ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
2142. قربانی کے دن گزر جانے کے بعد عمرہ کرنے والے سے قربانی ساقط ہوجاتی ہے اگرچہ اس نے اسی سال حج کیا ہو (یعنی خاص عذر کے وجہ سے حج سے پہلے عمرہ نہیں ہوسکا تھا اور پھر حج کے بعد عمرہ کیا)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذوالحجہ کے شروع میں (سفر حج کے لئے نکلے)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو صرف عمرے کا تلبیہ کہنا چاہے وہ صرف عمرے کا تلبیہ پکارے، اور جو حج کا احرام باندھنا چاہے تو وہ باندھ لے اگر میں قربانی کا جانور ساتھ لے کر نہ آ تا تو میں بھی عمرے کا تلبیہ پکارتا۔ لہذا کچھ صحابہ کرام نے عمرے کا احرام باندھا اور کچھ نے حج کا احرام باندھا۔ پھر مکّہ مکرّمہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی مجھے حیض شروع ہو گیا پھر عرفہ کے دن تک میں حائضہ ہی رہی۔ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے عمرے کے اعمال چھوڑ دو اور سر کے بال کھول کر کنگھی کرلو اور پھر حج کا احرام باندھ لو۔ پھر جب وادی محصب والی رات آئی تو آپ نے میرے ساتھ سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو تنعیم بھیجا۔ انھوں نے مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر سوار کرلیا۔ تو میں نے اپنے عمرے کی جگہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اماں جی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج اور عمرہ دونوں مکمّل کرادیے لیکن اس میں (بطور کفّارہ) کوئی قربانی، روزے یا صدقہ نہیں دینا پڑا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں مختلف روایات کو باہم متفق اور متحد کرتے وقت میں نے یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عمرے کے اعمال صرف اس لئے چھوڑے تھے کہ وہ حیض کی وجہ سے بیت الله شریف کا طواف نہیں کرسکتی تھیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے عمره فسخ کردیا تھا۔ میں نے اسی مقام پر یہ بھی بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ”تمھارا ایک ہی طواف تمھارے حج اور عمرے کے لئے کافی ہوگا۔“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے عمرہ ترک نہیں کیا تھا بلکہ انھوں نے حیض آنے کی وجہ سے عارضی طور پر اس کے اعمال ادا کرنے چھوڑ دیے تھے کیونکہ ان کے لئے حیض کی وجہ سے طواف کرنا ممکن نہیں تھا۔ اور میں نے یہ بھی بیان کردیا تھا کہ حدیث کے یہ الفاظ کہ اس سلسلے میں انھیں کوئی قربانی، روزے اور صدقہ نہیں دینا پڑا اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ حج کے بعد جو عمرہ ادا کیا تھا اس میں کوئی قربانی، روزے یا صدقہ نہیں کیا تھا۔ اس تاویل کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے تنعیم سے ادا کرنے والے اس عمرے سے پہلے نبی کریم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی۔ کیا آپ نے اماں جی کے یہ کلمات نہیں سنے، پھر جب قربانی کا دن آیا تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیسا گوشت ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔ اس طرح اماں جی نے بتادیا کہ ان کے عمرہ تنعیم سے پہلے ان کے حج میں قربانی کی گئی تھی۔ جناب محمد بن عبد الرحمٰن بن نوفل کی روایت کے آخر میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ نے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ا پنے بھائی) عبدالرحمٰن کے ساتھ تنعیم چلی جاؤ اور وہاں سے اپنے عمرے کا احرام باندھ لو“ تو میں نے ایسے ہی کیا پھر کوئی قربانی بھی نہیں کی۔