حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وساق ابو كريب الحديث بقصته نحو حديث ابن نمير، وقال: فيه فذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى البئر فنظر إليها وعليها نخل، وقالت: قلت: يا رسول الله، فاخرجه ولم يقل افلا احرقته، ولم يذكر فامرت بها فدفنت.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: سُحِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ أَبُو كُرَيْبٍ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، وَقَالَ: فِيهِ فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبِئْرِ فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ، وَقَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَخْرِجْهُ وَلَمْ يَقُلْ أَفَلَا أَحْرَقْتَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فَأَمَرْتُ بِهَا فَدُفِنَتْ.
ابو کریب نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے حدیث بیان کی، کہا، ہمیں ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیا ن کی، انھوں نےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا۔اسکے بعد ابو کریب نے واقعے کی تفصیلات سمیت ابن نمیر کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی طرف تشریف لئے گئے، اسے دیکھا، اس کنویں پر کھجور کے درخت تھے (جنھیں کسی زمانے میں کنویں کے پانی سےسیراب کیاجاتا ہوگا) انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اسے نکالیں (اور جلادیں) ابو کریب نے: "آپ نے اسے جلا کیوں نہ دیا؟"کے الفاظ نہیں کہے اور یہ الفاظ (بھی) بیان نہیں کیے؛"میں نے اس کے بار ے میں حکم دیا تو اس کو پاٹ دیاگیا۔"
امام صاحب کے استاد ابو کریب مذکورہ بالا روایت سناتے ہیں اور اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی طرف نکلے، اسے دیکھا، اس پر کھجوروں کے درخت تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! اسے نکلوائیے، اس میں یہ نہیں ہے کہ ”آپ نے اسے جلایا کیوں نہیں؟“ اور نہ یہ ہے، ”میرے حکم سے اس کو دفن کر دیا گیا ہے۔“