سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا، تو ہم سے کچھ روزے دار تھے اور کچھ نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ تو نہ روزہ چھوڑنے والے نے روزے دار پر اعتراض کیا اور نہ روزے دار نے بے روزہ پر عیب لگایا۔ اور صحابہ کرام کا موقف یہ تھا کہ جو شخص قوت وطاقت رکھتا ہو وہ روزہ رکھ لے تو یہ بہت ہی اچھا ہے۔ اور جو شخص کمزوری محسوس کرے تو وہ روزہ نہ رکھے تو یہ (اس کے حق میں) بہت اچھا ہے۔ یہ جناب ثقفی کی روایت ہے، لیکن انہوں نے ”فی رمضان“(رمضان میں) کے الفاظ بیان نہیں کیے اور جناب سالم بن نوح کی روایت میں”جميل“ کا لفظ نہیں ہے اور”يرون“ کا لفظ روایت کیا ہے۔ اور جناب ابن علیہ کی روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ ”فی رمضان“(رمضان میں) کے الفاظ بیان نہیں کیے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مرالظهران مقام پر آپ کے ساتھ تھے تو کھانا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ”قریب ہوجاؤ اور کھانا کھاؤ“ تو اُنہوں نے عرض کیا ہم روزے دار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے ساتھیوں کے ضروری کام کردو اور اُن کی سواریاں تیار کردو۔ تم دونوں قریب ہو جاؤ اور کھانا کھالو۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت بھی اس قسم سے ہے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ روزے دار کے لئے سفر میں دن کا کچھ حصّہ گزرنے کے بعد روزہ کھولنا جائز ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھانے کا حُکم دیا ہے جبکہ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ روزے دار ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے تو کچھ صحابہ نے روزہ رکھ لیا اور کچھ نے روزہ نہ رکھا۔ پس روزہ نہ رکھنے والوں نے ہمّت و احتیاط سے کام لیا اور خدمت کے کام انجام دیئے۔ جبکہ روزے دار کچھ کام کرنے سے کمزور و بے بس ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا: ”آج روزہ نہ رکھنے والے اجر وثواب لے گئے ہیں۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے کچھ افراد روزے دار تھے اور کچھ نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ تو ہم ایک سخت گرمی والے دن شدید گرمی میں ایک منزل پر اُترے۔ ہم میں سے کچھ لوگ اپنے ہاتھ سے سورج کی دھوپ سے بچ رہے تھے اور ہم میں سے زیادہ سائے والا وہ شخص تھا جس کے پاس چادر تھی اور روزے دار اس کے سائے میں جگہ لے رہے تھے۔ جن افراد نے روزہ نہیں رکھا تھا وہ اُٹھے اور اُنہوں نے خیمے نصب کیے اور سواریوں کو پانی پلایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ نہ رکھنے والے آج اجر وثواب لے گئے ہیں۔“
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ والے سال رمضان المبارک میں (سفر کے دوران) روزہ رکھا حتّیٰ کہ آپ الکدید مقام پر پہنچے تو روزہ کھول دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ والے سال (سفر کے دوران) روزے رکھے حتّیٰ کہ جب آپ الکدید مقام پر پہنچے تو روزہ کھول دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری اور مؤخر فرمان پر عمل کیا جائے گا۔ یہ جناب عبدالجبار کی روایت ہے۔ اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ امام سفیان فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں (یہ آخری جملہ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے یا عبید اللہ یا امام زہری کا قول ہے۔
حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح ، حدثنا عبيدة بن حميد ، حدثنا منصور . ح وحدثنا يوسف بن موسى ، حدثنا جرير ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، قال:" خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من المدينة يريد مكة , فصام حتى اتى عسفان , فدعا بإناء , فوضعه على يده , حتى نظر إليه الناس , ثم افطر" . وكان ابن عباس يقول: من شاء صام , ومن شاء افطر. هذا حديث الحسن بن محمد. وقال يوسف:" سافر رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فصام حتى بلغ عسفان , ثم دعا بإناء , فشرب نهارا، ليراه الناس , ثم افطر حتى قدم مكة". قال: كان ابن عباس يقول: صام رسول الله صلى الله عليه