سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ جو شخص رات کو نماز پڑھے تو اُسے چاہیے کہ اپنی آخری نماز وتر بنائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حُکم دیا ہے، پھر جب فجر ہو جائے تو پھر رات کی ہر نماز اور وتر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وتر کی نماز فجر سے پہلے ہے۔“ یہ جناب محمد بن یحییٰ قطعی کی روایت ہے۔ دوسرے راویوں نے یہ کہا ہے کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر سے پہلے وتر پڑھو۔“ اور الرمادی نے کہا کہ ”(طلوع فجر ہوگئی) تو رات کی نماز اور وتر کا وقت ختم ہوگیا۔“
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”جس شخص کی وتر پڑھے بغیر صبح ہوگئی تو اس کا کوئی وتر نہیں ہے۔“
اوهم بعض من لم يتبحر العلم ولم يكتب من العلم ما يستدل بالخبر المفسر على الخبر المجمل ان النبي صلى الله عليه وسلم اوتر بعد طلوع الفجر الثاني أَوْهَمَ بَعْضَ مَنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ وَلَمْ يَكْتُبْ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُسْتَدَلُّ بِالْخَبَرِ الْمُفَسَّرِ عَلَى الْخَبَرِ الْمُجْمَلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْتَرَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الثَّانِي
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے چند اونٹ دینے کا وعدہ فرمایا تھا تو اُنہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عشاء کے بعد بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ تو میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکیے کو تکیہ بنا لیا (اور لیٹ گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیرسوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو مکمّل وضو کیا اور پانی کم بہایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کر دی، چنانچہ میں بھی اُٹھ گیا اور وضو کیا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے (مجھے) پیچھے کیا اور میرے کان سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرنا شروع کر دیا اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا حائضہ تھیں، تو اُنہوں نے اٹھ کر وضو کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ کر ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ” تمہیں تمہارے شیطان نے اٹھا دیا ہے؟“ اُنہوں نے عرض کہ اے اللہ کے رسول، میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کیا میرا شیطان بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے۔ ہاں میرا بھی شیطان ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے تو میں اس کے شر سے محفوظ ہوں۔“ پھر جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُٹھ کر ایک رکعت وتر ادا کیا - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی دو رکعتیں ادا کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں پہلو پر لیٹ گئے حتیٰ کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر کی اطلاع کی (تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے)۔
691. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جو رات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر گزاری تھی، اُس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی فجر کے طلوع کے بعد وتر ادا کیے تھے، اس فجر کے بعد رات ہوتی ہے، دن نہیں
لا بعد طلوع الفجر الثاني الذي يكون بعد طلوعه نهار، مع الدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يركع ركعتي الفجر عند فراغه من الوتر، بل امسك بعد فراغه من الوتر حتى اضاء الفجر الثاني الذي يكون بعد إضاءة نهار ولا ليل لَا بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ الثَّانِي الَّذِي يَكُونُ بَعْدَ طُلُوعِهِ نَهَارٌ، مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْكَعْ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ عِنْدَ فَرَاغِهِ مِنَ الْوِتْرِ، بَلْ أَمْسَكَ بَعْدَ فَرَاغِهِ مِنَ الْوِتْرِ حَتَّى أَضَاءَ الْفَجْرُ الثَّانِي الَّذِي يَكُونُ بَعْدَ إِضَاءَةِ نَهَارٍ وَلَا لَيْلَ
سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی خالہ (سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں گیا۔ پھر حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور اس میں نماز پڑھنا شروع کر دی۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے رہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہوگیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میری پیشانی سے پکڑ کر کھینچا حتیٰ کہ مجھے اپنی دائیں طرف کھڑا کرلیا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رات کی نماز دو دو رکعت کر کے ادا کی، پھر جب پہلی فجر طلوع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر نو رکعات پڑھیں، ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھا۔ اور یہ نویں رکعت تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رُک گئے حتیٰ کہ فجر خوب روشن ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فجر کی دو سنّتیں ادا کیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم اپنے پہلو کے بل سوگئے، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے۔ آگے مکمّل حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ کتاب الکبیر میں بیان کیے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا بن جبیر کی اس روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی فجر کے طلوع ہونے کے بعد اور دوسری فجر کے طلوع سے پہلے وتر ادا کیے ہیں۔ اس طرح فجر کی دو اقسام ہیں۔ پہلی فجر رات کے وقت طلوع ہوتی ہے (ابھی رات کا کچھ حصّہ باقی ہوتا ہے) اور دوسری فجر وہ ہے جس کے طلوع ہونے کے بعد دن طلوع ہو جاتا ہے وہ مسئلہ جو میں نے اپنے اصحاب پر اعتراض کرنے والے بعض علماء کے رد میں املاء کرایا تھا کہ ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں ہے میں نے اس مسئلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی تین رکعات وتر کے متعلق روایات اور ان کی علتوں کو اس جگہ املاء کرا دیا تھا - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ قنوت وتر کے بارے میں مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کوئی حدیث یاد نہیں ہے۔ میں نے اس مسئلہ میں سیدنا ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی وتروں میں قنوت کے متعلق روایت کی علت اور اس کی اسا نید بیان کر دی ہیں۔ اور میں نے اسی جگہ بیان کر دیا ہے کہ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قنوت کا ذکر صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ تین رکعات وتر کے متعلق ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ثابت نہیں ہے۔ جبکہ برید بن ابی مریم کی روایت ابی حواراء کے واسطے سے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں وتروں میں پڑھنے کے لئے دعا سکھائی تھی۔
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند دعایئہ کلمات سیکھے ہیں جنہیں میں قنوت (وتر) میں پڑھتا ہوں۔ (امام صاحب ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں) سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند دعائیہ کلمات سکھائے جنہیں میں قنوت وتر میں پڑھتا ہوں۔ (وہ کلمات یہ ہیں) «الّٰھُمَّ اهْدِنِي فِي مَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِي مَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِي مَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَاِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ» ”اے اللہ، مجھے ان لوگوں میں ہدایت نصیب فرما جنہیں تُو نے ہدایت نصیب فرمائی ہے۔ اور مجھے ان لوگوں میں عافیت و سلامتی عنایت فرما جن کو تُو نے عافیت و سلامتی عنایت فرمائی ہے۔ اور مجھے ان لوگوں میں دوست بنالے جنہیں تُو نے اپنا دوست بنایا ہے۔ اور مجھے خیروبرکت عطا فرما اس میں جو تُو نے مجھے عطا کیا ہے، اور مجھے اس فیصلے کے شر سے بچالے جو تُو نے کیا ہے بلاشبہ تُو ہی فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاتا - اور بیشک جسے تُو دوست بنا لے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا۔ اے ہمارے رب، تُو بہت بابرکت اور بلند و بالا ذات ہے۔“ یہ وکیع کی روایت ہے۔ مگر یوسف نے بغیر واؤ کے «إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ» روایت کیا ہے اور ابن رافع فاء نے بغیر واؤ کے یہ جملہ «إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ» اور واؤ کے بغیر یہ جملہ «إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ» روایت کیا ہے۔ اسی حدیث کو امام شعبہ نے برید بن ابی مریم سے دعا کے قصّے میں روایت کیا ہے مگر قنوت اور وتر کا تذکرہ نہیں کیا۔
