صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
زکوٰۃ کی تقسیم کے ابواب کا مجموعہ اور مستحقین کی زکوٰۃ کا بیان
حدیث نمبر: 2354
Save to word اعراب
سیدنا حذیفہ، جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن یزید الخطمی رضی اللہ عنہم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرنیکی اور بھلائی کا کام صدقہ ہے۔ لہٰذا اگر نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ہم آلِ محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے سے آپ کی مراد ہر نفلی اور فرض صدقہ ہوتا تو پھر آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرد کے ساتھ احسان ونیکی کرنا حلال نہ ہوتا کیونکہ آپ کے حُکم کے مطابق ہر طرح کا احسان و نیکی صدقہ ہے۔ اور اگر نفلی صدقہ آل محمد کے لئے جائز نہ ہوتا جیسا کہ بعض جہلاء کا خیال ہے تو پھر کسی شخص کے لئے یہ حلال نہ ہوتا کہ وہ اپنے برتن سے آلِ محمد کے کسی شخص کے برتن میں پانی ڈال دیتا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ آدمی کا اپنے برتن سے پیاسے اور ضرورت مند شخص کے برتن میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی شخص کے لئے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا بھی حلال نہ ہوتا کیونکہ وہ بھی آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بتاچکے ہیں کہ آدمی کا اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 2355
Save to word اعراب
حدثنا الحسين بن الحسن ، اخبرنا الثقفي عبد الوهاب ، حدثنا ايوب ، عن عمرو بن سعيد ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، قال: حدثني ثلاثة من بني سعد بن ابي وقاص، كلهم يحدثه عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على سعد يعوده بمكة، قال: فبكى سعد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما يبكيك؟" قال: خشيت ان اموت بارضي التي هاجرت منها كما مات سعد بن خولة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اللهم اشف سعدا، اللهم اشف سعدا"، فقال: يا رسول الله، إن لي مالا كثيرا، وإنما ترثني بنت افاوصي بمالي كله؟ قال:" لا"، قال: فالثلثين: قال:" لا"، قال: فالنصف: قال:" لا"، قال: فالثلث، قال:" الثلث، والثلث كثير، إن صدقتك من مالك صدقة، وإن نفقتك على عيالك لك صدقة، وإن ما تاكل امراتك من طعامك لك صدقة، وإنك إن تدع اهلك بخير او قال بعيش خير لك من ان تدعهم عالة يتكففون" ، وقال بيدهحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ ، أَخْبَرَنَا الثَّقَفِيُّ عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَلاثَةٌ مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، كُلُّهُمْ يُحَدِّثُهُ عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى سَعْدٍ يَعُودُهُ بِمَكَّةَ، قَالَ: فَبَكَى سَعْدٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يُبْكِيكَ؟" قَالَ: خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِأَرْضِيَ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالا كَثِيرًا، وَإِنَّمَا تَرِثُنِي بِنْتٌ أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لا"، قَالَ: فَالثُّلُثَيْنِ: قَالَ:" لا"، قَالَ: فَالنِّصْفُ: قَالَ:" لا"، قَالَ: فَالثُّلُثُ، قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّ صَدَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ مَا تَأْكُلُ امْرَأَتُكَ مِنْ طَعَامِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّكَ إِنْ تَدَعْ أَهْلَكَ بِخَيْرٍ أَوْ قَالَ بِعَيْشٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ" ، وَقَالَ بِيَدِهِ
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ رونے لگ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کس لئے روتے ہو؟ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، مجھے ڈرہے کہ کہیں میری وفات اسی شہر میں نہ ہو جائے جہاں سے میں نے ہجرت کی تھی (اور میرا اجر ضائع ہو جائے) جیسا کہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ (مکّہ مکرّمہ ہی میں) فوت ہو گئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللّٰہ، سعد کو شفا عطا فرما۔ اے اللّٰہ، سعد کو صحت دیدے۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے پاس مال و دولت کافی زیادہ ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کی (کسی کے حق میں) وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اُنہوں نے عرض کی کہ اچھا تو پھر دو تہائی کی وصیت کردیتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں انہوں نے عرض کی کہ آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں اُنہوں نے پھر پوچھا تو کیا ایک تہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تہائی مال (کی کردو) اور تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ بیشک تمہارا اپنے مال سے صدقہ کرنا صدقہ ہے اور تمہارا اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے اور بیشک تمہاری بیوی جو کچھ تمہارے اناج میں سے کھاتی ہے وہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے اور بیشک اگر تم اپنے اہل عیال کو مالدار یا فرمایا، ان کی زندگی گزارنے کے لئے مال چھوڑ کر جاؤ تو یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔ اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1632. ‏(‏77‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ هُمْ مِنْ آلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ، لَا كَمَا قَالَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ آلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ، آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ الْعَبَّاسِ
1632. اس بات کی دلیل کا بیان کہ آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر زکوٰۃ حرام ہے وہ بنی عبدالمطلب ہیں۔
حدیث نمبر: Q2356
Save to word اعراب
لا كما قال من زعم ان آل النبي صلى الله عليه وسلم الذين حرموا الصدقة، آل علي، وآل جعفر، وآل العباس لَا كَمَا قَالَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ آلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ، آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ الْعَبَّاسِ
آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر صدقہ حرام ہے ان سے آلِ علی، آل جعفر اور آلِ عباس مراد نہیں جیسے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2356
Save to word اعراب
امام ابوبکر رحمه الله حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ کی حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ آل عبدالمطلب پر زکوٰۃ اسی طرح حرام ہے جس طرح کہ ان کے علاوہ ہاشم کی اولاد پر حرام ہے۔ جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر زکوٰۃ حرام ہے، وہ آل علی، آل عقیل، آل عباس اور آل مطلب ہیں۔ اور جناب المطلبی فرماتے تھے , بیشک آلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد بنو ہاشم اور بنوالمطلب ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے بدلے میں غنیمت کے صدقے میں سے ایک حصّہ عطا کیا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوی القربی (قرابت داروں) کا حصّہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کے درمیان تقسیم کرکے وضاحت فرمادی کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ارشاد «‏‏‏‏ذَوِي الْقُرْبَىٰ» ‏‏‏‏ قرابت داروں کو دو سے مراد بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر قرابتدار اس میں شامل نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
حدیث نمبر: 2357
Save to word اعراب
حدثنا يوسف بن موسى ، حدثنا جرير ، ومحمد بن فضيل ، عن ابي حيان التيمي وهو يحيى بن سعيد التيمي الرباب ، عن يزيد بن حيان ، قال: انطلقت انا، وحصين بن سمرة، وعمرو بن مسلم، إلى زيد بن ارقم، فجلسنا إليه، فقال له حصين يا زيد، رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وصليت خلفه، وسمعت حديثه، وغزوت معه، لقد اصبت يا زيد خيرا كثيرا، حدثنا يا زيد حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما شهدت معه، قال: بلى، ابن اخي، لقد قدم عهدي، وكبرت سني، ونسيت بعض الذي كنت اعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوه، وما لم احدثكموه، فلا تكلفوني، قال: قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما خطيبا بماء يدعى خم فحمد الله واثنى عليه، ووعظ وذكر، ثم قال:" اما بعد، ايها الناس، فإنما انا بشر يوشك ان ياتيني رسول ربي فاجيبه، وإني تارك فيكم الثقلين: اولهما كتاب الله، فيه الهدى والنور، من استمسك به واخذ به كان على الهدى، ومن تركه واخطاه كان على الضلالة، واهل بيتي اذكركم الله في اهل بيتي"، ثلاث مرات ، قال حصين: فمن اهل بيته يا زيد؟ اليست نساؤه من اهل بيته؟ قال:" بلى، نساؤه من اهل بيته، ولكن اهل بيته من حرم الصدقة، قال: من هم؟ قال: آل علي، وآل عقيل، وآل جعفر، وآل العباس"، قال حصين: وكل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعمحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ وَهُوَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ التَّيْمِيُّ الرَّبَابُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَحُصَيْنُ بْنُ سَمُرَةَ، وَعَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ، إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَجَلَسْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ يَا زَيْدٌ، رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، لَقَدْ أَصَبْتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ حَدِيثًا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا شَهِدْتَ مَعَهُ، قَالَ: بَلَى، ابْنَ أَخِي، لَقَدْ قَدِمَ عَهْدِي، وَكَبُرَتْ سِنِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوهُ، وَمَا لَمْ أُحَدِّثْكُمُوهُ، فَلا تُكَلِّفُونِي، قَالَ: قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمٍّ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَهُ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ، فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، مَنِ اسْتَمْسَكَ بِهِ وَأَخَذَ بِهِ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ وَأَخْطَأَهُ كَانَ عَلَى الضَّلالَةِ، وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرْكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي"، ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، قَالَ حَصِينٌ: فَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ؟ أَلَيْسَتْ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ:" بَلَى، نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنَّ أَهْلَ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ، قَالَ: مَنْ هُمْ؟ قَالَ: آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ عُقَيْلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ الْعَبَّاسِ"، قَالَ حَصِينٌ: وَكُلُّ هَؤُلاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ
جناب یزید بن حیان بیان کرتے ہیں کہ میں حصین بن سمرہ اور عمرو بن مسلم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے، جناب حصین نے ان سے کہا کہ اے زید رضی اللہ عنہ، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی ہوئی ہے اور آپ کے پیچھے نمازیں بھی ادا کی ہیں۔ آپ کے فرامین سنے ہیں اور آپ کے ساتھ غزوات میں شرکت کی ہے۔ اے زید رضی اللہ عنہ یقیناً آپ نے بہت ساری خیر و برکت پائی ہے۔ اے زید رضی اللہ عنہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنی ہو اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت موجود بھی ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ ضرور، اے بھتیجے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) میری ملاقات بہت پُرانی ہو چکی ہے اور میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یاد کیے ہوئے بعض فرامین بھی میں بھول چکا ہوں۔ لہٰذا جو چیز میں تمہیں بیان کردوں وہ قبول کرلو اور جو میں بیان نہ کرسکوں تو تم مجھے اس کا مکلّف نہ بناؤ۔ پھر فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے ایک مقام جسے خم کہا جاتا ہے وہاں پر ہمیں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ آپ نے ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: اما بعد، اے لوگو بلاشبہ میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔ قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آئے تو میں اس کی بات مان لوں اور بیشک میں تمہارے درمیان دو نہایت اہم اور قیمتی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ اس میں ہدایت اور نور ہے جس شخص نے اسے تھام لیا اور اس پر عمل پیرا رہا تو وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اور اس پر عمل نہ کیا تو وہ گمراہ ہو جائیگا۔ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈراتا ہوں (ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور بدسلوکی سے بچنا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بارفرمائی۔ جناب حصین کہتے ہیں کہ اے زید، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات آپ کے اہلِ بیت میں سے نہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ کیوں نہیں، آپ کی ازواج مطہرات آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔ لیکن آپ کے اہل بیت وہ لوگ ہیں جن پر زکوٰۃ کا مال حرام کیا گیا ہے۔ اس نے عرض کی کہ وہ کون کون ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا: وہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔ جناب حصین نے پوچھا، کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1633. ‏(‏78‏)‏ بَابُ إِعْطَاءِ الْفُقَرَاءِ مِنَ الصَّدَقَةِ اتْبَاعًا لِأَمْرِ اللَّهِ فِي قَوْلِهِ‏:‏ ‏[‏إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ‏]‏‏.‏ ‏[‏التَّوْبَةِ‏:‏ 60‏]‏
