ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانوروں کوقتل کرنے والے شخص پر کوئی گناہ نہیں وہ یہ ہیں، بچّھُو، چیل، چوہیا، اور کاٹنے والا کتّا (اور کوّا)۔“
سیدنا ابوہریر رضی اللہ عنہ سے بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کی مثل مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانوروں کے قتل کرنے پر مجرم شخص کو کوئی گناہ نہیں ہے، کوّا، چیل، پچُّھو، چوہیا، اور کاٹنے والا کُتّا۔“ سیدنا ابوہریر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ مختلف آۓ ہیں کہ ”سانپ، بھیڑیا، اور کاٹنے والا کُتّا “۔ انہیں قتل کرنے پر مجرم کو کوئی گناہ نہیں ہے۔ جناب ابن ابی مریم بھی یہ حدیث بیان کرتے ہیں مگر ان کی روایت میں ان الفاظ کا ذکر ہے، ”سانپ، بھیڑیا، چیتا اور کاٹنے والا کُتّا “ جناب محمد بن یحیٰی فرماتے ہیں، گویا کہ انہوں نے کھاٹنے والے کُتّے کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد سانپ، بھیڑیا اور چیتا ہے۔
حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابن بحر ، ثني حاتم ، حدثنا ابن عجلان ، عن القعقاع ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " خمس قتلهن حل في الحرم: الحية، والعقرب، والفارة، والحداة، والكلب العقور" ، قال ابو بكر: هذه اللفظة التي قالها محمد بن يحيى في تفسير الكلب العقور، وذكر الحية يشبه ان يكون سبقه لسانه إلى هذا، ليست الحية من الكلب في شيء، ولا يقع اسم الكلب على الحية، فاما النمر والذئب فاسم الكلب واقع عليهما، في خبر حاتم بن إسماعيل بيان ان النبي صلى الله عليه وسلم قد فرق بين الحية وبين الكلب العقور، فكيف يكون معنى قوله في هذا الخبر: الكلب العقور يريد الحية، إنها تقع اسم الكلب عليهاحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ بَحْر ، ثني حَاتِمٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلانَ ، عَنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَمْسٌ قَتْلُهُنَّ حِلٌّ فِي الْحَرَمِ: الْحَيَّةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ الَّتِي قَالَهَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى فِي تَفْسِيرِ الْكَلْبِ الْعَقُورِ، وَذِكْرِ الْحَيَّةِ يُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ سَبَقَهُ لِسَانُهُ إِلَى هَذَا، لَيْسَتِ الْحَيَّةُ مِنَ الْكَلْبِ فِي شَيْءٍ، وَلا يَقَعُ اسْمُ الْكَلْبِ عَلَى الْحَيَّةِ، فَأَمَّا النَّمِرُ وَالذِّئْبُ فَاسْمُ الْكَلْبِ وَاقِعٌ عَلَيْهِمَا، فِي خَبَرِ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بَيَانٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَرَّقَ بَيْنَ الْحَيَّةِ وَبَيْنَ الْكَلْبِ الْعَقُورِ، فَكَيْفَ يَكُونُ مَعْنَى قَوْلِهِ فِي هَذَا الْخَبَرِ: الْكَلْبَ الْعَقُورَ يُرِيدُ الْحَيَّةَ، إِنَّهَا تَقَعُ اسْمُ الْكَلْبِ عَلَيْهَا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانوروں کو حرم کی حدود میں مارنا جائز ہے، سانپ، بچّھو، چوہیا، چیل اور کاٹنے والا کُتّا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام محمد بن یحییٰ نے کاٹنے والے کُتّے کی تفسیر کرتے ہوئے سانپ کا ذکر کیا ہے ممکن ہے کہ ان کی سبقت لسانی ہو کیونکہ سانپ کا کُتّے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ سانپ پر کُتّے کا لفظ بولا جاتا ہے۔ البتہ چیتے اور بھیٹریے پر کُتّے کا اطلاق ہوتا ہے۔ جناب حاتم بن اسماعیل کی روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سانپ اور کاٹنے والے کُتّے میں فرق کیا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس روایت میں کاٹنے والے کُتّے سے مراد سانپ ہو کہ سانپ پر کُتّے کا لفظ بولا جاتا ہے۔