وسلم في السفر , وافطر , ومن شاء صام , ومن شاء افطر. قال ابو بكر: هذا الخبر يصرح ان ابن عباس كان يرى صوم النبي صلى الله عليه وسلم في السفر في الابتداء , وإفطاره بعد , هذا من الجنس المباح ان كلا الفعلين جائز , لا ان إفطاره بعد بلوغه عسفان كان نسخا لما تقدم من صومهحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ . ح وَحَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ يُرِيدُ مَكَّةَ , فَصَامَ حَتَّى أَتَى عُسْفَانَ , فَدَعَا بِإِنَاءٍ , فَوَضَعَهُ عَلَى يَدِهِ , حَتَّى نَظَرَ إِلَيْهِ النَّاسُ , ثُمَّ أَفْطَرَ" . وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: مَنْ شَاءَ صَامَ , وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ. هَذَا حَدِيثُ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ. وَقَالَ يُوسُفُ:" سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ , ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ , فَشَرِبَ نَهَارًا، لِيَرَاهُ النَّاسُ , ثُمَّ أَفْطَرَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ". قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ , وَأَفْطَرَ , وَمَنْ شَاءَ صَامَ , وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ يُصَرِّحُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يَرَى صَوْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ فِي الابْتِدَاءِ , وَإِفْطَارَهُ بَعْدُ , هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الْمُبَاحِ أَنَّ كِلا الْفِعْلَيْنِ جَائِزٌ , لا أَنَّ إِفْطَارَهُ بَعْدَ بُلُوغِهِ عُسْفَانَ كَانَ نَسْخًا لِمَا تَقَدَّمَ مِنْ صَوْمِهِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منوّرہ سے مکّہ مکرّمہ کے ارادے سے روانہ ہوئے تو آپ (دوران سفر) روزہ رکھتے رہے حتّیٰ کہ جب عسفان مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اسے اپنے دست مبارک پر رکھا حتّیٰ کہ لوگوں نے اُسے دیکھ لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کھول دیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص چاہے وہ روزہ رکھ لے اور جو چاہے وہ روزہ نہ رکھے۔ یہ جناب حسن بن محمد کی روایت ہے۔ جناب یوسف کی روایت میں ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں سفر کیا“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے رکھے حتّیٰ کہ آپ عسفان مقام پر پہنچ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا برتن منگوایا تو دن کے وقت پی لیا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ لیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ مکرّمہ پہنچنے تک روزے چھوڑے رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزے رکھے ہیں اور روزے چھوڑے بھی ہیں۔ لہٰذا جو شخص چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی صراحت کررہی ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتداء میں دوران سفر روزے رکھنا اور پھر بعد میں روزے نہ رکھنا جائز قسم سے تعلق رکھتا ہے اور یہ دونوں کام ہی جائز و درست ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ عسفان مقام پر پہنچ کر آپ کا روزہ کھولنا (اور باقی سفر میں روزے نہ رکھنا) ابتدائی روزے رکھنے کے حُکم کا ناسخ ہے۔
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ میں یہ روایت اس ے پہلے لکھواچکا ہوں۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رمضان المبارک کی دو تاریخ کو (سفر پر) نکلے جبکہ ہم نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ہم الکدید جگہ پر پہنچے تو ہم کو روزہ نہ رکھنے کا حُکم دے دیا گیا۔ تو ہم نے صبح خوش وخرم اور فراخی میں کی، ہم میں سے کچھ نے روزہ رکھ لیا اور کچھ نے نہ رکھا حتّیٰ کہ جب مرالمظہران مقام پر پہنچے تو ہمیں دشمن کے مقابلے کی اطلاع ملی، ہمیں روزہ کھولنے کا حُکم دیا گیا تو ہم سب نے روزہ کھول لیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس اور ابونضرہ رضی اللہ عنہم کی سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت بھی اسی مسئلہ کے متعلق ہے۔