1633. زکوٰۃ میں سے فقراء کو مال دینے کا بیان۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے ہے «‏‏‏‏إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ….» ‏‏‏‏ [ سورۃ التوبة: 60 ] ”بلاشبہ زکوٰۃ فقراء کا حق ہے“
حدیث نمبر: 2358
Save to word اعراب
حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، قال: وحدثني الليث بن سعد ، ان سعيد بن ابي سعيد المقبري ، حدثه عن شريك بن ابي نمر ، انه سمع انس بن مالك . ح وحدثنا محمد بن عمرو بن تمام المصري ، حدثنا النصر بن عبد الجبار ، ويحيى بن بكير ، قالا: حدثنا الليث ، حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن شريك بن عبد الله بن ابي نمر الكناني ، انه سمع انس بن مالك ، يقول: بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم جلوس في المسجد إذ دخل رجل على جمل فاناخه في المسجد، ثم عقله، ثم قال: ايكم محمد؟ ورسول الله صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم، قال: فقلنا له: هذا الابيض، الرجل المتكئ، فقال:" يا ابن عبد المطلب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد اجبتك"، قال له الرجل: إني سائلك، فمشدد مسالتك، فلا تاخذن في نفسك علي، قال:" سل عما بدا لك"، قال: انشدك بربك ورب من كان قبلك، آلله ارسلك إلى الناس كلهم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم نعم"، قال: انشد الله، آلله امرك ان تصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة؟ قال:" اللهم نعم"، قال: فانشدك الله، آلله امرك ان تاخذ هذه الصدقة من اغنيائنا فتقسمها على فقرائنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم نعم، قال الرجل: قد آمنت بما جئت به، وانا رسول من ورائي من قومي، وانا ضمام بن ثعلبة، اخو سعد بن الحكم ، الفاظهم قريبة بعضها من بعض، وهذا حديث ابن وهب، قال ابو بكر: في هذا الخبر دلالة على ان الصدقة المفروضة غير جائز دفعها إلى غير المسلمين، وإن كانوا فقراء او مساكين، لان النبي صلى الله عليه وسلم اعلم ان الله امره ان ياخذ الصدقة من اغنياء المسلمين، ويقسمها على فقرائهم لا على فقراء غيرهمحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ ، حَدَّثَهُ عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ تَمَامٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّصْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، وَيَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ الْكِنَانِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: هَذَا الأَبْيَضُ، الرَّجُلُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَجَبْتُكَ"، قَالَ لَهُ الرَّجُلُ: إِنِّي سَائِلُكَ، فَمُشَدِّدٌ مَسْأَلَتَكَ، فَلا تَأْخُذَنَّ فِي نَفْسِكَ عَلَيَّ، قَالَ:" سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ"، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ نَعَمْ"، قَالَ: أَنْشُدُ اللَّهَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟ قَالَ:" اللَّهُمَّ نَعَمْ"، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمُهَا عَلَى فُقَرَائِنَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ الرَّجُلُ: قَدْ آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي، وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ، أَخُو سَعْدِ بْنِ الْحَكَمِ ، أَلْفَاظُهُمْ قَرِيبَةٌ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الصَّدَقَةَ الْمَفْرُوضَةَ غَيْرُ جَائِزٍ دَفْعَهَا إِلَى غَيْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنْ كَانُوا فُقَرَاءَ أَوْ مَسَاكِينَ، لأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَاءِ الْمُسْلِمِينَ، وَيَقْسِمُهَا عَلَى فُقَرَائِهِمْ لا عَلَى فُقَرَاءِ غَيْرِهِمْ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص اونٹ پر سوار ہوکر مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے اونٹ کو مسجد میں بٹھایا پھر اس کا گھٹنا رسی سے باندھ دیا پھر سوال کیا کہ تم میں سے محمد کون ہیں؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے درمیان ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے تو ہم نے اُسے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ سرخ سفید رنگ کے شخص ہیں جو ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں تو اُس نے کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو کیا کہنا چاہتے ہو) میں تمہاری بات سن رہا ہوں۔ اُس شخص نے آپ سے عرض کیا کہ بیشک میں آپ سے چند سوالات کروںگا اور سوال میں کچھ سختی ہوگی مگر آپ برا نہ مانیئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو۔ اُس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پہلے کے تمام لوگوں کے رب کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے تمام لوگوں کا رسول بنایا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں اُس نے پوچھا، میں آپ کو اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حُکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جی ہاں اُس نے پھر کہا تو میں آپ کو اللہ کی قسم دیکرپوچھتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو حُکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے ہمارے فقراء میں تقسیم کردیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ تو اس شخص نے کہا کہ آپ جو دین لائے ہیں اس پر ایمان لاتا ہوں اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کا قاصد ہوں اور میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ میں سعد بن حکم کے خاندان سے ہوں۔ یہ روایت جناب وہب کی ہے۔ تمام راویوں کی روایات کے الفاظ قریب قریب ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس مسئلے کی دلیل ہے کہ زکوٰۃ کا مال کافروں کو دینا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ فقراء اور مساکین ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مالدار مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کرکے مسلمانوں ہی کے فقراء میں تقسیم کرنے کا حُکم دیا ہے۔ کافر فقراء کو دینے کا حُکم نہیں دیا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
1634. ‏(‏79‏)‏ بَابُ صَدَقَةِ الْفَقِيرِ الَّذِي يَجُوزُ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فِي الصَّدَقَةِ،
1634. اس فقیر کے صدقے کا بیان جسں کے لئے زکوٰۃ کا سوال کرنا جائز ہے
حدیث نمبر: Q2359
Save to word اعراب
والدليل على ان لا وقت فيما يعطى الفقير من الصدقة إلا قدر سد خلته وفاقتهوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنْ لَا وَقْتَ فِيمَا يُعْطَى الْفَقِيرُ مِنَ الصَّدَقَةِ إِلَّا قَدْرً سُدُّ خُلَّتَهُ وَفَاقَتَهُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان فقیر کو دیئے جانے والے صدقے کی کوئی مقدار معین نہیں ہے مگر اسے اس قدر دیا جائے گا جسں سے اس کا فقر دور ہو ؎جائے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 2359
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، وحفص بن عمرو الربالي ، قالا: حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا ايوب . ح وحدثنا علي بن حجر ، حدثنا إسماعيل يعني ابن إبراهيم ، عن ايوب ، عن هارون بن رياب ، عن كنانة بن نعيم ، عن قبيصة ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم استعينه في حمالة، فقال:" اقم عندنا، فإما ان نتحملها عنك، وإما ان نعينك فيها، واعلم: ان المسالة لا تحل لاحد، إلا لاحد ثلاثة: رجل يحمل حمالة عن قوم، فسال فيها حتى يؤديها ثم يمسك، ورجل اصابته جائحة اذهبت بماله، فيسال حتى يصيب سدادا من عيش، او قواما من عيش ثم يمسك، ورجل اصابته فاقة فشهد له ثلاثة من ذوي الحجا من قومه، او من ذي الصلاح ان قد حلت له المسالة فيها حتى يصيب سدادا من عيش، وقواما من عيش ثم يمسك، وما سوى ذلك من المسائل سحت ياكله صاحبه يا قبيصة، سحتا" ، هذا حديث الثقفيحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَحَفْصُ بْنُ عَمْرٍو الرَّبَالِيُّ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ . ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِيَابٍ ، عَنْ كِنَانَةَ بنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ قَبِيصَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَعِينُهُ فِي حَمَالَةٍ، فَقَالَ:" أَقِمْ عِنْدَنَا، فَإِمَّا أَنْ نَتَحَمَّلَهَا عَنْكَ، وَإِمَّا أَنْ نُعِينَكَ فِيهَا، وَاعْلَمْ: أَنَّ الْمَسْأَلَةَ لا تَحِلُّ لأَحَدٍ، إِلا لأَحَدِ ثَلاثَةٍ: رَجُلٌ يَحْمِلُ حَمَالَةً عَنْ قَوْمٍ، فَسَأَلَ فِيهَا حَتَّى يُؤَدِّيَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ أَذَهَبَتْ بِمَالِهِ، فَيَسْأَلُ حَتَّى يُصِيبَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، أَوْ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ فَشَهِدَ لَهُ ثَلاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ، أَوْ مِنْ ذِي الصَّلاحِ أَنْ قَدْ حَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فِيهَا حَتَّى يُصِيبَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَقَوَامًا مِنْ عَيْشٍ ثُمَّ يُمْسِكُ، وَمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْمَسَائِلِ سُحْتٌ يَأْكُلُهُ صَاحِبُهُ يَا قَبِيصَةُ، سُحْتًا" ، هَذَا حَدِيثُ الثَّقَفِيِّ
سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ تاوان کی ادائیگی میں میری مدد فرمائیں تو آپ نے فرمایا: ہمارے پاس ٹھہر جاؤ یا تو ہم تمہارا سارا تاوان ادا کردیںگے یا اس میں تمہارا تعاون کریںگے اور خوب جان لو، مانگنا صرف تین قسم کے افراد کے لئے جائز ہے۔ ایک وہ شخص جو کسی قوم کا تاوان یا خون بہا اپنے ذمے لے لیتا ہے تو وہ اس میں مدد کا سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ ادا ہو جائے تو مانگنا چھوڑ دے۔ دوسرا وہ شخص جس پر کوئی آفت آگئی ہو جس سے اس کا سارا مال ضائع ہوگیا ہو تو وہ سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ گزارے کے لئے مال حاصل کرلے۔ تیسرا وہ شخص جو فقر و فاقہ کا شکار ہوجائے اور اس کی قوم کے تین عقلمند یا قابل اعتماد شخص گواہی دیں کہ اسے فقر و فاقہ کا سامنا ہے تو اُس کے لئے مانگنا حلال ہے حتّیٰ کہ گزارے کے لئے مال حاصل کر ے پھر رک جائے اس کے علاوہ سوال کرنا حرام ہے۔ اے قبیصہ، اس کے سوا مانگنے والا حرام ہی کھائے گا۔ یہ روایت جناب الثقفی کی ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
1635. ‏(‏80‏)‏ بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ شَهَادَةَ ذَوِي الْحِجَا فِي هَذَا الْمَوْضِعِ هِيَ الْيَمِينُ، إِذِ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ- قَدْ سَمَّى الْيَمِينَ فِي اللِّعَانِ شَهَادَةً
1635. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اس مسئلے میں تین عقلمند اشخاص کی گواہی سے مراد قسم ہے کیونکہ اللہ تعالی نے لعان کے مسئلے میں قسم کو گواہی کا نام دیا ہے
حدیث نمبر: 2360
Save to word اعراب
حدثنا يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا بشر يعني ابن بكر ، قال: قال الاوزاعي : حدثني هارون بن رياب ، حدثني ابو بكر هو كنانة بن نعيم ، قال: كنت عند قبيصة جالسا، فاتاه نفر من قومه يسالونه في نكاح صاحبهم، فابى ان يعطيهم، وانت سيد قومك، فلم لم تعطهم شيئا؟ قال: إنهم سالوني في غير حق، لو ان صاحبهم عمد إلى ذكره فعضه حتى ييبس لكان خيرا له من المسالة التي سالوني: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا تحل المسالة إلا لثلاثة: لرجل اصابت ماله حالقة، فيسال حتى يصيب سوادا من معيشة، ثم يمسك عن المسالة، ورجل حمل بين قومه حمالة، فيسال حتى يؤدي حمالته، ثم يمسك عن المسالة، ورجل يقسم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه بالله لقد حلت لفلان المسالة، فما كان سوى ذلك، فهو سحت لا ياكل إلا سحتا" حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ ، قَالَ: قَالَ الأَوْزَاعِيُّ : حَدَّثَنِي هَارُونَ بْنُ رِيَابٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ هُوَ كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ قَبِيصَةَ جَالِسًا، فَأَتَاهُ نَفَرٌ مِنْ قَوْمِهِ يَسْأَلُونَهُ فِي نِكَاحِ صَاحِبِهِمْ، فَأَبَى أَنْ يُعْطِيَهُمُ، وَأَنْتَ سَيِّدُ قَوْمِكَ، فَلِمَ لَمْ تُعْطِهِمْ شَيْئًا؟ قَالَ: إِنَّهُمْ سَأَلُونِي فِي غَيْرِ حَقٍّ، لَوْ أَنَّ صَاحِبَهُمْ عَمَدَ إِلَى ذَكَرِهِ فَعَضَّهُ حَتَّى يَيْبَسَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُ مِنَ الْمَسْأَلَةِ الَّتِي سَأَلُونِي: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لا تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ إِلا لِثَلاثَةٍ: لِرَجُلٍ أَصَابَتْ مَالَهُ حَالِقَةٌ، فَيَسْأَلُ حَتَّى يُصِيبَ سَوَادًا مِنْ مَعِيشَةٍ، ثُمَّ يُمْسِكُ عَنِ الْمَسْأَلَةِ، وَرَجُلٌ حَمَلَ بَيْنَ قَوْمِهِ حَمَالَةً، فَيَسْأَلُ حَتَّى يُؤَدِّيَ حَمَالَتَهُ، ثُمَّ يُمْسِكُ عَنِ الْمَسْأَلَةِ، وَرَجُلٌ يُقْسِمُ ثَلاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ بِاللَّهِ لَقَدْ حَلَّتْ لِفُلانٍ الْمَسْأَلَةُ، فَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ، فَهُوَ سُحْتٌ لا يَأْكُلُ إِلا سُحْتًا"
