ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حج کے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ امام منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھائے پھر صبح کے وقت عرفات روانہ ہو جائے اور جو جگہ میسر آئے وہاں دوپہر کو آرام کرے۔ حتّیٰ کہ جب سورج ڈھل جائے تو لوگوں کو خطبہ دے۔ پھر نمازظہر اور عصر جمع کرکے ادا کرے۔ پھر سورج غروب ہونے تک عرفات میں کھڑے ہوکر دعا و گریہ زاری کرے۔ پھر وہاں سے چلے اور مزدلفہ میں آ کر نماز پڑھے یا جہاں اللہ تعالی کو منظور ہو پڑھ لے پھر مزدلفہ میں ٹھہرا رہے حتّیٰ کہ جب صبح روشن ہو جائے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے روانہ ہو جائے۔ پھر جب (منیٰ پہنچ کر) جمرہ کبریٰ کو رمی کر لیگا تو اُس کے لئے عورتوں سے ہمبستری اور خوشبو کے علاوہ ہر چیز حلال ہو جائیگی جو (احرام کی وجہ سے اُس پر حرام تھیں۔ حتّیٰ کہ جب بیت اللہ کا طواف کرلیگا۔ (تو وہ پابندی بھی ختم ہو جائیگی)۔
سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حج کا طریقہ یہ ہے۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی۔ راویوں کا کچھ الفاظ میں اختلاف ہے۔ اور فرمایا کہ تو اس پر عورت کے سوا ہر چیز حلال ہوجائیگی جو اس پر احرام کی وجہ سے حرام تھی۔ حتّیٰ کہ بیت اللہ شریف کا طواف کرلے(تو پھر وہ بھی حلال ہو جائیگی)۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ صحیح اور درست بات یہی ہے کہ جمرہ پر رمی کرنے کے بعد اس کے لئے بیوی سے ہمبستری کے سوا ہر چیز حلال ہو جائیگی کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو طواف افاضہ کرنے سے پہلے خوشبو لگائی تھی۔
جناب محمد بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی۔ اور فرمایا کہ پھر جب یوم الترویہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوکر منیٰ پہنچ گئے۔ آپ نے منی میں ہمیں، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں پڑھائیں۔ پھر آپ کچھ دیر ٹھہر گئے حتّیٰ کہ جب سورج طلوع ہوگیا (تو عرفات روانہ ہو گئے) آپ نے اپنے لئے بالوں سے بنے ہوئے ایک خیمے کو نصب کرنے کا حُکم دیا۔ جو وادی نمرہ میں لگا دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر عرفات پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے لئے وادی نمرہ میں خیمہ لگا دیا گیا ہے۔ لہذا آپ اُس میں تشریف فرما ہو گئے۔
إذ قد امر باتباعه قال الله- عز وجل-: اولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده [الانعام: 90]. وابن ابي مليكة قد سمع من عبد الله بن عمرو. إِذْ قَدْ أُمِرَ بِاتِّبَاعِهِ قَالَ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ-: أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهِ [الْأَنْعَامِ: 90]. وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قَدْ سَمِعَ مِنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
کیونکہ آپ کی اتباع کرنے کا حُکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے «أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ» [ سورۃ الانعام:90 ]”یہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، لہٰذا
جناب ابن ابی ملیکہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ ایک قریشی آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گزارش کی کہ میں اپنے گھر والوں اور سامان والے اونٹوں کے ساتھ ہوں۔ اور ہمارا سامان ان کمزور گدھوں پر ہے، کیا میں رات کے وقت ہی مزدلفہ سے روانہ ہو جاؤں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ابراہیم عليه السلام نے تورات منیٰ میں گزاری تھی، حتّیٰ کہ جب صبح ہوگئی اور سورج طلوع ہوگیا تو میدان عرفات کی طرف چل پڑے تھے۔ حتّیٰ کہ عرفات میں اپنے مقام پر تشریف فرما ہوگئے۔ جناب مؤمل کی روایت میں ہے، حتّیٰ کہ عرفات میں اپنی منزل پر تشریف فرما ہوگئے۔ پھر زوال شمس کے بعد عرفات میں وقوف کیا (دعائیں مانگیں) پھر جب سورج غروب ہوگیا تو مزدلفہ آ گئے اور اپنے مقام پر فروکش ہوگئے۔ پھر رات مزدلفہ ہی میں گزاری پھراگرصبح کی نماز جلدی (اندھیرے میں) پڑھتے تو ٹھہر جاتے (اور دعائیں مانگتے) اگر فجر کی نماز صبح روشن کرکے ادا کرتے تو منیٰ روانہ ہو جاتے۔ یہ ہے تمہارے جد امجد ابراہیم عليه السلام کا طریقہ مبارک۔ اور الله تعالیٰ نے تمہارے نبی کو ان کی اتباع کا حُکم دیا ہے۔ یہ جناب ابن علیہ کی حدیث ہے۔
عرفة مع الدليل على ان جبريل قد ارى النبي محمدا صلى الله عليه وسلم المناسك كما ارى إبراهيم خليل الرحمن.عَرَفَةَ مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ جِبْرِيلَ قَدْ أَرَى النَّبِيَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَنَاسِكَ كَمَا أَرَى إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ.
اور اس دلیل کا بیان کہ جبرائیل عليه السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مناسک حج سکھائے اور مقامات حج دکھائے ہیں جیسے ابراہیم عليه السلام کو دکھائے تھے
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل عليه السلام، حضرت ابراہیم عليه السلام کو مناسک حج سکھانے کے لئے آئے۔ پھرمکمّل حدیث بیان کی۔ اور فرمایا کہ پھر وہ حضرت ابراہیم عليه السلام کو لیکر منیٰ گئے حتّیٰ کہ جب اُنہوں نے جمرے کو رمی کرلی تو اُن سے فرمایا کہ اب ان مناسک کو اچھی طرح پہچان لیں۔ اور حضرت ابراہیم عليه السلام کو تمام مناسک دکھائے۔ اسی طرح اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام مناسک دکھائے اور سکھائے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفات کو صبح کے وقت روانہ ہوئے تو ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے اور کچھ تکبیریں پڑھ رہے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق یحییٰ بن سعید سے اس روایت کو بیان کرنے والے کسی راوی نے اس سند میں عبداللہ بن عبداللہ بن عمر کو ذکر کرنے پر امام ابن نمیر کی متابعت نہیں کی۔ میں نے اس روایت کے تمام طرق کتاب الکبیر میں بیان کیے ہیں۔
جناب ابن سخبره بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کے وقت منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوا۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گندمی رنگ کے شخص تھے انکے بالوں کی دو لٹیں تھیں اور اُن پر دیہاتی لوگوں کا ایک نشان تھا۔ وہ تلبیہ پڑھ رہے تھے تو ان کے گرد کم علم نادان لوگ جمع ہوگئے، وہ کہنے لگے کہ اے دیہاتی، آج کے دن تلبیہ نہیں پکارتے، آج تو تکبیریں پڑھنے کا دن ہے اس وقت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ کیا یہ لوگ جاہل ہیں یا بھول گئے ہیں، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ بیشک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفات کی طرف نکلا تھا تو آپ نے جمرہ عقبہ پر رمی کرنے تک تلبیہ ختم نہیں کیا تھا، البتہ آپ تلبیہ کے ساتھ «اللهُ أَكْبَرُ» اور «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» پڑھ لیتے تھے۔
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب سورج ڈھل گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا، پھر ظہر اور عصر کی نماز جمع کرکے ادا فرمائی۔