سیدنا حذیفہ، جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن یزید الخطمی رضی اللہ عنہم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرنیکی اور بھلائی کا کام صدقہ ہے۔ لہٰذا اگر نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”ہم آلِ محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے“ سے آپ کی مراد ہر نفلی اور فرض صدقہ ہوتا تو پھر آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرد کے ساتھ احسان ونیکی کرنا حلال نہ ہوتا کیونکہ آپ کے حُکم کے مطابق ہر طرح کا احسان و نیکی صدقہ ہے۔ اور اگر نفلی صدقہ آل محمد کے لئے جائز نہ ہوتا جیسا کہ بعض جہلاء کا خیال ہے تو پھر کسی شخص کے لئے یہ حلال نہ ہوتا کہ وہ اپنے برتن سے آلِ محمد کے کسی شخص کے برتن میں پانی ڈال دیتا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ آدمی کا اپنے برتن سے پیاسے اور ضرورت مند شخص کے برتن میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی شخص کے لئے اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا بھی حلال نہ ہوتا کیونکہ وہ بھی آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بتاچکے ہیں کہ ”آدمی کا اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔“
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ رونے لگ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کس لئے روتے ہو؟“ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، مجھے ڈرہے کہ کہیں میری وفات اسی شہر میں نہ ہو جائے جہاں سے میں نے ہجرت کی تھی (اور میرا اجر ضائع ہو جائے) جیسا کہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ (مکّہ مکرّمہ ہی میں) فوت ہو گئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللّٰہ، سعد کو شفا عطا فرما۔ اے اللّٰہ، سعد کو صحت دیدے۔“ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے پاس مال و دولت کافی زیادہ ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کی (کسی کے حق میں) وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ اُنہوں نے عرض کی کہ اچھا تو پھر دو تہائی کی وصیت کردیتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ انہوں نے عرض کی کہ آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”نہیں“ اُنہوں نے پھر پوچھا تو کیا ایک تہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تہائی مال (کی کردو) اور تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ بیشک تمہارا اپنے مال سے صدقہ کرنا صدقہ ہے اور تمہارا اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے اور بیشک تمہاری بیوی جو کچھ تمہارے اناج میں سے کھاتی ہے وہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے اور بیشک اگر تم اپنے اہل عیال کو مالدار یا فرمایا، ان کی زندگی گزارنے کے لئے مال چھوڑ کر جاؤ تو یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔“ اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔
لا كما قال من زعم ان آل النبي صلى الله عليه وسلم الذين حرموا الصدقة، آل علي، وآل جعفر، وآل العباس لَا كَمَا قَالَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ آلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ، آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ الْعَبَّاسِ
آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر صدقہ حرام ہے ان سے آلِ علی، آل جعفر اور آلِ عباس مراد نہیں جیسے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے
امام ابوبکر رحمه الله حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ کی حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ آل عبدالمطلب پر زکوٰۃ اسی طرح حرام ہے جس طرح کہ ان کے علاوہ ہاشم کی اولاد پر حرام ہے۔ جیسا کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن پر زکوٰۃ حرام ہے، وہ آل علی، آل عقیل، آل عباس اور آل مطلب ہیں۔ اور جناب المطلبی فرماتے تھے , بیشک آلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد بنو ہاشم اور بنوالمطلب ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے بدلے میں غنیمت کے صدقے میں سے ایک حصّہ عطا کیا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوی القربی (قرابت داروں) کا حصّہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کے درمیان تقسیم کرکے وضاحت فرمادی کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ارشاد «ذَوِي الْقُرْبَىٰ» ”قرابت داروں کو دو“ سے مراد بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر قرابتدار اس میں شامل نہیں ہیں۔