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اباح للمحرم قتل بعض الغربان لا كلها، وإنه إنما اباح قتل الابقع منها دون ما سواه من الغربان وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَبَاحَ لِلْمُحْرِمِ قَتْلَ بَعْضِ الْغِرْبَانِ لَا كُلِّهَا، وَإِنَّهُ إِنَّمَا أَبَاحَ قَتْلَ الْأَبْقَعِ مِنْهَا دُونَ مَا سِوَاهُ مِنَ الْغِرْبَانِ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کوّے مارنے کا حُکم دیا ہے۔ سب کوّوَں کو مارنے کا حُکم نہیں دیا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”پانچ شریر جانور ہیں انہیں حل (حرم سے باہر) اور حرم دونوں جگہوں پر قتل کردیا جائے، سانپ، چتکبرا کوا، چوہیا، کاٹنے والا کتّا اور چیل۔“
وإسقاط الكفارة عن فاعله ضد مذهب من زعم ان الكفارة واجبة عليه وإن كان جاهلا، بان التطيب ولبس ما لبس من الثياب غير جائز له بذكر خبر لفظة في الطيب، غلط في الاحتجاح بها بعض من كره الطيب عند الإحرام قبل ان يحرم المرء، ممن لم يميز بين المقدم وبين المؤخر من سنن النبي صلى الله عليه وسلم ولا يفرق بين المجمل من الاخبار وبين المفسر منها وَإِسْقَاطِ الْكَفَّارَةِ عَنْ فَاعِلِهِ ضِدَّ مَذْهَبِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْكَفَّارَةَ وَاجِبَةٌ عَلَيْهِ وَإِنْ كَانَ جَاهِلًا، بِأَنَّ التَّطَيُّبَ وَلُبْسَ مَا لُبِسَ مِنَ الثِّيَابِ غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ بِذِكْرِ خَبَرِ لَفْظَةٍ فِي الطِّيبِ، غَلِطَ فِي الِاحْتِجَاحِ بِهَا بَعْضُ مَنْ كَرِهَ الطِّيبَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ الْمَرْءُ، مِمَّنْ لَمْ يُمَيِّزْ بَيْنَ الْمُقَدَّمِ وَبَيْنَ الْمُؤَخَّرِ مِنْ سُنَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ الْمُجْمَلِ مِنَ الْأَخْبَارِ وَبَيْنَ الْمُفَسَّرِ مِنْهَا
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، اخبرني عطاء ، حدثني صفوان بن يعلى بن امية , ان يعلى بن امية، قال لعمر: ليت اني ارى النبي صلى الله عليه وسلم حين يتنزل عليه، فلما كان بالجعرانة وعليه ثوب قد ظلل عليه معه فيه ناس من اصحابه، قال: فجاءه رجل قد تضمخ بطيب، قال: يا رسول الله، كيف ترى في رجل احرم في جبة بعدما تضمخ بطيب؟ قال: فنظر إليه ساعة، ثم انزل عليه الوحي، فارسل عمر إلى يعلى ان تعال فجاءه فادخل راسه، فإذا محمر وجهه كذلك ساعة، ثم سري عنه، ثم قال:" اين الذي يسالني عن العمرة آنفا؟" فالتمس الرجل، فامر به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اما الطيب الذي بك فاغسلها ثلاث مرات، واما الجبة فانزعها، ثم اصنع في عمرتك ما تصنع في حجتك" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ , أَنَّ يَعْلَى بْنَ أُمَيَّةَ، قَالَ لِعُمَرَ: لَيْتَ أَنِّي أَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَتَنَزَّلُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ مَعَهُ فِيهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ قَدْ تَضَمَّخَ بِطِيبٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ بَعْدَمَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ سَاعَةً، ثُمَّ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى يَعْلَى أَنْ تَعَالَ فَجَاءَهُ فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ، فَإِذَا مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ كَذَلِكَ سَاعَةً، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ الَّذِي يَسْأَلُنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا؟" فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزَعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَا تَصْنَعُ فِي حَجَّتِكَ"