جناب ابوبکر کنانہ بن نعیم بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کی قوم کے لوگ اُن کے پاس آئے اور اُنہوں نے اپنے ایک ساتھی کی شادی کے لئے تعاون کا سوال کیا تو انہوں نے ان لوگوں کو کچھ دینے سے انکار کردیا تو میں نے اُن سے کہا کہ آپ اپنی قوم کے سردار ہیں، آپ نے ان کو کچھ مال کیوں نہیں دیا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ان لوگوں نے مجھ سے ناحق مانگا ہے۔ اگر ان کا ساتھی اپنی شرمگاہ کو مسل ڈالے حتّیٰ کہ وہ خشک ہو جائے (یعنی بیکار ہو جائے) تو یہ اس کے لئے اس سوال سے بہتر ہے جو انہوں نے مجھ سے مانگا ہے۔ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: بھیک مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لئے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جس کے مال کو کوئی مصیبت و آفت نے تباہ کردیا تو وہ مانگ سکتا ہے حتّیٰ کہ گزارے کے لئے مال لے لے پھر بھیک مانگنے سے باز آجائے اور ایک وہ شخص جس نے اپنی قوم کے درمیان (صلح کے لئے) کوئی خون بہا یا تاوان اپنے ذمے لے لیا تو وہ لوگوں سے تعاون کا سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ پورا ہو جائے تو پھر مانگنے سے رک جائے اور تیسرا وہ شخص جس کی قوم کے تین عقل مند لوگ اللہ کی قسم اُٹھا کر کہیں کہ فلاں شخص واقعی فقیر و محتاج ہو گیا ہے (تو وہ مانگ سکتا ہے) ان کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگنے والا حرام ہی کھاتا ہے۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
1636. ‏(‏81‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي إِعْطَاءِ مَنْ لَهُ ضَيْعَةٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، إِذَا أَصَابَتْ غَلَّتَهُ جَائِحَةٌ أَذْهَبَتْ غَلَّتَهُ قَدْرَ مَا يَسُدُّ فَاقَتَهُ
1636. جس شخص کی زرعی زمین ہو اور آفت آنے سے اس کا غلہ برباد ہو جائے تو اسے زکوٰۃ میں سے بقدر ضرورت و حاجت دینا جائز ہے
حدیث نمبر: 2361
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا حماد يعني ابن زيد ، حدثنا هارون بن رياب ، حدثنا كنانة بن نعيم العدوي ، عن قبيصة بن المخارق الهلالي ، قال: تحملت حمالة، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، اساله فيها، فقال:" اقم يا قبيصة، حتى تاتيني الصدقة فآمر لك بها"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الصدقة لا تحل، إلا لاحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة، فحلت له المسالة حتى يصيب قواما من عيش , او قال: سدادا من عيش، ورجل اصابته جائحة فاجتاحت ماله، فحلت له المسالة حتى يصيب قواما من عيش او سدادا من عيش، ورجل اصابته فاقة، فحلت له الصدقة حتى يصيب قواما من عيش، فما سوى ذلك يا قبيصة، سحت ياكلها صاحبها سحتا" حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ رِيَابٍ ، حَدَّثَنَا كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ الْمُخَارِقِ الْهِلالِيِّ ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْأَلُهُ فِيهَا، فَقَالَ:" أَقِمْ يَا قَبِيصَةُ، حَتَّى تَأْتِيَنِي الصَّدَقَةُ فَآمُرُ لَكَ بِهَا"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الصَّدَقَةَ لا تَحِلُّ، إِلا لأَحَدِ ثَلاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ , أَوْ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ، فَحَلَّتْ لَهُ الصَّدَقَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، فَمَا سِوَى ذَلِكَ يَا قَبِيصَةُ، سُحْتٌ يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا"
سیدنا قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک تاوان اپنے ذمے لیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس میں تعاون کے لئے حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قبیصہ، زکوٰۃ کا مال آنے تک ہمارے پاس ٹھہرے رہو۔ (جب مال آئے گا) تو میں تمہارے ساتھ تعاون کا حُکم دے دوںگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک زکوٰۃ کا مال صرف تین قسم کے افراد کے لئے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جو کوئی تاوان اپنے ذمے لے لے تو اُس کے لئے تعاون کا سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے حتّیٰ کہ بقدر گزارہ مال حاصل کرلے۔ دوسرا وہ شخص جسے کوئی آفت پہنچے جس سے اس کا سارا مال ضائع ہوجائے تو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے حتّیٰ کہ وہ بقدر ضرورت مال پالے۔ تیسرا وہ شخص جسے فقر و فاقہ پہنچ جائے تو اس کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال ہے حتّیٰ کہ گزارے کے لئے مال حاصل کرلے۔ اس کے علاوہ مانگنا اے قبیصہ حرام ہے، اور مانگنے والا حرام کھاتا ہے۔

تخریج الحدیث:

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.