حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث ، حدثنا سفيان ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، بلغ به" لا تصوم المراة يوما من غير شهر رمضان وزوجها شاهد إلا بإذنه" . قال ابو بكر: قوله صلى الله عليه وسلم:" من غير شهر رمضان" من الجنس الذي نقول: إن الامر إذا كان لعلة فمتى كانت العلة قائمة، والامر قائم، فالامر قائم، والنبي صلى الله عليه وسلم لما اباح للمراة صوم شهر رمضان بغير اذن زوجها، إذ صوم رمضان واجب عليها، كان كل صوم صوم واجب مثله جائز لها ان تصوم بغير إذن زوجها. ولهذه المسالة كتاب مفرد، قد بينت الامر الذي هو لعلة، والزجر الذي هو لعلةحَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، بَلَغَ بِهِ" لا تَصُومُ الْمَرْأَةُ يَوْمًا مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلا بِإِذْنِهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ" مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ: إِنَّ الأَمْرَ إِذَا كَانَ لِعِلَّةٍ فَمَتَى كَانَتِ الْعِلَّةُ قَائِمَةً، وَالأَمْرُ قَائِمٌ، فَالأَمْرُ قَائِمٌ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَبَاحَ لِلْمَرْأَةِ صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ بِغَيْرِ أَذْنِ زَوْجِهَا، إِذْ صَوْمُ رَمَضَانَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا، كَانَ كُلُّ صَوْمٍ صَوْمَ وَاجِبٍ مِثْلَهُ جَائِزٌ لَهَا أَنْ تَصُومَ بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا. وَلِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ كِتَابٌ مُفْرَدٌ، قَدْ بَيَّنْتُ الأَمْرَ الَّذِي هُوَ لِعِلَّةٍ، وَالزَّجْرَ الَّذِي هُوَ لِعِلَّةٍ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ ایک دن کا روزہ بھی شوہر کی اجازت کے بغیر نہ رکھے جبکہ اس کا شوہر گھر میں موجود ہو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ”ماہِ رمضان کے علاوہ“ یہ اسی قسم سے ہے جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب حُکم کسی علت کی بنا پر ہو اور علت موجود اور ثابت ہوتو وہ علم ثابت اور وجوب کے لئے ہوتا ہے۔ لہٰذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لئے رمضان المبارک کے روزے خاوند کی اجازت کے بغیر رکھنا جائز قراردے دیئے، کیونکہ رمضان کے روزے اس پر واجب ہیں، تو ہر فرض روزہ اس کے لئے خاوند کی اجازت کے بغیر رکھنا جائز ہوا۔ اس مسئلہ پر میں نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں، میں نے وہ امراور نہی کو بیان کیا جو کسی علت کی بنا پر ہوتے ہیں۔