صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2142. ‏(‏401‏)‏ بَابُ إِسْقَاطِ الْهَدْيِ عَنِ الْمُعْتَمِرِ بَعْدَ مُضِيِّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ وَإِنْ كَانَ قَدْ حَجَّ مِنْ عَامِهِ ذَلِكَ‏.‏
2142. قربانی کے دن گزر جانے کے بعد عمرہ کرنے والے سے قربانی ساقط ہوجاتی ہے اگرچہ اس نے اسی سال حج کیا ہو (یعنی خاص عذر کے وجہ سے حج سے پہلے عمرہ نہیں ہوسکا تھا اور پھر حج کے بعد عمرہ کیا)
حدیث نمبر: 3028
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى ، حدثنا هشام بن عروة ، حدثني ابي ، اخبرتني عائشة ، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم موافين لهلال ذي الحجة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من احب ان يهل بعمرة فليهل، ومن احب ان يهل بحجة فليهل"، فلولا اني اهديت لاهللت بعمرة، فمنهم من اهل بعمرة، ومنهم من اهل بحجة، فحضت قبل ان ادخل مكة، فادركني يوم عرفة وانا حائض، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" دعي عمرتك، وانقضي راسك وامتشطي، واهلي بالحج"، فلما كان ليلة الحصبة ارسل معي عبد الرحمن بن ابي بكر إلى التنعيم فاردفها، فاهلت بعمرة مكان عمرتها، فقضى الله حجتها وعمرتها، ولم يكن في شيء من ذلك هدي، ولا صيام ولا صدقة ، قال ابو بكر: قد كنت بينت في المسالة التي كنت امليتها في التاليف بين الاخبار التي رويت في حجة النبي صلى الله عليه وسلم ان عائشة إنما تركت العمل لعمرتها التي لم يمكنها الطواف لها بالبيت لعلة الحيضة التي حاضتها، لا انها رفضت تلك العمرة، وبينت في ذلك الموضع ان في قول النبي صلى الله عليه وسلم لها:" طوافك يكفيك بحجتك وعمرتك"، دلالة على انها لم ترفض عمرتها، وإنما تركت العمل لها إذ كانت حائضا، ولم يمكنها الطواف لها، وبينت ان قوله، ولم يكن في شيء في ذلك هدي، ولا صدقة، ولا صيام انها ارادت لم يكن في عمرتي التي اعتمرتها بعد الحج هدي، ولا صدقة، ولا صيام، والدليل على صحة هذا التاويل ان النبي صلى الله عليه وسلم قد نحر عن نسائه البقر قبل ان تعتمر عائشة هذه العمرة من التنعيم، الم تسمع قولها: فلما كان يوم النحر ادخل علينا بلحم بقر، فقلنا ما هذا؟ فقيل:" نحر النبي صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقر"، فقد خبرت عائشة انه قد كان في حجها هدي قبل ان تعتمر من التنعيم، وفي خبر محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت في آخر الخبر، قال: تعني النبي صلى الله عليه وسلم:" اخرجي مع عبد الرحمن إلى التنعيم فاهلي بعمرتك"، ففعلت، ثم لم اهد شيئاحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَافِينَ لِهِلالِ ذِي الْحِجَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُهِلَّ بِحَجَّةٍ فَلْيُهِلَّ"، فَلَوْلا أَنِّي أَهْدَيْتُ لأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، فَحِضْتُ قَبْلَ أَنْ أَدْخُلَ مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ"، فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَرْدَفَهَا، فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مَكَانَ عُمْرَتِهَا، فَقَضَى اللَّهُ حَجَّتَهَا وَعُمْرَتَهَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ هَدْيٌ، وَلا صِيَامٌ وَلا صَدَقَةٌ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ كُنْتُ بَيَّنْتُ فِي الْمَسْأَلَةِ الَّتِي كُنْتُ أَمْلَيْتُهَا فِي التَّأْلِيفِ بَيْنَ الأَخْبَارِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَائِشَةَ إِنَّمَا تَرَكَتِ الْعَمَلَ لِعُمْرَتِهَا الَّتِي لَمْ يُمْكِنْهَا الطَّوَافُ لَهَا بِالْبَيْتِ لِعِلَّةِ الْحَيْضَةِ الَّتِي حَاضَتْهَا، لا أَنَّهَا رَفَضَتْ تِلْكَ الْعُمْرَةَ، وَبَيَّنْتُ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ أَنَّ فِيَ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا:" طَوَافُكِ يَكْفِيكِ بِحَجَّتِكِ وَعُمْرَتِكِ"، دَلالَةٌ عَلَى أَنَّهَا لَمْ تَرْفُضْ عُمْرَتَهَا، وَإِنَّمَا تَرَكَتِ الْعَمَلَ لَهَا إِذْ كَانَتْ حَائِضًا، وَلَمْ يُمْكِنْهَا الطَّوَافَ لَهَا، وَبَيَّنْتُ أَنَّ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ، وَلا صَدَقَةٌ، وَلا صِيَامٌ أَنَّهَا أَرَادَتْ لَمْ يَكُنْ فِي عُمْرَتِي الَّتِي اعْتَمَرْتُهَا بَعْدَ الْحَجِّ هَدْيٌ، وَلا صَدَقَةٌ، وَلا صِيَامٌ، وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَحَرَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ قَبْلَ أَنْ تَعْتَمِرَ عَائِشَةُ هَذِهِ الْعُمْرَةَ مِنَ التَّنْعِيمِ، أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَهَا: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ أُدْخِلَ عَلَيْنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْنَا مَا هَذَا؟ فَقِيلَ:" نَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ"، فَقَدْ خَبَّرَتْ عَائِشَةُ أَنَّهُ قَدْ كَانَ فِي حَجِّهَا هَدْيٌ قَبْلَ أَنْ تَعْتَمِرَ مِنَ التَّنْعِيمِ، وَفِي خَبَرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ فِي آخِرِ الْخَبَرِ، قَالَ: تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْرُجِي مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَتِكِ"، فَفَعَلْتُ، ثُمَّ لَمْ أَهْدِ شَيْئًا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذوالحجہ کے شروع میں (سفر حج کے لئے نکلے)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صرف عمرے کا تلبیہ کہنا چاہے وہ صرف عمرے کا تلبیہ پکارے، اور جو حج کا احرام باندھنا چاہے تو وہ باندھ لے اگر میں قربانی کا جانور ساتھ لے کر نہ آ تا تو میں بھی عمرے کا تلبیہ پکارتا۔ لہذا کچھ صحابہ کرام نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا احرام باندھا۔ پھر مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی مجھے حیض شروع ہو گیا پھر عرفہ کے دن تک میں حائضہ ہی رہی۔ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ نے فرمایا: اپنے عمرے کے اعمال چھوڑ دو اور سر کے بال کھول کر کنگھی کرلو اور پھر حج کا احرام باندھ لو۔ پھر جب وادی محصب والی رات آئی تو آپ نے میرے ساتھ سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو تنعیم بھیجا۔ انھوں نے مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر سوار کرلیا۔ تو میں نے اپنے عمرے کی جگہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اماں جی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج اور عمرہ دونوں مکمّل کرادیے لیکن اس میں (بطور کفّارہ) کوئی قربانی، روزے یا صدقہ نہیں دینا پڑا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں مختلف روایات کو باہم متفق اور متحد کرتے وقت میں نے یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عمرے کے اعمال صرف اس لئے چھوڑے تھے کہ وہ حیض کی وجہ سے بیت الله شریف کا طواف نہیں کرسکتی تھیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے عمره فسخ کردیا تھا۔ میں نے اسی مقام پر یہ بھی بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: تمھارا ایک ہی طواف تمھارے حج اور عمرے کے لئے کافی ہوگا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے عمرہ ترک نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے حیض آنے کی وجہ سے عارضی طور پر اس کے اعمال ادا کرنے چھوڑ دیے تھے کیونکہ ان کے لئے حیض کی وجہ سے طواف کرنا ممکن نہیں تھا۔ اور میں نے یہ بھی بیان کردیا تھا کہ حدیث کے یہ الفاظ کہ اس سلسلے میں انھیں کوئی قربانی، روزے اور صدقہ نہیں دینا پڑا اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ حج کے بعد جو عمرہ ادا کیا تھا اس میں کوئی قربانی، روزے یا صدقہ نہیں کیا تھا۔ اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے تنعیم سے ادا کرنے والے اس عمرے سے پہلے نبی کریم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی۔ کیا آپ نے اماں جی کے یہ کلمات نہیں سنے، پھر جب قربانی کا دن آیا تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔ اس طرح اماں جی نے بتادیا کہ ان کے عمرہ تنعیم سے پہلے ان کے حج میں قربانی کی گئی تھی۔ جناب محمد بن عبد الرحمٰن بن نوفل کی روایت کے آخر میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ نے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ا پنے بھائی) عبدالرحمٰن کے ساتھ تنعیم چلی جاؤ اور وہاں سے اپنے عمرے کا احرام باندھ لو تو میں نے ایسے ہی کیا پھر کوئی قربانی بھی نہیں کی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 3029
Save to word اعراب