حضرت صفوان بن یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ سکوں جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ پر اتفاق سے جب آپ جعرانہ مقام پر تھے اور آپ پر ایک کپڑے سے سایہ کیا ہوا تھا۔ اس سایہ کے پیچھے آپ کے کچھ صحابہ کرام بھی تھے۔ اسی اثناء میں ایک شخص آپ کے پاس اس حالت میں آیا کہ وہ خوشبو میں لتھڑا ہوا تھا۔ اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا حُکم ہے جس نے خوشبو میں لت پت ہونے کے بعد ایک جبے میں احرام باندھ لیا ہو؟ آپ نے کچھ دیر اُس کی طرف دیکھا، پھر آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ آ جاؤ (اور اپنی خواہش پوری کرلو) لہذا وہ آ گئے اور اپنا سر اس سائبان میں داخل کردیا۔ اچانک انہوں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہے، کچھ دیر یہی کیفیت رہی پھر وحی پوری ہونے کے بعد یہ کیفیت ختم ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ابھی ابھی مجھ سے عمرے کے متعلق پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟“ اُس شخص کو تلاش کرکے حاضر کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا کہ اپنے جسم پر لگی خوشبو کوتین بار دهو ڈالو اور جبہ اتار دو (دوسری دو چادریں پہن لو) پھر اپنے عمرے میں وہی اعمال کرو جو تم اپنے حج میں کرتے ہو“۔
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم لما امر المحرم في الجبة بعد النضخ بالطيب يغسل ذلك الطيب إذا كان ما تطيب به من طيب النساء خلوقا، لا ذاك الطيب التي هي من طيب الرجال التي قد تطيب به النبي صلى الله عليه وسلم عند الإحرام وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَمَرَ الْمُحْرِمَ فِي الْجُبَّةِ بَعْدَ النَّضْخِ بِالطِّيبِ يَغْسِلُ ذَلِكَ الطِّيبَ إِذَا كَانَ مَا تَطَّيَبُ بِهِ مِنْ طِيبِ النِّسَاءِ خَلُوقًا، لَا ذَاكَ الطِّيبِ الَّتِي هِيَ مِنْ طِيبِ الرِّجَالِ الَّتِي قَدْ تَطَيَّبَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ
سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری تمنّا تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھوں جب کہ آپ پر وحی نازل ہورہی ہو۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب ہم جعرانہ کے مقام پر تھے تو ایک شخص کُرتا پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اُس کا کُرتا زعفرانی خوشبو سے لتھڑا ہوا تھا۔ اُس نے عرض کیا کہ میں نے عمرے کا تلبیہ پکارا ہے اور میں نے یہ کُرتا پہن رکھا ہے لہٰذا میں کیا کروں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”تم اپنے حج میں کیسے کرتے ہو؟“ اُس نے کہا کہ میں یہ کپڑے اُتار کر خوشبو دھو لیتا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے عمرے میں بھی اسی طرح کرو جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔“ اسی دوران آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی تو آپ کو چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا تو مجھے کپڑا ہٹا کر آپ کا دیدار کرایا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا، آپ لمبے لمبے سانس لے رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا تھا۔ یہ روایت جناب عبد الجبار کی ہے۔ جناب مخزوی رحمه الله کی روایت میں ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جعرانہ مقام پر تھے اور میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس خواہش کا اظہار کیا ہوا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووحی کے نزول کے وقت دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ اُس شخص نے کہا کہ میں اپنے جسم اور کپڑوں سے یہ خوشبو دھوڈالتا ہوں۔