپ بیمار ہوگئے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔"حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ کلمات کہے: "میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتاہوں، ہر چیز سے (حفاظت کے لئے) جو آپ کو تکلیف دے، ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام سے آ پ کو دم کر تا ہوں۔"
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا، اے محمد! آپ بیمار ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”ہاں۔“ تو جبریل علیہ السلام نے یہ دم کیا ”میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے رہی ہے، ہر نفس کے شر اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا بخشے، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔“
ہمام بن منبہ نے کہا: یہ احادیث جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کیں، انھوں نے متعدد احادیث بیان کیں، ان میں سے ایک یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نظر حق (ثابت شدہ بات) ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمام بن منبہ کو بہت سی احادیث سنائیں، ان میں ایک یہ ہے ”نظر بد کا لگنا ثابت ہے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آ پ نے فرمایا: "نظر حق (ثابت شدہ بات) ہے، اگر کوئی ایسی چیز ہوتی جو تقدیر پر سبقت لے جاسکتی تو نظرسبقت ہے جاتی۔اور جب (نظر بد کے علاج کےلیے) تم سے غسل کرنے کے لئے کہا جائے تو غسل کرلو۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر لگنا، درست ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آ سکتی تو نظر بد غالب آ جاتی اور جب تمہیں غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کر لو۔“
حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهودي من يهود بني زريق يقال له لبيد بن الاعصم، قالت: حتى كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخيل إليه انه يفعل الشيء وما يفعله، حتى إذا كان ذات يوم او ذات ليلة دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم دعا ثم دعا، ثم قال يا عائشة: " اشعرت ان الله افتاني فيما استفتيته فيه؟ "، جاءني رجلان، فقعد احدهما عند راسي والآخر عند رجلي، فقال: الذي عند راسي للذي عند رجلي او الذي عند رجلي للذي عند راسي ما وجع الرجل، قال: مطبوب، قال: من طبه؟، قال: لبيد بن الاعصم، قال: في اي شيء؟، قال: في مشط ومشاطة، قال: وجف طلعة ذكر، قال: فاين هو؟، قال: في بئر ذي اروان، قالت: فاتاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه، ثم قال يا عائشة: " والله لكان ماءها نقاعة الحناء، ولكان نخلها رءوس الشياطين "، قالت: فقلت: يا رسول الله، افلا احرقته؟، قال: " لا، اما انا فقد عافاني الله، وكرهت ان اثير على الناس شرا، فامرت بها فدفنت "حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: سَحَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودِيٌّ مِنْ يَهُودِ بَنِي زُرَيْقٍ يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، قَالَتْ: حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ دَعَا ثُمَّ دَعَا، ثُمَّ قَالَ يَا عَائِشَةُ: " أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ؟ "، جَاءَنِي رَجُلَانِ، فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ: الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ أَوِ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي مَا وَجَعُ الرَّجُلِ، قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟، قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ؟، قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ، قَالَ: وَجُفِّ طَلْعَةِ ذَكَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟، قَالَ: فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ، قَالَتْ: فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، ثُمَّ قَالَ يَا عَائِشَةُ: " وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا أَحْرَقْتَهُ؟، قَالَ: " لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا، فَأَمَرْتُ بِهَا فَدُفِنَتْ "
ابن نمیر نے ہشام سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بنی زریق کے ایک یہودی لبید بن اعصم نے جادو کیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا کہ میں یہ کام کر رہا ہوں حالانکہ وہ کام کرتے نہ تھے۔ ایک دن یا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا کی، پھر فرمایا کہ اے عائشہ! تجھے معلوم ہوا کہ اللہ جل جلالہ نے مجھے وہ بتلا دیا جو میں نے اس سے پوچھا؟۔ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک میرے سر کے پاس بیٹھا اور دوسرا پاؤں کے پاس (وہ دونوں فرشتے تھے) جو سر کے پاس بیٹھا تھا، اس نے دوسرے سے کہا جو پاؤں کے پاس بیٹھا تھا اس نے سر کے پاس بیٹھے ہوئے سے کہا کہ اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ وہ بولا کہ اس پر جادو ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے؟ وہ بولا کہ لبید بن اعصم نے۔ پھر اس نے کہا کہ کس میں جادو کیا ہے؟ وہ بولا کہ کنگھی میں اور ان بالوں میں جو کنگھی سے جھڑے اور نر کھجور کے گابھے کے ریشے میں۔ اس نے کہا کہ یہ کہاں رکھا ہے؟ وہ بولا کہ ذی اروان کے کنوئیں میں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ اس کنوئیں پر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! اللہ کی قسم اس کنوئیں کا پانی ایسا تھا جیسے مہندی کا زلال اور وہاں کے کھجور کے درخت ایسے تھے جیسے شیطانوں کے سر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جلا کیوں نہیں دیا؟ (یعنی وہ جو بال وغیرہ نکلے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تو اللہ نے ٹھیک کر دیا، اب مجھے لوگوں میں فساد بھڑکانا برا معلوم ہوا، پس میں نے حکم دیا اور وہ دفن کر دیا گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ بنو زریق کے یہودیوں میں سے ایک یہودی جس کو لبید بن اعصم کہا جاتا تھا، نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا کہ میں یہ کام کر رہا ہوں، حالانکہ آپ وہ کام کر نہیں رہے ہوتے تھے، حتی کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا کی، پھر دعا کی، پھر دعا کی، پھر فرمایا: ”اے عائشہ! کیا تمہیں پتہ چلا، اللہ تعالیٰ سے جو میں نے پوچھا، وہ اس نے مجھے بتلا دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھا، سو جو میرے سرہانے بیٹھا تھا، اس نے میرے پیروں کی طرف بیٹھنے والے سے یا جو میرے پیروں کے پاس تھا، اس نے میرے سرہانے بیٹھنے والے سے پوچھا، اس آدمی کو کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا، اس پر جادو کیا گیا ہے، اس نے پوچھا، اس پر کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا، لبید بن اعصم نے، اس نے پوچھا، کس چیز میں؟ اس نے کہا، کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں اور کہا، نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں، اس نے کہا، اس کو کہاں رکھا ہے؟ اس نے کہا، ذروان کنویں میں“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس کنویں پر گئے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ کی قسم! اس کنویں کا پانی گویا مہندی کا پانی تھا اور اس کی کھجوریں گویا شیطان کے سر تھے۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اس کو جلا کیوں نہ دیا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا بخش دی ہے، اور میں لوگوں میں شر برپا کرنا پسند نہیں کرتا، اس لیے میں نے کنویں کے دفن کرنے کا حکم دیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔“
حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وساق ابو كريب الحديث بقصته نحو حديث ابن نمير، وقال: فيه فذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى البئر فنظر إليها وعليها نخل، وقالت: قلت: يا رسول الله، فاخرجه ولم يقل افلا احرقته، ولم يذكر فامرت بها فدفنت.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: سُحِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ أَبُو كُرَيْبٍ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، وَقَالَ: فِيهِ فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبِئْرِ فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ، وَقَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَخْرِجْهُ وَلَمْ يَقُلْ أَفَلَا أَحْرَقْتَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فَأَمَرْتُ بِهَا فَدُفِنَتْ.
ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے حدیث بیان کی، کہا، ہمیں ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیا ن کی، انھوں نےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا۔اسکے بعد ابو کریب نے واقعے کی تفصیلات سمیت ابن نمیر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی طرف تشریف لئے گئے، اسے دیکھا، اس کنویں پر کھجور کے درخت تھے (جنھیں کسی زمانے میں کنویں کے پانی سےسیراب کیاجاتا ہوگا) انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اسے نکالیں (اور جلادیں) ابو کریب نے: "آپ نے اسے جلا کیوں نہ دیا؟"کے الفاظ نہیں کہے اور یہ الفاظ (بھی) بیان نہیں کیے؛"میں نے اس کے بار ے میں حکم دیا تو اس کو پاٹ دیاگیا۔"
امام صاحب کے استاد ابو کریب مذکورہ بالا روایت سناتے ہیں اور اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی طرف نکلے، اسے دیکھا، اس پر کھجوروں کے درخت تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! اسے نکلوائیے، اس میں یہ نہیں ہے کہ ”آپ نے اسے جلایا کیوں نہیں؟“ اور نہ یہ ہے، ”میرے حکم سے اس کو دفن کر دیا گیا ہے۔“
حدثنا يحيي بن حبيب الحارثي ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا شعبة ، عن هشام بن زيد ، عن انس ، ان امراة يهودية اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاة مسمومة، فاكل منها، فجيء بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالها عن ذلك، فقالت: اردت لاقتلك، قال: " ما كان الله ليسلطك على ذاك "، قال او قال علي: قال: قالوا: الا نقتلها، قال: لا، قال: فما زلت اعرفها في لهوات رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً يَهُودِيَّةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا، فَجِيءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: أَرَدْتُ لِأَقْتُلَكَ، قَالَ: " مَا كَانَ اللَّهُ لِيُسَلِّطَكِ عَلَى ذَاكِ "، قَالَ أَوَ قَالَ عَلَيَّ: قَالَ: قَالُوا: أَلَا نَقْتُلُهَا، قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
خالد بن حارث نے کہا: ہمیں شعبہ نے ہشام بن زید سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلود (پکی ہوئی) بکری لے کر آئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ (گوشت کھایا)(آپ کو اس کے زہر آلود ہونے کاپتہ چل گیا) تو اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایاگیا، آپ نے اس عورت سے اس (زہر) کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: (نعوذ باللہ!) میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں اس بات پر تسلط (اختیار) دے دے۔"انھوں (انس رضی اللہ عنہ) نےکہا: یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (تمھیں) مجھ پر (تسلط دے دے۔) "انھوں (انس رضی اللہ عنہ) نے کہا: صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: کیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "نہیں۔"انھوں (انس رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ) نے کہا: تو میں اب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدہن مبارک کے اندرونی حصے میں اسکے اثرات کو پہچانتاہوں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلودہ بکری لائی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھا لیا تو اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اور آپ نے اس سے اس کا سبب پوچھا؟ اس نے کہا، میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایسے نہیں ہے کہ تجھے اس کی قدرت دیتا یا مجھ پر قدرت دیتا۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا، کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ۔“ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں ہمیشہ اس کے اثرات آپ کے کوے میں پاتا رہا۔