ثناه ثناه محمد بن عمرو بن تمام، ثنا يحيى بن عبد الله بن بكير، حدثني ميمون بن مخرمة، عن ابيه، قال: وسمعت محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، يقول: سمعت هشام بن عروة يحدث، عن عروة، يقول: سمعت عائشة ، فذكر قصة طويلة، وذكر هذا الكلام الذي ذكرت في آخر الخبر قال: وقال: سمعت محمد بن عبد الرحمن، يحدث عن عروة، عن عائشة ، انها حدثتهم عن عمرتهم بعد الحج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: " حضت فاعتمرت بعد الحج، ثم لم اصم، ولم اهد" ، قال ابو بكر: فهذا الخبر يبين انها ارادت انها لم تصم، ولم تهد بعد تلك العمرة التي اعتمرت من التنعيم، لا قبلهاثناه ثناه مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ تَمَامٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي مَيْمُونُ بْنُ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عُرْوَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، فَذَكَرَ قِصَّةً طَوِيلَةً، وَذَكَرَ هَذَا الْكَلامَ الَّذِي ذَكَرْتُ فِي آخِرِ الْخَبَرِ قَالَ: وَقَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يُحَدِّثُ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُمْ عَنْ عُمْرَتِهِمْ بَعْدَ الْحَجِّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: " حِضْتُ فَاعْتَمَرْتُ بَعْدَ الْحَجِّ، ثُمَّ لَمْ أَصُمْ، وَلَمْ أَهْدِ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ يُبَيِّنُ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنَّهَا لَمْ تَصُمْ، وَلَمْ تَهْدِ بَعْدَ تِلْكَ الْعُمْرَةِ الَّتِي اعْتَمَرَتْ مِنَ التَّنْعِيمِ، لا قَبْلَهَا
حضرت عروہ نے بیان کیا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا۔ پھر پورا قصّہ بیان کیا۔ اور پھر قصّے کے آخر میں مذکورہ بالا کلام ذکر کیا۔ جناب محمد بن عبد الرحمٰن حضرت عروه سے روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں اپنے عمرے کے بارے میں بتایا جو اُنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج ادا کرنے کے بعد ادا کیا تھا۔ اماں جی فرماتی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا تو میں نے حج کے بعد اپنا عمرہ ادا کیا، پھر میں نے نہ روزے رکھے اور نہ قربانی کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اماں جی کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے تنعیم سے عمرہ ادا کرنے کے بعد (بطور کفّارہ) نہ روزے رکھے تھے اور نہ قربانی کی تھی، حج پہلے والا عمرہ مراد نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
2143. ‏(‏402‏)‏ بَابُ إِبَاحَةِ الْحَجِّ عَمَّنْ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ عَنْ نَفْسِهِ مِنَ الْكِبَرِ
2143. جو شخص بڑھاپے کی وجہ سے حج نہ کرسکتا ہو اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص حج کرسکتا ہے
حدیث نمبر: Q3030
Save to word اعراب
والدليل على ان الله عز وجل ولى نبيه بيان ما انزل عليه من الوحي خاصا وعاما، فبين النبي صلى الله عليه وسلم ان الله لم يرد بقوله‏:‏ ‏[‏وان ليس للإنسان إلا ما سعى‏]‏ ‏[‏النجم‏]‏ جميع الاعمال، وان الله إنما اراد بعض السعي لا جميعه، إذ لو كان الله اراد جميع السعي لم يكن الحج إلا لمن حج بنفسه، لم يسقط فرض الحج عن المرء إذا حج عنه، ولم يكتب للمحجوج عنه سعي غيره إذ لم يسع هو بنفسه سعي العمل‏.‏ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَّى نَبِيَّهُ بَيَانَ مَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مِنَ الْوَحْيِ خَاصًّا وَعَامًّا، فَبَيَّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُرِدْ بِقَوْلِهِ‏:‏ ‏[‏وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى‏]‏ ‏[‏النَّجْمِ‏]‏ جَمِيعَ الْأَعْمَالِ، وَأَنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَرَادَ بَعْضَ السَّعْيِ لَا جَمِيعَهُ، إِذْ لَوْ كَانَ اللَّهُ أَرَادَ جَمِيعَ السَّعْيِ لَمْ يَكُنِ الْحَجُّ إِلَّا لِمَنْ حَجَّ بِنَفْسِهِ، لَمْ يَسْقُطْ فَرْضُ الْحَجِّ عَنِ الْمَرْءِ إِذَا حُجَّ عَنْهُ، وَلَمْ يُكْتَبْ لِلْمَحْجُوجِ عَنْهُ سَعْيُ غَيْرِهِ إِذْ لَمْ يَسْعَ هُوَ بِنَفْسِهِ سَعْيَ الْعَمَلِ‏.‏

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 3030
Save to word اعراب
