سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو سورۃ ص کی تلاوت کی ـ پھر جب سجدے والی آیت پڑھی تو آپ منبر سے اُترے اور سجدہ کیا تو ہم نے بھی سجدہ کیا۔ پھر دوبارہ اس سورت کی تلاوت کی تو جب سجدے والی آیت پر پہنچے تو ہم سجدے کے لئے تیار ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (سجدے کے لئے تیار) دیکھا تو فرمایا: ”یہ تو ایک نبی کی توبہ کا ذکر ہے لیکن میں تمہیں سجدے کے لئے تیار دیکھ رہا ہوں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے اور سجدہ کیا اور ہم نے بھی سجدہ کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ابن وہب کے کسی شاگرد نے اس حدیث کو ابن وہب سے عمرو بن حارث کی سند سے بیان کرتے وقت سعید بن ابی ہلال اور عیاض کے درمیان اسحاق بن عبداللہ ابوفروہ کا اضافہ کر دیا ہے ـ جبکہ ہمارے اصحاب اسحاق کی حدیث کو دلیل و حجت نہیں بناتے ـ اور میرے خیال میں اس نے اسحاق بن عبداللہ کو اس سند میں داخل کرکے غلطی کی ہے ـ
1213. جمعہ کے دن خطبہ کے دوران منبر پر امام سے سوال کیا جائے تو اسے علمی جواب دینے کی رخصت ہے۔ ان علماء کے موقف کے برخلاف جو کہتے ہیں کہ خطبہ نماز کی طرح ہے اور اس میں ایسی کلام کرنا جائز نہیں جو کلام نماز میں جائز نہیں
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے رواتے ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول، قیامت کب آئے گی؟ صحابہ کرام نے اُسے اشارہ کیا کہ خاموش ہو جاؤ۔ تو اُس نے تین بار آپ سے یہی سوال کیا۔ ہر مرتبہ صحابہ کرام اُسے اشارہ کرتے کہ خاموش ہو جاؤ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ سوال کرنے سے فرمایا: ”تیرا بھلا ہو تُو نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ اللہ اور اُس کے رسول کی محبت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً تم اُسی کے ساتھ ہو گے جس سے تمہیں محبت ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے ـ پھر ایک نوجوان لڑکا گزرا - سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں کہتا ہوں کہ وہ میرا ہم عمر تھا ـ وہ بالغ ہو چکا تھا یا بلوغت کے قریب تھا ـ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اُس نے کہا کہ میں یہاں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس لڑکے نے عمر مکمّل کرلی تو وہ قیامت کی علامات دیکھے بغیر ہرگز فوت نہیں ہوگا ـ“
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب میں مدینہ منوّرہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس اس دروازے سے یا اس راستے سے یمن والوں کا بہترین شخص داخل ہوگا، آگاہ رہو اس کے چہرے پر بادشاہ کا نشان ہوگا۔“ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان اور نعمت پر اُس کا شکر ادا کیا ـ
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منوّرہ کے قریب پہنچ گیا تو میں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور اپنا تھیلا کھول کر اپنا جوڑا پہنا، پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سلام کیا۔ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا ـ تو میں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا، اے عبداللہ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے میں کچھ فرمایا تھا (جو یہ سب لوگ مجھے غور سے دیکھ رہے ہیں؟) اُس نے جواب دیا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارا بڑا اچھا تذکرہ فرمایا ہے۔ اس دوران کہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، تو آپ کو اپنے خطبے میں کوئی بات یاد آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس اس دروازے سے یا اس راستے سے یمن والوں کا بہتر ین شخص داخل ہوگا اور اُس کے چہرے پر بادشاہ کا نشان ہو گا۔ سیدنا جریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر اُس کا شکر ادا کیا۔
جناب عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح سے مروی ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جمعہ والے دن مسجد میں داخل ہوئے جبکہ مروان بن حکم خطبہ دے رہا تھا ـ چنانچہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر نماز (تحیۃ المسجد) شروع کر دی ـ تو (مروان کے) محافظ اُنہیں بٹھانے کے لئے آگئے ـ تو اُنہوں نے بیٹھنے سے انکار کر دیا حتّیٰ کہ نماز ادا کرلی۔ پھر جب مروان فارغ ہوکر چلا گیا تو ہم سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اُن سے عرض کی کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، یہ لوگ آپ کے ساتھ بُرا سلوک کرنے ہی والے تھے ـ اُنہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیکھنے کے بعد ان دو رکعات کو ہرگز چھوڑنے والا نہیں تھا ـ پھر بتایا کہ ایک شخص نہایت شکستہ حالت میں جمعہ کے دن آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ـ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو (اس شخص پر) صدقہ کرنے کا حُکم دیا تو صحابہ کرام کو (اُسے دینے کے لئے) کپڑے میسر نہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دو کپڑے دینے کا حُکم دیا اور آپ نے اسے حُکم دیا تو اُس نے دو رکعت ادا کیں پھر وہ دوسرے جمعہ آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُس پر) صدقہ کرنے کا حُکم دیا ـ تو ایک شخص نے اپنی دو چادروں میں سے ایک اُسے دے دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلند آواز سے ڈانٹا اور فرمایا: ”اپنی چادر واپس لے لو۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص سخت بدھالی میں مسجد میں داخل ہوا تھا تو میں نے لوگوں کو (اس پر) صدقہ کرنے کا حُکم دیا تھا تو انہیں کپڑے نہ ملے لہٰذا میں نے اسے دو کپڑے دینے کا حُکم دیا تھا۔ پھر یہ آج مسجد میں آیا ہے تو میں نے صدقہ کرنے کا حُکم دیا ہے تو اس شخص نے اسے اپنی ایک چادر دی ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو حُکم دیا کہ وہ دو رکعات نماز ادا کرے -
سیدنا ابورفاعہ عدوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ تو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ایک اجنبی شخص اپنے دین کے بارے میں سوال کرنے آیا ہے، اسے معلوم نہیں کہ اس کا دین کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے اپنا خطبہ چھوڑ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کرسی لائی گئی، میرا خیال ہے کہ اس کے پائے لوہے کے تھے ـ جناب حمید کہتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے سیاہ رنگ کی ٹکڑی کے پائے دیکھے تو انہوں نے اسے لوہا سمجھ لیا ـ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا علم سکھانے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دوبارہ شروع کیا اور اس کا باقی حصّہ مکمّل کیا۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما آگئے اّن دونوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھیں۔ وہ کپڑے میں پاؤں الجھنے سے کبھی گر جاتے اور پھر اُٹھ جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اُنہیں اُٹھا لیا، پھر اُنہیں اپنے سامنے بیٹھا لیا اور فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے، بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزئش کا باعث ہیں۔ میں نے ان دونوں کو دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا ـ“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ شروع کر دیا -
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس درمیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں صبر نہ کرسکا حتّیٰ کہ میں منبر سے اُترا اور ان دونوں کو اُٹھالیا۔“ اور یہ الفاظ روایت نہیں کیے کہ پھر آپ نے دوبارہ خطبہ شروع کر دیا۔