صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ قَسْمِ الْصَّدَقَاتِ وَذِكْرِ أَهْلِ سُهْمَانِهَا
زکوٰۃ کی تقسیم کے ابواب کا مجموعہ اور مستحقین کی زکوٰۃ کا بیان
1631. (76) بَابُ ذِكْرِ دَّلَائِلِ أُخْرَى عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: " إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ "- صَدَقَةَ الْفَرِيضَةِ دُونَ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ
اس بات کے مزید دلائل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”بیشک صدقہ آلِ محمد کے لئے حلال نہیں ہے“ سے آپ کی مراد فرض صدقہ (زکوٰۃ) مراد ہے۔ نفلی صدقہ مراد نہیں ہے
حدیث نمبر: 2355
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ ، أَخْبَرَنَا الثَّقَفِيُّ عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَلاثَةٌ مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، كُلُّهُمْ يُحَدِّثُهُ عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى سَعْدٍ يَعُودُهُ بِمَكَّةَ، قَالَ: فَبَكَى سَعْدٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يُبْكِيكَ؟" قَالَ: خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِأَرْضِيَ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالا كَثِيرًا، وَإِنَّمَا تَرِثُنِي بِنْتٌ أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لا"، قَالَ: فَالثُّلُثَيْنِ: قَالَ:" لا"، قَالَ: فَالنِّصْفُ: قَالَ:" لا"، قَالَ: فَالثُّلُثُ، قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّ صَدَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ مَا تَأْكُلُ امْرَأَتُكَ مِنْ طَعَامِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّكَ إِنْ تَدَعْ أَهْلَكَ بِخَيْرٍ أَوْ قَالَ بِعَيْشٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ" ، وَقَالَ بِيَدِهِ
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ مکرّمہ میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ رونے لگ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کس لئے روتے ہو؟“ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، مجھے ڈرہے کہ کہیں میری وفات اسی شہر میں نہ ہو جائے جہاں سے میں نے ہجرت کی تھی (اور میرا اجر ضائع ہو جائے) جیسا کہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ (مکّہ مکرّمہ ہی میں) فوت ہو گئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللّٰہ، سعد کو شفا عطا فرما۔ اے اللّٰہ، سعد کو صحت دیدے۔“ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے پاس مال و دولت کافی زیادہ ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کی (کسی کے حق میں) وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ اُنہوں نے عرض کی کہ اچھا تو پھر دو تہائی کی وصیت کردیتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ انہوں نے عرض کی کہ آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”نہیں“ اُنہوں نے پھر پوچھا تو کیا ایک تہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تہائی مال (کی کردو) اور تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ بیشک تمہارا اپنے مال سے صدقہ کرنا صدقہ ہے اور تمہارا اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے اور بیشک تمہاری بیوی جو کچھ تمہارے اناج میں سے کھاتی ہے وہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے اور بیشک اگر تم اپنے اہل عیال کو مالدار یا فرمایا، ان کی زندگی گزارنے کے لئے مال چھوڑ کر جاؤ تو یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔“ اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم