ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے ، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
إذ قد امر باتباعه قال الله- عز وجل-: اولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده [الانعام: 90]. وابن ابي مليكة قد سمع من عبد الله بن عمرو. إِذْ قَدْ أُمِرَ بِاتِّبَاعِهِ قَالَ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ-: أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهِ [الْأَنْعَامِ: 90]. وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قَدْ سَمِعَ مِنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
کیونکہ آپ کی اتباع کرنے کا حُکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے «أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ» [ سورۃ الانعام:90 ]”یہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، لہٰذا
جناب ابن ابی ملیکہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ ایک قریشی آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گزارش کی کہ میں اپنے گھر والوں اور سامان والے اونٹوں کے ساتھ ہوں۔ اور ہمارا سامان ان کمزور گدھوں پر ہے، کیا میں رات کے وقت ہی مزدلفہ سے روانہ ہو جاؤں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ابراہیم عليه السلام نے تورات منیٰ میں گزاری تھی، حتّیٰ کہ جب صبح ہوگئی اور سورج طلوع ہوگیا تو میدان عرفات کی طرف چل پڑے تھے۔ حتّیٰ کہ عرفات میں اپنے مقام پر تشریف فرما ہوگئے۔ جناب مؤمل کی روایت میں ہے، حتّیٰ کہ عرفات میں اپنی منزل پر تشریف فرما ہوگئے۔ پھر زوال شمس کے بعد عرفات میں وقوف کیا (دعائیں مانگیں) پھر جب سورج غروب ہوگیا تو مزدلفہ آ گئے اور اپنے مقام پر فروکش ہوگئے۔ پھر رات مزدلفہ ہی میں گزاری پھراگرصبح کی نماز جلدی (اندھیرے میں) پڑھتے تو ٹھہر جاتے (اور دعائیں مانگتے) اگر فجر کی نماز صبح روشن کرکے ادا کرتے تو منیٰ روانہ ہو جاتے۔ یہ ہے تمہارے جد امجد ابراہیم عليه السلام کا طریقہ مبارک۔ اور الله تعالیٰ نے تمہارے نبی کو ان کی اتباع کا حُکم دیا ہے۔ یہ جناب ابن علیہ کی حدیث ہے۔