سیدنا فضل رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میرا والد بوڑھا آدمی ہے اور اس پر اللہ کا فریضہ حج فرض ہے لیکن وہ اونٹ پر بیٹھنے کی طاقت نہیں رکھتا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی طرف سے حج ادا کردو۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
2144. ‏(‏403‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الشَّيْخَ الْكَبِيرَ إِذَا اسْتَفَادَ مَالًا بَعْدَ كِبَرِ السِّنِّ وَهُوَ غَنِيٌّ، أَوِ اسْتَفَادَ مَالًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ كَانَ فَرْضُ الْحَجِّ وَاجِبًا عَلَيْهِ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَطِيعٍ أَنْ يَحُجَّ بِنَفْسِهِ،
2144. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب بوڑھا شخص بڑھاپے میں مال کمانے کی وجہ سے مالدار ہوجائے یا اسلام لانے کے بعد اسے دولت حاصل ہوئی ہوتو اس پر حج فرض ہوجاتا ہے اگرچہ وہ خود حج کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
حدیث نمبر: Q3031
Save to word اعراب
والدليل على ان الاستطاعة كما قاله مطلبينا- رحمه الله- استطاعتان إحداهما ببدنه مع ملك ماله، يمكنه الحج عن نفسه وماله، والثانية بملك ماله، يحج عن نفسه غيره، كما تقول العرب‏:‏ انا مستطيع ان ابني داري واخيط ثوبي، يريد بالاجرة او لمن يطيعني، وإن كان غير مستطيع لبناء الدار وخياطة الثوب بنفسه‏.‏ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الِاسْتِطَاعَةَ كَمَا قَالَهُ مُطَّلِبِيُّنَا- رَحِمَهُ اللَّهُ- اسْتِطَاعَتَانِ إِحْدَاهُمَا بِبَدَنِهِ مَعَ مِلْكِ مَالِهِ، يُمْكِنُهُ الْحَجُّ عَنْ نَفْسِهِ وَمَالِهِ، وَالثَّانِيَةُ بِمِلْكِ مَالِهِ، يَحُجُّ عَنْ نَفْسِهِ غَيْرُهُ، كَمَا تَقُولُ الْعَرَبُ‏:‏ أَنَا مُسْتَطِيعٌ أَنْ أَبْنِيَ دَارِي وَأَخِيطَ ثَوْبِي، يُرِيدُ بِالْأُجْرَةِ أَوْ لِمَنْ يُطِيعُنِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَطِيعٍ لِبِنَاءِ الدَّارِ وَخِيَاطَةِ الثَّوْبِ بِنَفْسِهِ‏.‏

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 3031
Save to word اعراب
حدثنا عيسى بن إبراهيم ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني مالك ، ويونس ، والليث ، وابن جريج ، عن ابن شهاب ، عن سليمان بن يسار ، ان عبد الله بن عباس اخبره، قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من خثعم تستفتيه، فجعل الفضل ينظر إليها، وتنظر إليه فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل بيده إلى الشق الآخر، قالت: يا رسول الله، إن فريضة الله في الحج ادركت ابي شيخا كبيرا، لا يستطيع ان يثبت على الراحلة، افاحج عنه؟ قال:" نعم" ، وذلك في حجة الوداع بعضهم يزيد على بعض، قال الليث ، وحدثنيه ابن شهاب ، عن سليمان او ابي سلمة او كليهما، عن ابن عباسحَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، وَيُونُسُ ، وَاللَّيْثُ ، وَابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ بِيَدِهِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" ، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بَعْضُهُمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ اللَّيْثُ ، وَحَدَّثَنِيهِ ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ أَوْ أَبِي سَلَمَةَ أَوْ كِلَيْهِمَا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے اس دوران خثعم قبیلے کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لئے آئی، سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس عورت کو دیکھنا شروع کر دیا اور وہ عورت بھی سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھنے لگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کا چہرہ اپنے دست مبارک سے دوسری طرف پھیر دیا، اُس عورت نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، الله تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے تو ایسے وقت میں میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں جبکہ وہ سواری پر بیٹھنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔ بعض راوی دوسرے سے کچھ زیادہ الفاظ روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
حدیث نمبر: 3032
Save to word اعراب