امام شعبہ برید بن ابی مریم سے اور وہ ابوحوارء سے روایت کر تے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون سی دعا یاد کی ہے؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا سکھایا کر تے تھے: «الّٰھُمَّ اهْدِنِي فِي مَنْ هَدَيْتَ» دعا کے بارے میں وکیع کی حدیث کی طرح بیان کیا، اور قنوت اور وتر کے بارے میں تذکرہ نہیں کیا (یعنی یہ نہیں کہا کہ یہ دعا ہم قنوت وتر میں پڑھتے تھے) اور امام شعبہ، یونس بن ابی اسحاق جیسے بیشمار راویوں سے حفظ میں پختہ اور مضبوط ہیں - جبکہ ابواسحاق کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نے یہ روایت برید سے سنی ہے یا اس سے تدلیس کی ہے - البتہ یہ ممکن ہے کہ جس طرح ہمارے بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ ہر وہ روایت جو یونس اپنے والدگرامی ابواسحاق کے مشائخ سے بیان کرتا ہے وہ روایت یونس نے اپنے والد ابو اسحاق کے ساتھ اس کے مشائخ سے سنی ہے اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت ثابت ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت وتر کا حُکم دیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں میں دعائے قنوت پڑھی ہے تو میرے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس حدیث کے ثابت ہونے کا مجھے علم نہیں ہے۔
وقد روى الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، وابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يقنت إلا" ان يدعو لقوم على قوم، فإذا اراد ان يدعو على قوم او يدعو لقوم، قنت حين يرفع راسه من الركعة الثانية من صلاة الفجر" . ثناه عمرو بن علي ، ومحمد بن يحيى ، قالا: حدثنا ابو داود ، نا إبراهيم بن سعد ، عن الزهري: وقد روى العلاء بن صالح شيخ من اهل الكوفة صلاته، عن زبيد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، انه ساله عن القنوت في الوتر، فقال: حدثنا البراء بن عازب، قال: سنة ماضية. ثناه محمد بن العلاء بن كريب، نا محمد بن بشر، نا العلاء بن صالح. وهذا الشيخ العلاء بن صالح وهم في هذه اللفظة في قوله: في الوتر، وإنما هو في الفجر لا في الوتر، فلعله انمحى من كتابه ما بين الفاء والجيم فصارت الفاء شبه الواو، والجيم ربما كانت صغيرة تشبه التاء فلعله لما راى اهل بلده يقنتون في الوتر، وعلماؤهم لا يقنتون في الفجر، توهم ان خبر البراء إنما هو من القنوت في الوتر. نا سلم بن جنادة، نا وكيع، عن سفيان، عن زبيد اليامي قال: سالت عبد الرحمن بن ابي ليلى عن القنوت في الفجر، فقال: سنة ماضية. فسفيان الثوري احفظ من مائتين مثل العلاء بن صالح، فخبر ان سؤال زبيد بن ابي ليلى إنما كان عن القنوت في الفجر لا في الوتر، فاعلمه انه سنة ماضية، ولم يذكر ايضا البراء. وقد روى الثوري، وشعبة، هما إماما اهل زمانهما في الحديث، عن عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن البراء: ان النبي قنت في الفجروَقَدْ رَوَى الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْنُتُ إِلا" أَنْ يَدْعُوَ لِقَوْمٍ عَلَى قَوْمٍ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ عَلَى قَوْمٍ أَوْ يَدْعُوَ لِقَوْمٍ، قَنَتَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ" . ثناهُ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ: وَقَدْ رَوَى الْعَلاءُ بْنُ صَالِحٍ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ صَلاتَهُ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنِ الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ، قَالَ: سُنَّةٌ مَاضِيَةٌ. ثناهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنُ كُرَيْبٍ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، نَا الْعَلاءُ بْنُ صَالِحٍ. وَهَذَا الشَّيْخُ الْعَلاءُ بْنُ صَالِحٍ وَهِمَ فِي هَذِهِ اللَّفْظَةِ فِي قَوْلِهِ: فِي الْوِتْرِ، وَإِنَّمَا هُوَ فِي الْفَجْرِ لا فِي الْوِتْرِ، فَلَعَلَّهُ انْمَحَى مِنْ كِتَابِهِ مَا بَيْنَ الْفَاءِ وَالْجِيمِ فَصَارَتِ الْفَاءُ شِبْهَ الْوَاوِ، وَالْجِيمُ رُبَّمَا كَانَتْ صَغِيرَةً تُشْبِهُ التَّاءَ فَلَعَلَّهُ لَمَّا رَأَى أَهْلَ بَلَدِهِ يَقْنُتُونَ فِي الْوِتْرِ، وَعُلَمَاؤُهُمْ لا يَقْنُتُونَ فِي الْفَجْرِ، تَوَهَّمَ أَنَّ خَبَرَ الْبَرَاءِ إِنَّمَا هُوَ مِنَ الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ. نَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، نَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ الْيَامِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى عَنِ الْقُنُوتِ فِي الْفَجْرِ، فَقَالَ: سُنَّةٌ مَاضِيَةٌ. فَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ أَحْفَظُ مِنْ مِائَتَيْنِ مِثْلِ الْعَلاءِ بْنِ صَالِحٍ، فَخُبِّرَ أَنَّ سُؤَالَ زُبَيْدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى إِنَّمَا كَانَ عَنِ الْقُنُوتِ فِي الْفَجْرِ لا فِي الْوِتْرِ، فَأَعْلَمَهُ أَنَّهُ سُنَّةٌ مَاضِيَةٌ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَيْضًا الْبَرَاءَ. وَقَدْ رَوَى الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ، هُمَا إِمَامَا أَهْلِ زَمَانِهِمَا فِي الْحَدِيثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْبَرَاءِ: أَنَّ النَّبِيَّ قَنَتَ فِي الْفَجْرِ
امام زہری نے حضرت سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمان کے واسطے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کے حق میں دعا یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنے کے علاوہ قنوت نہیں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کے حق میں دعا کرنا چاہتے یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنا چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی دوسری رکعت (کے رکوع) سے سر اٹھانے کے بعد قنوت کرتے۔ اہل کوفہ کے بزرگ علاء بن صالح نے زبید کے واسطے سے عبدالرحمان بن لیلیٰ کی سند سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق روایت بیان کی ہے۔ جناب زبید کہتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے قنوت وتر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ یہ جاری اور ثابت سنّت ہے۔ یہ بزرگ علاء بن صالح کو اس لفظ ”فی الوتر“(وتروں میں قنوت) میں وہم ہوا ہے۔ بیشک یہ لفظ ”فی الفجر“(نماز فجر میں قنوت) ہے۔ ”فی الوتر“(وتروں میں قنوت) نہیں ہے۔ شاید کہ ان کی کتاب سے فاء اور جیم کے درمیان حرف کچھ مٹ گیا ہو۔ اور فاء واؤ بن گئی ہو۔ اور جیم چھوٹی سی لکھی تھی تو وہ تا کے مشابہ ہوگئی، (اور لفظ فجر سے وتر بن گیا) اور یہ بھی ممکن کے کہ اُنہوں نے اپنے شہر والوں کو وتروں میں قنوت کرتے دیکھا ہو اور اُن کے علماء نماز فجر میں قنوت نہیں کرتے تھے تو انہیں یہ وہم ہو گیا ہو کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت قنوت وتر کے بارے میں ہے۔ (حالانکہ وہ قنوت فجر کے بارے میں ہے) امام سفیان ثوری رحمه الله نے زبید الیمامی سے روایت کی کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے نماز فجر میں قنوت کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ یہ جاری اور ثابت سنّت ہے۔ لہٰذا امام سفیان ثوری رحمه الله جو علاء بن صالح جیسے دو سو راویوں سے بڑھ کر حفظ و اتقان والے ہیں۔ اُنہوں نے یہ خبر دی ہے کہ زبید نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے نماز فجر میں قنوت کے بارے میں سوال کیا تھا، وتروں میں قنوت کے بارے میں نہیں کیا تھا۔ تو اُنہوں نے زبید کو بتایا کہ (نماز فجر میں قنوت) جاری اور ثابت سنّت ہے۔ اور اُنہوں نے اپنی روایت میں سیدنا براء رضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ امام سفیان ثوری اور امام شعبہ رحمه الله نے، جو اپنے وقت کے حدیث کے دو امام ہیں، اُنہوں نے عمرو بن مرہ کے واسطے سے عبد الرحمان بن ابی لیلیٰ سے اور وہ سیدنا براء رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت کیا ہے۔