1247. امام کا خطبے کے دوران مسجد میں داخل ہونے والے سے پوچھنا کہ کیا اس نے دو رکعات ادا کرلی ہیں یا نہیں؟ اور امام کا اسے دو رکعات پڑھنے کا حُکم دینا اگر اُس نے امام کے سوال کرنے سے پہلے یہ دو رکعات نہ پڑھی ہوں۔ اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ خطبہ نماز نہیں ہے
جناب عمرو اور ابوالزبیر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، جناب عمرو کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا ـ اور جناب ابوالزبیر کی روایت کے الفاظ یوں ہیں ـ سلیک غطفانی جمعہ والے دن مسجد میں داخل ہوا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ”نماز نفل پڑھی ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو دو رکعات پڑھ لو۔“ جنا ب مخزوی نے ہمیں یہ دونوں روایتیں الگ الگ بیان کی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”توکھڑے ہو جاؤ اور دو رکعات ادا کرو۔“ اور ایک مرتبہ جناب ابوالزبیر کی روایت کے بعد کہا، اور اس آدمی کا نام سلیک بن عمرو غطفانی ہے ـ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ” کیا تم نے نماز پڑھی ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھڑے ہو جاؤاور نماز پڑھو۔“ اور جناب احمد بن عبدہ اور احمد بن مقدام کی روایت میں ہے کہ ”اے فلاں تم نے نماز پڑھی ہے“ اور جناب اَبی عاصم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے نماز ادا کرلی ہے؟“ اُس نے کہا کہ نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”دو رکعات ادا کر لو ـ“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی آیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ـ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ”کیا تم نے دو رکعات ادا کرلی ہیں؟“ اُس نے جواب دیا کہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑھ لو ـ“
یہ ایک اختیاری اور مستحب حُکم ہے۔ اور یہ دو رکعت مختصر اور ہلکی ادا کرنے کا بیان۔ اور ان لوگوں کے قول کے برخلاف دلیل کا بیان جو کہتے ہیں کہ حُکم سلیک غطفانی کے ساتھ خاص تھا۔
نا علي بن خشرم ، اخبرنا عيسى يعني ابن يونس ، عن الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، قال: جاء سليك الغطفاني يوم الجمعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب , فجلس , فقال له:" يا سليك , قم فاركع ركعتين، وتجوز فيهما". ثم قال: " إذا جاء احدكم يوم الجمعة والإمام يخطب فليركع ركعتين , وليتجوز فيهما" . قال ابو بكر: فالنبي صلى الله عليه وسلم قد امر بعد فراغ سليك من الركعتين من جاء إلى الجمعة والإمام يخطب بهذا الامر كل مسلم يدخل المسجد والإمام يخطب إلى قيام الساعة. وكيف يجوز ان يتاول عالم ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما خص بهذا الامر سليكا الغطفاني إذ دخل المسجد رث الهيئة وقت خطبته صلى الله عليه وسلم، والنبي صلى الله عليه وسلم يامر بلفظ عام من يدخل المسجد والإمام يخطب ان يصلي ركعتين، بعد فراغ سليك من الركعتين. وابو سعيد الخدري راوي الخبر، عن النبي صلى الله عليه وسلم يحلف ان لا يتركهما بعد امر النبي صلى الله عليه وسلم بهما , فمن ادعى ان هذا كان خاصا لسليك، او للداخل وهو رث الهيئة وقت خطبة النبي صلى الله عليه وسلم فقد خالف اخبار النبي صلى الله عليه وسلم المنصوصة ؛ لان قوله:" إذا جاء احدكم يوم الجمعة والإمام يخطب فليصل ركعتين" محال ان يريد به داخلا واحدا دون غيره ؛ لان هذه اللفظة:" إذا جاء احدكم" عند العرب يستحيل ان تقع على واحد دون الجمع. وقد خرجت طرق هذه الاخبار في كتاب الجمعةنا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ , فَجَلَسَ , فَقَالَ لَهُ:" يَا سُلَيْكُ , قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، وَتَجَوَّزْ فِيهِمَا". ثُمَّ قَالَ: " إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ , وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بَعْدَ فَرَاغِ سُلَيْكٍ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ مَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ بِهَذَا الأَمْرِ كُلَّ مُسْلِمٍ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ. وَكَيْفَ يَجُوزُ أَنْ يَتَأَوَّلَ عَالِمٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا خَصَّ بِهَذَا الأَمْرِ سُلَيْكًا الْغَطَفَانِيَّ إِذْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ رَثَّ الْهَيْئَةِ وَقْتَ خُطْبَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِلَفْظٍ عَامٍّ مَنْ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ أَنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، بَعْدَ فَرَاغِ سُلَيْكٍ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ. وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ رَاوِي الْخَبَرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْلِفُ أَنْ لا يَتْرُكَهُمَا بَعْدَ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمَا , فَمَنِ ادَّعَى أَنَّ هَذَا كَانَ خَاصًّا لِسُلَيْكٍ، أَوْ لِلدَّاخِلِ وَهُوَ رَثُّ الْهَيْئَةِ وَقْتَ خُطْبَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ خَالَفَ أَخْبَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَنْصُوصَةَ ؛ لأَنَّ قَوْلَهُ:" إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ" مُحَالٌ أَنْ يُرِيدَ بِهِ دَاخِلا وَاحِدًا دُونَ غَيْرِهِ ؛ لأَنَّ هَذِهِ اللَّفْظَةَ:" إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ" عِنْدَ الْعَرَبِ يَسْتَحِيلُ أَنْ تَقَعَ عَلَى وَاحِدٍ دُونَ الْجَمْعِ. وَقَدْ خَرَّجْتُ طُرُقَ هَذِهِ الأَخْبَارِ فِي كِتَابِ الْجُمُعَةِ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن آئے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فر ما رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: ”اے سلیک کھٹرے ہوکر دو رکعات پڑھو اور ان کو مختصر اور ہلکی پڑھنا -“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اس حال میں مسجد میں جمعہ کے دن آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اُسے دو رکعات پڑھ لے اور انہیں مختصر اور ہلکی ادا کرے ـ“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلیک رضی اللہ عنہ کے دو رکعتوں سے فارغ ہونے کے بعد حُکم دیا ہے کہ جو شخص جمعہ کے لئے آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اُسے دو رکعا ت پڑھنی چاہئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حُکم قیامت تک کے لئے ہر مسلمان شخص کو دیا ہے جو اس حال میں مسجد میں داخل ہوتا ہے کہ امام خطب دے رہا ہو۔ لہٰذا یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ کوئی عالم دین اس حدیث کی یہ تاویل کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حُکم خصوصاً سیدنا سلیک رضی اللہ عنہ کو دیا تھا جبکہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں مسجد میں داخل ہوئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ـ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حُکم عام الفاظ کے ساتھ دیا ہے۔ جو شخص بھی مسجد میں داخل ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اُسے دو رکعات ادا کرنی چاہئیں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حُکم سیدنا سلیک رضی اللہ عنہ کے دو رکعات سے فارغ ہونے پر دیا تھا ـ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی قسم اُٹھاتے تھے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کے بعد یہ دو رکعات کبھی ترک نہیں کریںگے۔ لہٰذا جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ حُکم سیدنا سلیک رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھا یا اُس شخص کے لئے تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے کے دوران شکستہ حالت میں مسجد میں داخل ہوا تھا تو اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص فرامین کی خلاف ورزی کی ہے۔ کیونکہ آپ کے فرمان ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن اس وقت آئے جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اُسے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے“ سے صرف ایک مخصوص شخص مسجد میں داخل ہونے ولا مراد لینا محال و ناممکن ہے کیونکہ یہ الفاظ ” جب تم میں سے کوئی شخص آئے“ عرب لوگوں کے ہاں صرف ایک شخص کے لئے استعمال ہونا مستحیل و ناممکن ہے بلکہ یہ جمع کے لئے آتا ہے۔ میں نے اس حدیث کے طرق کتاب الجمعہ میں بیان کردئیے ہیں۔
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ جمعہ سے پہلے وہ جتنی نماز پڑھے گا وہ نفل ہوگی، اس میں سے فرض کوئی نہیں ہوگی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کی روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ”اُس نے جتنی اُس کے مقدر میں لکھی تھی نماز پڑھی۔“ اور سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ”جو اس کے مقدر میں تھی (اُس نے پڑھی)“ اور سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ” تو اُس نے نماز پڑھی اگر اُس نے چاہا۔“
جناب ایوب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع سے پوچھا، کیا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ سے پہلے نماز پڑھتے تھے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ جمعہ سے پہلے بڑی طویل نماز پڑھتے تھے اور جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعات ادا کرتے تھے۔ اور بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح عمل کرتے تھے۔
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (جمعہ کے) لئے صرف ایک ہی مؤذن تھا ـ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے تو وہ اذان کہتا اور جب آپ منبر سے اُترتے تو وہ اقامت کہتا۔ سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی اسی طرح رہا۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور لوگ زیادہ ہوگئے تو اُنہوں نے بازار میں ایک گھر (کی چھت) پر جسے الزوراء کہا جاتا تھا، تیسری اذان کہنے کا حُکم دیا۔ لہٰذا جب آپ گھر سے خطبہ کے لئے تشریف لاتے تو وہ مؤذن اذان کہتا اور جب آپ منبر سے اُترتے تو وہ اقامت کہہ دیتا۔