جناب یزید بن حیان بیان کرتے ہیں کہ میں حصین بن سمرہ اور عمرو بن مسلم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے، جناب حصین نے ان سے کہا کہ اے زید رضی اللہ عنہ، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی ہوئی ہے اور آپ کے پیچھے نمازیں بھی ادا کی ہیں۔ آپ کے فرامین سنے ہیں اور آپ کے ساتھ غزوات میں شرکت کی ہے۔ اے زید رضی اللہ عنہ یقیناً آپ نے بہت ساری خیر و برکت پائی ہے۔ اے زید رضی اللہ عنہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنی ہو اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت موجود بھی ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ ضرور، اے بھتیجے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) میری ملاقات بہت پُرانی ہو چکی ہے اور میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یاد کیے ہوئے بعض فرامین بھی میں بھول چکا ہوں۔ لہٰذا جو چیز میں تمہیں بیان کردوں وہ قبول کرلو اور جو میں بیان نہ کرسکوں تو تم مجھے اس کا مکلّف نہ بناؤ۔ پھر فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے ایک مقام جسے خم کہا جاتا ہے وہاں پر ہمیں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ آپ نے ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا: ”اما بعد، اے لوگو بلاشبہ میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔ قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آئے تو میں اس کی بات مان لوں اور بیشک میں تمہارے درمیان دو نہایت اہم اور قیمتی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ اس میں ہدایت اور نور ہے جس شخص نے اسے تھام لیا اور اس پر عمل پیرا رہا تو وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اور اس پر عمل نہ کیا تو وہ گمراہ ہو جائیگا۔ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈراتا ہوں (ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور بدسلوکی سے بچنا)“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بارفرمائی۔ جناب حصین کہتے ہیں کہ اے زید، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات آپ کے اہلِ بیت میں سے نہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ کیوں نہیں، آپ کی ازواج مطہرات آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔ لیکن آپ کے اہل بیت وہ لوگ ہیں جن پر زکوٰۃ کا مال حرام کیا گیا ہے۔ اس نے عرض کی کہ وہ کون کون ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا: وہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔ جناب حصین نے پوچھا، کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں۔
1633. زکوٰۃ میں سے فقراء کو مال دینے کا بیان۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے ہے «إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ….» [ سورۃ التوبة: 60 ] ”بلاشبہ زکوٰۃ فقراء کا حق ہے“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص اونٹ پر سوار ہوکر مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے اونٹ کو مسجد میں بٹھایا پھر اس کا گھٹنا رسی سے باندھ دیا پھر سوال کیا کہ تم میں سے محمد کون ہیں؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے درمیان ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے تو ہم نے اُسے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ سرخ سفید رنگ کے شخص ہیں جو ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں تو اُس نے کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کہو کیا کہنا چاہتے ہو) میں تمہاری بات سن رہا ہوں۔“ اُس شخص نے آپ سے عرض کیا کہ بیشک میں آپ سے چند سوالات کروںگا اور سوال میں کچھ سختی ہوگی مگر آپ برا نہ مانیئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو۔“ اُس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پہلے کے تمام لوگوں کے رب کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے تمام لوگوں کا رسول بنایا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں“ اُس نے پوچھا، میں آپ کو اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حُکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”جی ہاں“ اُس نے پھر کہا تو میں آپ کو اللہ کی قسم دیکرپوچھتا ہوں کیا اللہ نے آپ کو حُکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے ہمارے فقراء میں تقسیم کردیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ تو اس شخص نے کہا کہ آپ جو دین لائے ہیں اس پر ایمان لاتا ہوں اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کا قاصد ہوں اور میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ میں سعد بن حکم کے خاندان سے ہوں۔ یہ روایت جناب وہب کی ہے۔ تمام راویوں کی روایات کے الفاظ قریب قریب ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس مسئلے کی دلیل ہے کہ زکوٰۃ کا مال کافروں کو دینا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ فقراء اور مساکین ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مالدار مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کرکے مسلمانوں ہی کے فقراء میں تقسیم کرنے کا حُکم دیا ہے۔ کافر فقراء کو دینے کا حُکم نہیں دیا۔
