صحيح ابن خزيمه
اذان ، خطبہ جمعہ ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
1212.
خطبہ کے دوران آیت سجدہ تلاوت کرنے پر سجدہ کرنے کے لئے منبر سے اُترنے کا بیان، اگر یہ حدیث صحیح ہو
حدیث نمبر: 1795
نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ ، أَخْبَرَنَا أَبِي ، وَشُعَيْبٌ ، قَالا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ , عَنِ ابْنِ أَبِي هِلالٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا , فَقَرَأَ ص، فَلَمَّا مَرَّ بِالسَّجْدَةَ نَزَّلَ فَسَجَدَ، وَسَجَدْنَا، وَقَرَأَ بِهَا مَرَّةً أُخْرَى فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةِ تَيَسَّرْنَا لِلسُّجُودِ , فَلَمَّا رَآنَا، قَالَ:" إِنَّمَا هِيَ تَوْبَةُ نَبِيٍّ , وَلَكِنْ أَرَاكُمْ قَدِ اسْتَعْدَدْتُمْ لِلسُّجُودِ" , فَنَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدْنَا . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَدْخَلَ بَعْضُ أَصْحَابِ ابْنِ وَهْبٍ , عَنِ ابْنِ وَهْبٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، فِي هَذَا الإِسْنَادِ إِسْحَاقَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ بَيْنَ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلالٍ , وَبَيْنَ عِيَاضٍ. وَإِسْحَاقَ مِمَّنْ لا يَحْتَجُّ أَصْحَابُنَا بِحَدِيثِهِ , وَأَحْسَبُ أَنَّهُ غَلَطَ فِي إِدْخَالِهِ إِسْحَاقَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فِي هَذَا الإِسْنَادِ
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا تو سورۃ ص کی تلاوت کی ـ پھر جب سجدے والی آیت پڑھی تو آپ منبر سے اُترے اور سجدہ کیا تو ہم نے بھی سجدہ کیا۔ پھر دوبارہ اس سورت کی تلاوت کی تو جب سجدے والی آیت پر پہنچے تو ہم سجدے کے لئے تیار ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (سجدے کے لئے تیار) دیکھا تو فرمایا: ”یہ تو ایک نبی کی توبہ کا ذکر ہے لیکن میں تمہیں سجدے کے لئے تیار دیکھ رہا ہوں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے اور سجدہ کیا اور ہم نے بھی سجدہ کیا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ابن وہب کے کسی شاگرد نے اس حدیث کو ابن وہب سے عمرو بن حارث کی سند سے بیان کرتے وقت سعید بن ابی ہلال اور عیاض کے درمیان اسحاق بن عبداللہ ابوفروہ کا اضافہ کر دیا ہے ـ جبکہ ہمارے اصحاب اسحاق کی حدیث کو دلیل و حجت نہیں بناتے ـ اور میرے خیال میں اس نے اسحاق بن عبداللہ کو اس سند میں داخل کرکے غلطی کی ہے ـ
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