والدليل على ان لا وقت فيما يعطى الفقير من الصدقة إلا قدر سد خلته وفاقتهوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنْ لَا وَقْتَ فِيمَا يُعْطَى الْفَقِيرُ مِنَ الصَّدَقَةِ إِلَّا قَدْرً سُدُّ خُلَّتَهُ وَفَاقَتَهُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان فقیر کو دیئے جانے والے صدقے کی کوئی مقدار معین نہیں ہے مگر اسے اس قدر دیا جائے گا جسں سے اس کا فقر دور ہو ؎جائے
سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ تاوان کی ادائیگی میں میری مدد فرمائیں تو آپ نے فرمایا: ”ہمارے پاس ٹھہر جاؤ یا تو ہم تمہارا سارا تاوان ادا کردیںگے یا اس میں تمہارا تعاون کریںگے اور خوب جان لو، مانگنا صرف تین قسم کے افراد کے لئے جائز ہے۔ ایک وہ شخص جو کسی قوم کا تاوان یا خون بہا اپنے ذمے لے لیتا ہے تو وہ اس میں مدد کا سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ ادا ہو جائے تو مانگنا چھوڑ دے۔ دوسرا وہ شخص جس پر کوئی آفت آگئی ہو جس سے اس کا سارا مال ضائع ہوگیا ہو تو وہ سوال کرسکتا ہے حتّیٰ کہ وہ گزارے کے لئے مال حاصل کرلے۔ تیسرا وہ شخص جو فقر و فاقہ کا شکار ہوجائے اور اس کی قوم کے تین عقلمند یا قابل اعتماد شخص گواہی دیں کہ اسے فقر و فاقہ کا سامنا ہے تو اُس کے لئے مانگنا حلال ہے حتّیٰ کہ گزارے کے لئے مال حاصل کر ے پھر رک جائے اس کے علاوہ سوال کرنا حرام ہے۔ اے قبیصہ، اس کے سوا مانگنے والا حرام ہی کھائے گا۔“ یہ روایت جناب الثقفی کی ہے۔