والدليل على ان لا وقت فيما يعطى الفقير من الصدقة إلا قدر سد خلته وفاقتهوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنْ لَا وَقْتَ فِيمَا يُعْطَى الْفَقِيرُ مِنَ الصَّدَقَةِ إِلَّا قَدْرً سُدُّ خُلَّتَهُ وَفَاقَتَهُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان فقیر کو دیئے جانے والے صدقے کی کوئی مقدار معین نہیں ہے مگر اسے اس قدر دیا جائے گا جسں سے اس کا فقر دور ہو ؎جائے
سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ تاوان کی ادائیگی میں میری مدد فرمائیں تو آپ نے فرمایا: ”ہمارے پاس ٹھہر جاؤ یا تو ہم تمہارا سارا تاوان ادا کردیںگے یا اس میں تمہارا تعاون کریںگے اور خوب جان لو، مانگنا صرف تین قسم کے افراد کے لئے جائز ہے۔ ایک وہ شخص جو کسی قوم کا تاوان یا خون بہا اپنے ذمے لے لیتا ہے تو وہ اس میں مدد کا سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ ادا ہو جائے تو مانگنا چھوڑ دے۔ دوسرا وہ شخص جس پر کوئی آفت آگئی ہو جس سے اس کا سارا مال ضائع ہوگیا ہو تو وہ سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ گزارے کے لئے مال حاصل کرلے۔ تیسرا وہ شخص جو فقر و فاقہ کا شکار ہوجائے اور اس کی قوم کے تین عقلمند یا قابل اعتماد شخص گواہی دیں کہ اسے فقر و فاقہ کا سامنا ہے تو اُس کے لئے مانگنا حلال ہے حتّیٰ کہ گزارے کے لئے مال حاصل کر ے پھر رک جائے اس کے علاوہ سوال کرنا حرام ہے۔ اے قبیصہ، اس کے سوا مانگنے والا حرام ہی کھائے گا۔“ یہ روایت جناب الثقفی کی ہے۔
1635. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اس مسئلے میں تین عقلمند اشخاص کی گواہی سے مراد قسم ہے کیونکہ اللہ تعالی نے لعان کے مسئلے میں قسم کو گواہی کا نام دیا ہے
جناب ابوبکر کنانہ بن نعیم بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کی قوم کے لوگ اُن کے پاس آئے اور اُنہوں نے اپنے ایک ساتھی کی شادی کے لئے تعاون کا سوال کیا تو انہوں نے ان لوگوں کو کچھ دینے سے انکار کردیا تو میں نے اُن سے کہا کہ آپ اپنی قوم کے سردار ہیں، آپ نے ان کو کچھ مال کیوں نہیں دیا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ان لوگوں نے مجھ سے ناحق مانگا ہے۔ اگر ان کا ساتھی اپنی شرمگاہ کو مسل ڈالے حتّیٰ کہ وہ خشک ہو جائے (یعنی بیکار ہو جائے) تو یہ اس کے لئے اس سوال سے بہتر ہے جو انہوں نے مجھ سے مانگا ہے۔ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”بھیک مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لئے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جس کے مال کو کوئی مصیبت و آفت نے تباہ کردیا تو وہ مانگ سکتا ہے حتّیٰ کہ گزارے کے لئے مال لے لے پھر بھیک مانگنے سے باز آجائے اور ایک وہ شخص جس نے اپنی قوم کے درمیان (صلح کے لئے) کوئی خون بہا یا تاوان اپنے ذمے لے لیا تو وہ لوگوں سے تعاون کا سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ پورا ہو جائے تو پھر مانگنے سے رک جائے اور تیسرا وہ شخص جس کی قوم کے تین عقل مند لوگ اللہ کی قسم اُٹھا کر کہیں کہ فلاں شخص واقعی فقیر و محتاج ہو گیا ہے (تو وہ مانگ سکتا ہے) ان کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگنے والا حرام ہی کھاتا ہے۔“
سیدنا قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک تاوان اپنے ذمے لیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس میں تعاون کے لئے حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ، زکوٰۃ کا مال آنے تک ہمارے پاس ٹھہرے رہو۔ (جب مال آئے گا) تو میں تمہارے ساتھ تعاون کا حُکم دے دوںگا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک زکوٰۃ کا مال صرف تین قسم کے افراد کے لئے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جو کوئی تاوان اپنے ذمے لے لے تو اُس کے لئے تعاون کا سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے حتّیٰ کہ بقدر گزارہ مال حاصل کرلے۔ دوسرا وہ شخص جسے کوئی آفت پہنچے جس سے اس کا سارا مال ضائع ہوجائے تو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے حتّیٰ کہ وہ بقدر ضرورت مال پالے۔ تیسرا وہ شخص جسے فقر و فاقہ پہنچ جائے تو اس کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال ہے حتّیٰ کہ گزارے کے لئے مال حاصل کرلے۔ اس کے علاوہ مانگنا اے قبیصہ حرام ہے، اور مانگنے والا حرام کھاتا ہے۔“