جناب عطاء سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو منبر پر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا، جب تم میں سے کوئی شخص اس حال میں مسجد میں داخل ہو کہ لوگ رکوع میں ہوں تو وہ داخل ہوتے ہی رکوع میں چلا جائے پھر رکوع ہی کی حالت میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے صف میں شامل ہو جائے، بلا شبہ یہ سنّت ہے - جناب عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
1030. اس بات کا بیان کہ عقل و تمیز والے افراد پہلی صف میں کھڑے ہونے کا زیادہ حق رکھتے ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی افراد کو اپنے قریب کھڑے ہونے کا حُکم دیا تھا
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے اہل دانش اور عقل مند لوگ میرے نزدیک کھڑے ہوں، پھر وہ جو (عقل و تمیز میں) ان کے قریب ہوں۔ پھر وہ جو اُن کے قریب ہوں۔ اور تم آپس میں اختلاف نہ کرو، وگرنہ تمہارے دل بھی مختلف ہو جائیں گے اور تم بازاروں کے شور و غل سے (مسجدوں میں) پرہیز کرو۔“
1031. اگر پہلی صف میں نو عمر کھڑے ہوجائیں پھر بعد میں کوئی صاحب عقل و تمیز والے آئیں تو بچّوں کو ہٹاکر انہیں پچھلی صف میں کھڑنا جائز ہے اور اگلی صف میں وہ کھڑا ہو جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہونے کا حُکم دیا ہے اور عقل و تمیز سے عاری نو عمر کو پچھلی صف میں کھڑا کیا جائے
حضرت قیس بن عباد بیان کرتے ہیں کہ اس دوران کہ میں مدینہ منوّرہ میں مسجد نبوی میں پہلی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا تھا، جب ایک شخص نے مجھے پیچھے سے کھینچ لیا۔ مجھے ہٹا کر وہ خود اُس جگہ کھڑا ہوگیا۔ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم، غصّے کی وجہ سے میں اپنی نماز سمجھ نہ سکا (کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں)۔ پھر جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ اے نوجوان، اللہ تمہارا بھلا کرے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم . امام کے قریب کھڑے ہوں۔ پھر وہ قبلہ رُخ ہوئے اور فرمایا، رب کعبہ کی قسم حُکمران ہلاک ہو گئے، تین بار فرمایا۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی قسم، اُن پر افسوس نہیں لیکن افسوس تو اُن لوگوں پر ہے جو دوسروں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اس سے آپ کی مراد کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ میری مراد امراء (حکمران) ہیں۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے۔ (آپ کی عدم موجودگی میں نماز کا وقت ہو گیا تو مؤذن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آیا اور اُن سے لوگوں کی امامت کرنے کی درخواست کی۔ اُنہوں نے نماز شروع کر دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ آپ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے حتّیٰ کہ اگلی صف میں کھڑے ہو گئے۔ پھر مکمّل حدیث بیان کی۔ یہ الفاظ جناب اسماعیل کی روایت کے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”يقينا امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ لہٰذا جب وہ نماز پڑھانے کے لئے تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور اُس سے اختلاف نہ کرو (اس سے مختلف کام نہ کرو) جب وہ «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم «رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور تم اس سے پہلے جلدی نہ کرو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: ”امام سے (کسی بھی کام میں) پہل اور جلدی نہ کرو ـ جب امام تکبیر کہہ لے تو تم بھی تکبیر کہو جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِيّنَ» پڑھے تو تم آمین کہو اور جب وہ «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم «رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» کہو اور تم رکوع و سجود میں امام سے جلدی نہ کرو۔“
لا يكون مكبرا حتى يفرغ من التكبير، ويتم الراء التي هي آخر التكبير، والفرق بين قوله: إذا كبر فكبروا، وبين قوله: وإذا ركع فاركعوا، وإذا سجد فاسجدوا، إذ اسم المكبر لا يقع على الإمام ما لم يتم التكبير، واسم الراكع قد يقع عليه إذا استوى راكعا، وكذلك اسم الساجد يقع عليه إذا استوى جالسا لَا يَكُونُ مُكَبِّرًا حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ التَّكْبِيرِ، وَيُتِمَّ الرَّاءَ الَّتِي هِيَ آخِرُ التَّكْبِيرِ، وَالْفَرْقُ بَيْنَ قَوْلِهِ: إِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَبَيْنَ قَوْلِهِ: وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، إِذِ اسْمُ الْمُكَبِّرِ لَا يَقَعُ عَلَى الْإِمَامِ مَا لَمْ يُتِمَّ التَّكْبِيرَ، وَاسْمُ الرَّاكِعِ قَدْ يَقَعُ عَلَيْهِ إِذَا اسْتَوَى رَاكِعًا، وَكَذَلِكَ اسْمُ السَّاجِدِ يَقَعُ عَلَيْهِ إِذَا اسْتَوَى جَالِسًا
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «اللهُ أَكْبَرُ» کہہ لے، تو تم «اللهُ أَكْبَرُ» کہو۔ جب وہ «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم «رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْد» کہو۔“
جناب حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا سمرہ بن جندب اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے آپس میں مذاکرہ کیا تو سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، ایک سکتہ اُس وقت جب آپ تکبیر کہہ لیتے اور دوسرا سکتہ اُس وقت کرتے جب آپ رکوع سے پہلے قراءت سے فارغ ہوتے۔“ جبکہ وہ بلند آواز سے کلام نہ کر رہا ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولیٰ اور قراءت کے درمیانی سکتہ میں جہری نمازوں میں آہستہ اور خفیہ طور سے دعا پڑھا کرتے تھے۔