حدثنا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، قال: سمعت الزهري . ح وحدثنا المخزومي ، حدثنا سفيان . ح وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا ابن عيينة ، عن الزهري ، عن سليمان بن يسار ، عن ابن عباس ، ان امراة من خثعم، سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة النحر، والفضل ردفه، فقالت: يا رسول الله، إن فريضة الله في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يستمسك على الراحلة، هل ترى ان احج عنه؟ قال:" نعم" ، وقال المخزومي: غداة جمع، وقال: ان احج عنه، لم يقل: والفضل ردفه، ولفظ ابن خشرم في المتن مثل حديث عبد الجبار، غير انه قال: افاحج عنه؟ قال:" نعم"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ . ح وحَدَّثَنَا الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ، سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ النَّحْرِ، وَالْفَضْلُ رِدْفُهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَمْسِكُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، هَلْ تَرَى أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" ، وَقَالَ الْمَخْزُومِيُّ: غَدَاةَ جَمْعٍ، وَقَالَ: أَنَّ أَحُجَّ عَنْهُ، لَمْ يَقُلْ: وَالْفَضْلُ رِدْفُهُ، وَلَفْظُ ابْنِ خَشْرَمٍ فِي الْمَتْنِ مِثْلُ حَدِيثِ عَبْدِ الْجَبَّارِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ"
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قربانی والے دن کی صبح کو خثعم قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جبکہ سیدنا فضل رضی اللہ عنہ خود آپ کے پیچھے سواری پر سوار تھے اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فریضہ حج میرے بوڑھے والد پر فرض ہو چکا ہے لیکن وہ سواری پر جم کر بیٹھنے کی استطاعت نہیں رکھتا، آپ کیا حُکم دیتے ہیں، کیا میں اُن کی طرف سے حج ادا کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جناب مخزومی کی روایت میں ہے کہ مزدلفہ کی صبح۔ اور کہا کہ میں ان کی طرف سے حج ادا کردوں اور یہ روایت نہیں کیے کہ سیدنا فضل رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ جناب علی بن خشرم کی روایت کا متن جناب عبدالجبار کی روایت جیسا ہی ہے صرف یہ فرق ہے کہ کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
2145. ‏(‏404‏)‏ بَابُ حَجِّ الْمَرْأَةِ عَنِ الرَّجُلِ‏.‏
2145. عورت، مرد کی طرف سے حج بدل کرسکتی ہے
حدیث نمبر: 3033
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبد الرحمن بن وهب ، حدثنا عمي ، اخبرني مالك ، والليث ، عن ابن شهاب ، ان سليمان بن يسار ، اخبره ان عبد الله بن عباس ، اخبره قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من خثعم تستفتيه، قال: فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، قال: فجعل يصرف وجه الفضل بيده إلى الشق الآخر، قالت: يا رسول الله، إن فريضة الله في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يثبت على الراحلة، افاحج عنه؟ قال:" نعم"، وذلك في حجة الوداع حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمِّي ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، وَاللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، أَخْبَرَهُ قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ تَسْتَفْتِيهِ، قَالَ: فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، قَالَ: فَجَعَلَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ بِيَدِهِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا فضل رضی اللہ عنہ (مزدلفہ کی صبح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔ تو ایک عورت خثعم قبیلے کی آئی، اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھا، اس دوران سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور وہ عورت بھی اُن کی طرف دیکھنے لگی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری جانب کردیا۔ اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، الله تعالیٰ کا اپنے بندوں پرفریضہ حج میرے بوڑھے والد پر فرض ہوچکا ہے لیکن وہ سواری پر بیٹھنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں، کیا میں اُن کی طرف سے حج ادا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ یہ واقعہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر پیش آیا تھا۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
