ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
وإسقاط الكفارة عن فاعله ضد مذهب من زعم ان الكفارة واجبة عليه وإن كان جاهلا، بان التطيب ولبس ما لبس من الثياب غير جائز له بذكر خبر لفظة في الطيب، غلط في الاحتجاح بها بعض من كره الطيب عند الإحرام قبل ان يحرم المرء، ممن لم يميز بين المقدم وبين المؤخر من سنن النبي صلى الله عليه وسلم ولا يفرق بين المجمل من الاخبار وبين المفسر منها وَإِسْقَاطِ الْكَفَّارَةِ عَنْ فَاعِلِهِ ضِدَّ مَذْهَبِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الْكَفَّارَةَ وَاجِبَةٌ عَلَيْهِ وَإِنْ كَانَ جَاهِلًا، بِأَنَّ التَّطَيُّبَ وَلُبْسَ مَا لُبِسَ مِنَ الثِّيَابِ غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ بِذِكْرِ خَبَرِ لَفْظَةٍ فِي الطِّيبِ، غَلِطَ فِي الِاحْتِجَاحِ بِهَا بَعْضُ مَنْ كَرِهَ الطِّيبَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ الْمَرْءُ، مِمَّنْ لَمْ يُمَيِّزْ بَيْنَ الْمُقَدَّمِ وَبَيْنَ الْمُؤَخَّرِ مِنْ سُنَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ الْمُجْمَلِ مِنَ الْأَخْبَارِ وَبَيْنَ الْمُفَسَّرِ مِنْهَا
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، اخبرني عطاء ، حدثني صفوان بن يعلى بن امية , ان يعلى بن امية، قال لعمر: ليت اني ارى النبي صلى الله عليه وسلم حين يتنزل عليه، فلما كان بالجعرانة وعليه ثوب قد ظلل عليه معه فيه ناس من اصحابه، قال: فجاءه رجل قد تضمخ بطيب، قال: يا رسول الله، كيف ترى في رجل احرم في جبة بعدما تضمخ بطيب؟ قال: فنظر إليه ساعة، ثم انزل عليه الوحي، فارسل عمر إلى يعلى ان تعال فجاءه فادخل راسه، فإذا محمر وجهه كذلك ساعة، ثم سري عنه، ثم قال:" اين الذي يسالني عن العمرة آنفا؟" فالتمس الرجل، فامر به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اما الطيب الذي بك فاغسلها ثلاث مرات، واما الجبة فانزعها، ثم اصنع في عمرتك ما تصنع في حجتك" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ , أَنَّ يَعْلَى بْنَ أُمَيَّةَ، قَالَ لِعُمَرَ: لَيْتَ أَنِّي أَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَتَنَزَّلُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ مَعَهُ فِيهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ قَدْ تَضَمَّخَ بِطِيبٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ بَعْدَمَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ سَاعَةً، ثُمَّ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى يَعْلَى أَنْ تَعَالَ فَجَاءَهُ فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ، فَإِذَا مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ كَذَلِكَ سَاعَةً، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ الَّذِي يَسْأَلُنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا؟" فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزَعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَا تَصْنَعُ فِي حَجَّتِكَ"
حضرت صفوان بن یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ سکوں جب آپ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔ پر اتفاق سے جب آپ جعرانہ مقام پر تھے اور آپ پر ایک کپڑے سے سایہ کیا ہوا تھا۔ اس سایہ کے پیچھے آپ کے کچھ صحابہ کرام بھی تھے۔ اسی اثناء میں ایک شخص آپ کے پاس اس حالت میں آیا کہ وہ خوشبو میں لتھڑا ہوا تھا۔ اُس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا حُکم ہے جس نے خوشبو میں لت پت ہونے کے بعد ایک جبے میں احرام باندھ لیا ہو؟ آپ نے کچھ دیر اُس کی طرف دیکھا، پھر آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ آ جاؤ (اور اپنی خواہش پوری کرلو) لہذا وہ آ گئے اور اپنا سر اس سائبان میں داخل کردیا۔ اچانک انہوں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہے، کچھ دیر یہی کیفیت رہی پھر وحی پوری ہونے کے بعد یہ کیفیت ختم ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ابھی ابھی مجھ سے عمرے کے متعلق پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟“ اُس شخص کو تلاش کرکے حاضر کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا کہ اپنے جسم پر لگی خوشبو کوتین بار دهو ڈالو اور جبہ اتار دو (دوسری دو چادریں پہن لو) پھر اپنے عمرے میں وہی اعمال کرو جو تم اپنے حج میں کرتے ہو“۔