1488. اس بات کی دلیل کا بیان کہ ہفتے کے دن نفلی روزہ رکھنے کی ممانعت اس وقت ہے جب اکیلے ہفتے کا روزہ رکھا جائے اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد میں روزہ نہ رکھا جائے ہفتے کے دن روزہ رکھنے کی رخصت ہے جبکہ روزے دار اس کے بعد اتوار کا روزہ بھی رکھے
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ احادیث جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے الاّ یہ کہ جمعہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں بھی روزہ رکھا جائے تو ان احادیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہفتے کے دن روزے کی اجازت دی ہے جبکہ اس سے پہلے جمعہ کے دن روزہ رکھا جائے یا اس سے ایک دن بعد (اتوار) کا روزہ رکھا جائے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جمعہ کا دن عید ہے لہٰذا تم جمعہ کے دن کو روزہ مت رکھو الاّ یہ کہ اس سے پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کی رخصت دی ہے جبکہ روزے دار اس سے پہلے جمعہ کے دن بھی روزہ رکھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مجھے سیدہ امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ میں اُن سے پوچھ کرآؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کن دنوں کا بکثرت روزہ رکھا کرتے تھے۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ ہفتہ اور اتوار کا روزہ بکثرت رکھتے تھے۔ پس میں نے واپس آکر اُنہیں اس کی خبر دی تو گویا اُنہوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا، وہ تمام افراد اُٹھ کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے اسے آپ کی خدمت میں یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا تھا اور اس نے ہمیں بتایا ہے کہ آپ نے اس کا یہ جواب دیا ہے۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ اس نے سچ بتایا ہے۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر ہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ ”یہ دو دن مشرکوں کے عید کے دن ہیں (وہ ان میں کھاتے پیتے ہیں) اور میں (روزہ رکھ کر) ان کی مخالف کرنا چاہتا ہوں۔“
حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث ، حدثنا سفيان ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، بلغ به" لا تصوم المراة يوما من غير شهر رمضان وزوجها شاهد إلا بإذنه" . قال ابو بكر: قوله صلى الله عليه وسلم:" من غير شهر رمضان" من الجنس الذي نقول: إن الامر إذا كان لعلة فمتى كانت العلة قائمة، والامر قائم، فالامر قائم، والنبي صلى الله عليه وسلم لما اباح للمراة صوم شهر رمضان بغير اذن زوجها، إذ صوم رمضان واجب عليها، كان كل صوم صوم واجب مثله جائز لها ان تصوم بغير إذن زوجها. ولهذه المسالة كتاب مفرد، قد بينت الامر الذي هو لعلة، والزجر الذي هو لعلةحَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، بَلَغَ بِهِ" لا تَصُومُ الْمَرْأَةُ يَوْمًا مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلا بِإِذْنِهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ" مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الأَمْرَ إِذَا كَانَ لِعِلَّةٍ فَمَتَى كَانَتِ الْعِلَّةُ قَائِمَةً، وَالأَمْرُ قَائِمٌ، فَالأَمْرُ قَائِمٌ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَبَاحَ لِلْمَرْأَةِ صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ بِغَيْرِ أَذْنِ زَوْجِهَا، إِذْ صَوْمُ رَمَضَانَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا، كَانَ كُلُّ صَوْمٍ صَوْمَ وَاجِبٍ مِثْلَهُ جَائِزٌ لَهَا أَنْ تَصُومَ بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا. وَلِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ كِتَابٌ مُفْرَدٌ، قَدْ بَيَّنْتُ الأَمْرَ الَّذِي هُوَ لِعِلَّةٍ، وَالزَّجْرَ الَّذِي هُوَ لِعِلَّةٍ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ ایک دن کا روزہ بھی شوہر کی اجازت کے بغیر نہ رکھے جبکہ اس کا شوہر گھر میں موجود ہو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ”ماہِ رمضان کے علاوہ“ یہ اسی قسم سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب حُکم کسی علت کی بنا پر ہو اور علت موجود اور ثابت ہوتو وہ علم ثابت اور وجوب کے لئے ہوتا ہے۔ لہٰذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لئے رمضان المبارک کے روزے خاوند کی اجازت کے بغیر رکھنا جائز قراردے دیئے، کیونکہ رمضان کے روزے اس پر واجب ہیں، تو ہر فرض روزہ اس کے لئے خاوند کی اجازت کے بغیر رکھنا جائز ہوا۔ اس مسئلہ پر میں نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں، میں نے وہ امراور نہی کو بیان کیا جو کسی علت کی بنا پر ہوتے ہیں۔
جناب مرثد یا ابومرثد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملے جبکہ وہ درمیانے جمرے کے پاس تھے۔ تو میں نے اُن سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا۔ تو ُانہوں نے فرمایا کہ شب قدر کے بارے میں مجھ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا شب قدر کے بارے میں انبیاء کرام پر وحی نازل ہوئی تھی پھر (انبیاء کے جانے کے بعد شب قدر بھی) واپس چلی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ بلکہ شب قدر قیامت تک موجود ہے۔“ میں نے کہا کہ اے اﷲ کے رسول، وہ کون سی رات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اجازت ہوتی تو میں تمہیں ضرور بتا دیتا۔ لیکن تم اسے سات دنوں میں تلاش کرو اور آج کے بعد اس کے بارے میں سوال نہ کرنا۔ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر اُنہیں بیان کرنے لگے تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، وہ کون سے سات دنوں میں ہے؟ تو آپ مجھ پر اس قدر ناراض ہوئے کہ ایسی شدید ناراضگی نہ اس سے پہلے کبھی ہوئی تھی اور نہ بعد میں کبھی ہوئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے تمہیں اس کے بارے میں سوال کرنے سے منع نہیں کیا تھا؟ اگر مجھے اجازت ہوتی تو میں تمہیں ضرور بتا دیتا، میں تمہیں اس کے بارے میں ضرور اس کی خبر دے دیتا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ یہ آخری سات دنوں میں ہوگی۔“
حضرت مرثد بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، میں نے کہا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں سب لوگوں سے بڑھ کر شب قدر کے بارے میں سوال کرنے والا شخص تھا۔ کہتے ہیں، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، مجھے بتائیں کیا شب قدر رمضان المبارک میں ہے یا اس کے علاوہ کسی اور مہینے میں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ وہ رمضان میں ہے۔“ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا شب قدر صرف انبیائے کرام کے زمانے میں ہوتی ہے، جب انبیائے کرام فوت ہوجاتے ہیں تو شب قدر بھی اُٹھالی جاتی ہے؟ یا یہ قیامت تک باقی رہے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ یہ قیامت تک رہے گی۔“ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، کیا یہ رمضان میں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پہلے اور آخری دس دس دنوں میں تلاش کرو۔ کہتے ہیں کہ پھر آپ لوگوں کو بیان کرتے رہے تو میں نے آپ کی بے دھیانی سے فائدہ ُاٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ اللہ کے رسول، میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ یہ کن بیس دنوں میں ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر ایسے شدید ناراض ہوئے کہ اس جیسے ناراض نہ کبھی پہلے ہوئے تھے نہ کبھی بعد میں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں اس کی اطلاع کر دیتا، تم اسے آخری سات دنوں میں تلاش کرو۔“