صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2142. ‏(‏401‏)‏ بَابُ إِسْقَاطِ الْهَدْيِ عَنِ الْمُعْتَمِرِ بَعْدَ مُضِيِّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ وَإِنْ كَانَ قَدْ حَجَّ مِنْ عَامِهِ ذَلِكَ‏.‏
2142. قربانی کے دن گزر جانے کے بعد عمرہ کرنے والے سے قربانی ساقط ہوجاتی ہے اگرچہ اس نے اسی سال حج کیا ہو (یعنی خاص عذر کے وجہ سے حج سے پہلے عمرہ نہیں ہوسکا تھا اور پھر حج کے بعد عمرہ کیا)
حدیث نمبر: 3028
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى ، حدثنا هشام بن عروة ، حدثني ابي ، اخبرتني عائشة ، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم موافين لهلال ذي الحجة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من احب ان يهل بعمرة فليهل، ومن احب ان يهل بحجة فليهل"، فلولا اني اهديت لاهللت بعمرة، فمنهم من اهل بعمرة، ومنهم من اهل بحجة، فحضت قبل ان ادخل مكة، فادركني يوم عرفة وانا حائض، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" دعي عمرتك، وانقضي راسك وامتشطي، واهلي بالحج"، فلما كان ليلة الحصبة ارسل معي عبد الرحمن بن ابي بكر إلى التنعيم فاردفها، فاهلت بعمرة مكان عمرتها، فقضى الله حجتها وعمرتها، ولم يكن في شيء من ذلك هدي، ولا صيام ولا صدقة ، قال ابو بكر: قد كنت بينت في المسالة التي كنت امليتها في التاليف بين الاخبار التي رويت في حجة النبي صلى الله عليه وسلم ان عائشة إنما تركت العمل لعمرتها التي لم يمكنها الطواف لها بالبيت لعلة الحيضة التي حاضتها، لا انها رفضت تلك العمرة، وبينت في ذلك الموضع ان في قول النبي صلى الله عليه وسلم لها:" طوافك يكفيك بحجتك وعمرتك"، دلالة على انها لم ترفض عمرتها، وإنما تركت العمل لها إذ كانت حائضا، ولم يمكنها الطواف لها، وبينت ان قوله، ولم يكن في شيء في ذلك هدي، ولا صدقة، ولا صيام انها ارادت لم يكن في عمرتي التي اعتمرتها بعد الحج هدي، ولا صدقة، ولا صيام، والدليل على صحة هذا التاويل ان النبي صلى الله عليه وسلم قد نحر عن نسائه البقر قبل ان تعتمر عائشة هذه العمرة من التنعيم، الم تسمع قولها: فلما كان يوم النحر ادخل علينا بلحم بقر، فقلنا ما هذا؟ فقيل:" نحر النبي صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقر"، فقد خبرت عائشة انه قد كان في حجها هدي قبل ان تعتمر من التنعيم، وفي خبر محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت في آخر الخبر، قال: تعني النبي صلى الله عليه وسلم:" اخرجي مع عبد الرحمن إلى التنعيم فاهلي بعمرتك"، ففعلت، ثم لم اهد شيئاحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَافِينَ لِهِلالِ ذِي الْحِجَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُهِلَّ بِحَجَّةٍ فَلْيُهِلَّ"، فَلَوْلا أَنِّي أَهْدَيْتُ لأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، فَحِضْتُ قَبْلَ أَنْ أَدْخُلَ مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ"، فَلَمَّا كَانَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَرْدَفَهَا، فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مَكَانَ عُمْرَتِهَا، فَقَضَى اللَّهُ حَجَّتَهَا وَعُمْرَتَهَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ هَدْيٌ، وَلا صِيَامٌ وَلا صَدَقَةٌ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ كُنْتُ بَيَّنْتُ فِي الْمَسْأَلَةِ الَّتِي كُنْتُ أَمْلَيْتُهَا فِي التَّأْلِيفِ بَيْنَ الأَخْبَارِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَائِشَةَ إِنَّمَا تَرَكَتِ الْعَمَلَ لِعُمْرَتِهَا الَّتِي لَمْ يُمْكِنْهَا الطَّوَافُ لَهَا بِالْبَيْتِ لِعِلَّةِ الْحَيْضَةِ الَّتِي حَاضَتْهَا، لا أَنَّهَا رَفَضَتْ تِلْكَ الْعُمْرَةَ، وَبَيَّنْتُ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ أَنَّ فِيَ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا:" طَوَافُكِ يَكْفِيكِ بِحَجَّتِكِ وَعُمْرَتِكِ"، دَلالَةٌ عَلَى أَنَّهَا لَمْ تَرْفُضْ عُمْرَتَهَا، وَإِنَّمَا تَرَكَتِ الْعَمَلَ لَهَا إِذْ كَانَتْ حَائِضًا، وَلَمْ يُمْكِنْهَا الطَّوَافَ لَهَا، وَبَيَّنْتُ أَنَّ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ، وَلا صَدَقَةٌ، وَلا صِيَامٌ أَنَّهَا أَرَادَتْ لَمْ يَكُنْ فِي عُمْرَتِي الَّتِي اعْتَمَرْتُهَا بَعْدَ الْحَجِّ هَدْيٌ، وَلا صَدَقَةٌ، وَلا صِيَامٌ، وَالدَّلِيلُ عَلَى صِحَّةِ هَذَا التَّأْوِيلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَحَرَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ قَبْلَ أَنْ تَعْتَمِرَ عَائِشَةُ هَذِهِ الْعُمْرَةَ مِنَ التَّنْعِيمِ، أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَهَا: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ أُدْخِلَ عَلَيْنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْنَا مَا هَذَا؟ فَقِيلَ:" نَحَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ"، فَقَدْ خَبَّرَتْ عَائِشَةُ أَنَّهُ قَدْ كَانَ فِي حَجِّهَا هَدْيٌ قَبْلَ أَنْ تَعْتَمِرَ مِنَ التَّنْعِيمِ، وَفِي خَبَرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ فِي آخِرِ الْخَبَرِ، قَالَ: تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْرُجِي مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَتِكِ"، فَفَعَلْتُ، ثُمَّ لَمْ أَهْدِ شَيْئًا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذوالحجہ کے شروع میں (سفر حج کے لئے نکلے)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صرف عمرے کا تلبیہ کہنا چاہے وہ صرف عمرے کا تلبیہ پکارے، اور جو حج کا احرام باندھنا چاہے تو وہ باندھ لے اگر میں قربانی کا جانور ساتھ لے کر نہ آ تا تو میں بھی عمرے کا تلبیہ پکارتا۔ لہذا کچھ صحابہ کرام نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا احرام باندھا۔ پھر مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی مجھے حیض شروع ہو گیا پھر عرفہ کے دن تک میں حائضہ ہی رہی۔ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ نے فرمایا: اپنے عمرے کے اعمال چھوڑ دو اور سر کے بال کھول کر کنگھی کرلو اور پھر حج کا احرام باندھ لو۔ پھر جب وادی محصب والی رات آئی تو آپ نے میرے ساتھ سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو تنعیم بھیجا۔ انھوں نے مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر سوار کرلیا۔ تو میں نے اپنے عمرے کی جگہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اماں جی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج اور عمرہ دونوں مکمّل کرادیے لیکن اس میں (بطور کفّارہ) کوئی قربانی، روزے یا صدقہ نہیں دینا پڑا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں مختلف روایات کو باہم متفق اور متحد کرتے وقت میں نے یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عمرے کے اعمال صرف اس لئے چھوڑے تھے کہ وہ حیض کی وجہ سے بیت الله شریف کا طواف نہیں کرسکتی تھیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے عمره فسخ کردیا تھا۔ میں نے اسی مقام پر یہ بھی بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: تمھارا ایک ہی طواف تمھارے حج اور عمرے کے لئے کافی ہوگا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے عمرہ ترک نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے حیض آنے کی وجہ سے عارضی طور پر اس کے اعمال ادا کرنے چھوڑ دیے تھے کیونکہ ان کے لئے حیض کی وجہ سے طواف کرنا ممکن نہیں تھا۔ اور میں نے یہ بھی بیان کردیا تھا کہ حدیث کے یہ الفاظ کہ اس سلسلے میں انھیں کوئی قربانی، روزے اور صدقہ نہیں دینا پڑا اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ حج کے بعد جو عمرہ ادا کیا تھا اس میں کوئی قربانی، روزے یا صدقہ نہیں کیا تھا۔ اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے تنعیم سے ادا کرنے والے اس عمرے سے پہلے نبی کریم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی۔ کیا آپ نے اماں جی کے یہ کلمات نہیں سنے، پھر جب قربانی کا دن آیا تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔ اس طرح اماں جی نے بتادیا کہ ان کے عمرہ تنعیم سے پہلے ان کے حج میں قربانی کی گئی تھی۔ جناب محمد بن عبد الرحمٰن بن نوفل کی روایت کے آخر میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ نے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ا پنے بھائی) عبدالرحمٰن کے ساتھ تنعیم چلی جاؤ اور وہاں سے اپنے عمرے کا احرام باندھ لو تو میں نے ایسے ہی کیا پھر کوئی قربانی بھی نہیں کی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.