2146. ‏(‏405‏)‏ بَابُ الْحَجِّ عَنِ الْمَيِّتِ بِذِكْرِ خَبَرٍ مُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسَّرٍ عَلَى أَصْلِنَا‏.‏
2146. میت کی طرف سے حج کرنے کا بیان اس سلسلے میں وارد روایت ہمارے اصول کے مطابق مجمل ہے، مفصل نہیں ہے
حدیث نمبر: 3034
Save to word اعراب
حدثنا عمران بن موسى القزاز ، عن عبد الوارث بن سعيد ، حدثنا ابو التياح ، حدثنا موسى بن سلمة الهذلي ، قال: انطلقت انا، وسنان بن سلمة معتمرين، فلما نزلنا البطحاء، قلت: انطلق إلى ابن العباس نتحدث إليه، قال: قلت يعني لابن عباس إن والدة لي بالمصر، وإني اغزو في هذه المغازي افيجزئ عنها ان اعتق، وليست معي؟ قال: افلا انبئك باعجب من ذلك. امرت امراة سنان بن عبد الله الجهني ان تسال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ان امها ماتت، وما تحج اما تجزئ عن امها ان تحج عنها قال:" نعم، لو كان على امها دين قضته عنها، الم يكن يجزئ عنها، فلتحج عن امها" حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ سَلَمَةَ الْهُذَلِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَسِنَانُ بْنُ سَلَمَةَ مُعْتَمِرِينَ، فَلَمَّا نَزَلْنَا الْبَطْحَاءَ، قُلْتُ: انْطَلِقْ إِلَى ابْنِ الْعَبَّاسِ نَتَحَدَّثْ إِلَيْهِ، قَالَ: قُلْتُ يَعْنِي لابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ وَالِدَةً لِي بِالْمِصْرِ، وَإِنِّي أَغْزُو فِي هَذِهِ الْمَغَازِي أَفَيُجْزِئُ عَنْهَا أَنْ أُعْتِقَ، وَلَيْسَتْ مَعِي؟ قَالَ: أَفَلا أُنَبِّئُكَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذَلِكَ. أَمَرْتُ امْرَأَةَ سِنَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ أَنْ تَسْأَلَ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أُمَّهَا مَاتَتْ، وَمَا تَحُجُّ أَمَا تُجْزِئُ عَنْ أُمِّهَا أَنْ تَحُجَّ عَنْهَا قَالَ:" نَعَمْ، لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّهَا دَيْنٌ قَضَتْهُ عَنْهَا، أَلَمْ يَكُنْ يُجْزِئُ عَنْهَا، فَلْتَحُجَّ عَنْ أُمِّهَا"
جناب موسیٰ بن سلمہ ہذلی بیان کرتے ہیں کہ میں اور سنان بن سلمہ عمرہ ادا کرنے کے لئے گئے، جب ہم وادی بطحا میں اُترے تو میں نے کہا کہ چلو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس حاضر ہوکر اُن سے گفتگو کرتے ہیں۔ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ میری والدہ محترمہ مصر میں ہیں اور میں ادھر غزوات میں شریک رہتا ہوں کیا اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کروں تو اُنھیں اس کا اجر وثواب ملے گا جبکہ وہ میرے ساتھ نہیں ہیں؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کیا میں تمھیں اس سے بھی زیادہ تعجب والی بات نہ بتاؤں؟ میں نے سنان بن عبدالجہنی کی بیوی سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا یہ مسئلہ پوچھے کہ ان کی والدہ فوت ہوگئی ہیں اور انھوں نے حج نہیں کیا تھا، اگر وہ اُن کی طرف سے حج ادا کریں تو کیا وہ انھیں کفایت کریگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر اس کی والدہ کے ذمہ قرض ہوتا اور وہ ان کی طرف سے ادا کرتی تو کیا وہ اسے کفایت نہ کرتا، اُسے چاہیے کہ وہ اپنی والدہ کی طرف سے حج ادا کرے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3035
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ابي التياح ، عن موسى بن سلمة ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: قال فلان الجهني: يا رسول الله، إن ابي مات، وهو شيخ كبير لم يحج، او لا يستطيع الحج، قال: " حج عن ابيك" حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: قَالَ فُلانٌ الْجُهَنِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي مَاتَ، وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَمْ يَحُجَّ، أَوْ لا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ، قَالَ: " حُجَّ عَنْ أَبِيكَ"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ فلاں جہنی شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، میرے والد بڑھاپے میں فوت ہو گئے ہیں اور حج نہیں کر سکے، یا وہ حج کرنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج کرلو۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

Previous    45    46    47    48    49    50    51    52    53    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.