صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
نمازِوتر اور اس میں سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
حدیث نمبر: 1075
Save to word اعراب
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری بٹھائی، پھر نیچے اُترے، تو دس رکعات ادا کیں اور ایک وتر پڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو رکعتیں ادا کیں پھر ایک رکعت وتر ادا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر دو رکعت (سنّتیں) ادا کیں، پھر ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ میں نے یہ مکمّل باب کتاب الکبیر میں بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
680. (447) بَابُ إِبَاحَةِ الْوِتْرِ بِخَمْسِ رَكَعَاتٍ، وَصِفَةِ الْجُلُوسِ فِي الْوِتْرِ إِذَا أَوْتَرَ بِخَمْسِ رَكَعَاتٍ، وَهَذَا مِنَ اخْتِلَافِ الْمُبَاحِ
680. پانچ رکعات وتر پڑھنا جائز ہے، جب (نمازی) پانچ رکعات وتر ادا کرے گا تو (تشہد میں) بیٹھنے کی کیفیت کا بیان اور یہ جائز اختلاف کی قسم سے ہے
حدیث نمبر: 1076
Save to word اعراب
نا بندار ، نا يحيى ، نا هشام بن عروة ، حدثني ابي ، عن عائشة . ح وحدثنا محمد بن العلاء بن كريب ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام، عن ابيه ، عن عائشة ، ان رسول الله" صلى الله عليه وسلم كان يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة كان يوتر بخمس سجدات يعني ركعات، لا يسلم فيهن، فيجلس في الآخرة، ثم يسلم" هذا حديث ابي اسامة وقال بندار: ويوتر منهن بخمس، ولا يسلم إلا في آخرهننَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى ، نَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ" صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً كَانَ يُوتِرُ بِخَمْسِ سَجَدَاتٍ يَعْنِي رَكَعَاتٍ، لا يُسَلِّمُ فِيهِنَّ، فَيَجْلِسُ فِي الآخِرَةِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ" هَذَا حَدِيثُ أَبِي أُسَامَةَ وَقَالَ بُنْدَارٌ: وَيُوتِرُ مِنْهُنَّ بِخَمْسٍ، وَلا يُسَلِّمُ إِلا فِي آخِرِهِنَّ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعات نماز پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعات وتر پڑھتے، ان کے درمیان میں سلام نہیں پھیرتے تھے، آخری رکعت میں (تشہد) کے لئے بیٹھتے، پھر سلام پھیرتے۔ یہ ابواسامہ کی حدیث ہے۔ جناب بندار کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے پانچ رکعات وتر ادا کرتے، اور آخری رکعت میں سلام پھیرتے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
681. (448) بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُفَسِّرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَجْلِسُ إِلَّا فِي الْخَامِسَةِ إِذَا أَوْتَرَ بِخَمْسٍ
681. اس حدیث کا بیان جو یہ تفسیر کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پانچ رکعات وتر ادا کرتے تو آپ صرف پانچویں رکعت میں (تشہد) بیٹھتے
حدیث نمبر: 1077
Save to word اعراب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت تیرہ رکعت نماز پڑھتے تھے، ان میں سے پانچ رکعات وتر پڑھتے، ان پانچوں رکعات میں صرف پانچویں رکعت میں (تشہد) کے لئے بیٹھتے۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
682. (449) بَابُ إِبَاحَةِ الْوِتْرِ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ أَوْ بِتِسْعٍ وَصِفَةِ الْجُلُوسِ إِذَا أَوْتَرَ بِسَبْعٍ أَوْ بِتِسْعٍ
682. سات اور نو رکعات وتر پڑھنا جائز ہے جب سات یا نو رکعات وتر پڑھے گا تو (تشہد کے لئے) بیٹھنے کی کیفیت کا بیان
حدیث نمبر: 1078
Save to word اعراب
نا بندار ، نا يحيى بن سعيد ، نا سعيد بن ابي عروبة ، ح وحدثنا بندار ، نا ابن ابي عدي ، عن سعيد ، ح وحدثنا هارون بن إسحاق ، حدثنا عبدة ، عن سعيد ، ح وحدثنا بندار ، نا معاذ بن هشام ، حدثني ابي جميعا، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام وهذا حديث يحيى بن سعيد انه طلق امراته فاتى المدينة ليبيع بها عقارا له بها، فيجعله في السلاح والكراع، ويجاهد الروم حتى يموت، فلقي رهطا من قومه فحدثوه ان رهطا من قومه ارادوا ذلك على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اليس لكم في اسوة"، ونهاهم عن ذلك فاشهد على مراجعة امراته، ثم رجع إلينا فاخبر انه لقي ابن عباس فساله عن الوتر، فقال: الا انبئك باعلم اهل الارض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: عائشة ايتها، فاسالها، ثم ارجع إلي فاخبرني بردها عليك، فاتيت على حكيم بن افلح فاستلحقته إليها، فقال: ما انا بقاربها إني نهيتها ان تقول في هاتين الشيعتين شيئا، فابت فيهما إلا مضيا، فاقسمت عليه، فجاء معي فدخل عليها، فقالت: احكيم؟ فعرفته، قال: نعم، او قال: بلى، قالت: من هذا معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، قال: فترحمت عليه، وقالت: نعم المرء كان عامر، فقلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" كنا نعد له سواكه، وطهوره فيبعثه الله لما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك، ويتوضا، ثم يصلي ثمان ركعات، لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة، فيجلس ويذكر الله ويدعو" زاد هارون في حديثه في هذا الموضع" ثم ينهض، ولا يسلم، ثم يصلي التاسعة، فيقعد فيحمد ربه ويصلي على نبيه صلى الله عليه وسلم، ثم يسلم تسليما فيسمعنا، ثم يصلي ركعتين وهو قاعد فتلك إحدى عشرة ركعة" يا بني. وقال بندار، وهارون جميعا:" فلما اسن واخذ اللحم، اوتر بسبع وصلى ركعتين وهو جالس بعدما يسلم، فتلك تسع ركعات" يا بني. قال لنا بندار في حديث ابن ابي عدي، عن سعيد، عن قتادة: ويسلم تسليمة يسمعنا. قال بندار: قلت ليحيى: إن الناس يقولون: تسليمة، فقال: هكذا حفظي عن سعيد، وكذا قال هارون في حديث عبدة، عن سعيد: ثم يسلم تسليما يسمعنا. كما قال يحيى، وقال عبد الصمد، عن هشام، عن قتادة في هذا الخبر: ثم يسلم تسليمة يسمعنانَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، نَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ سَعِيدٍ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي جَمِيعًا، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ وَهَذَا حَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَأَتَى الْمَدِينَةَ لِيَبِيعَ بِهَا عَقَارًا لَهُ بِهَا، فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلاحِ وَالْكُرَاعِ، وَيُجَاهِدُ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ أَرَادُوا ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ"، وَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ فَأَشْهَدَ عَلَى مُرَاجَعَةِ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْنَا فَأَخْبَرَ أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَلا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عَائِشَةُ ايْتِهَا، فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ، فَجَاءَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَحَكِيمٌ؟ فَعَرَفَتْهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَوْ قَالَ: بَلَى، قَالَتَ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٍ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ: فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" كُنَّا نَعُدُّ لَهُ سِوَاكَهُ، وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، لا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَدْعُو" زَادَ هَارُونُ فِي حَدِيثِهِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ" ثُمَّ يَنْهَضُ، وَلا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ، فَيَقْعُدُ فَيَحْمَدُ رَبَّهُ وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا فَيُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً" يَا بُنَيَّ. وَقَالَ بُنْدَارٌ، وَهَارُونُ جَمِيعًا:" فَلَمَّا أَسَنَّ وَأَخَذَ اللَّحْمَ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ" يَا بُنَيَّ. قَالَ لَنَا بُنْدَارٌ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ: وَيُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا. قَالَ بُنْدَارٌ: قُلْتُ لِيَحْيَى: إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ: تَسْلِيمَةً، فَقَالَ: هَكَذَا حِفْظِي عَنْ سَعِيدٍ، وَكَذَا قَالَ هَارُونُ فِي حَدِيثِ عَبْدَةَ، عَنْ سَعِيدٍ: ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا. كَمَا قَالَ يَحْيَى، وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ: ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا
حضرت سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ اُنہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر مدینہ منوّرہ تشریف لائے تاکہ مدینہ منوّرہ میں اپنی زمین اور باغ کو فروخت کر دیں، اس سے اسلحہ اور گھوڑے (سامان جنگ) خرید کر رومیوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہو جائیں حتیٰ کہ انہیں موت آجائے - تو وہ اپنی قوم کے ایک گروہ سے ملے تو اُنہوں نے آپ کو یہ بتایا کہ آپ کی قوم کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی یہی خواہش کی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: کیا تمہارے لئے میری ذات مبارک میں نمونہ موجود نہیں ہے؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ارادے سے منع کر دیا۔ چنانچہ حضرت سعد نے اپنی بیوی کے ساتھ رجوع کرنے پر (لوگوں کو) گواہ بنایا۔ پھر وہ ہمارے پاس تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملے تھے اور اُن سے وتر کے بارے میں پوچھا تھا۔ تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں اہل زمین میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انہوں نے کہا کہ جی ضرور بتائیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اُن کے پاس جاؤ اور اُن سے پوچھو۔ پھر واپس آکر مجھے اُن کا جواب بتانا۔ لہٰذا میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس آیا اور اُنہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا تو اُنہوں نے کہا، میں اُن کی خدمت میں نہیں جاؤں گا۔ میں نے اُن سے اُن دو جماعتوں (سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کے گروہوں) کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا مگر انہوں نے انکار کیا اور (ان کی صلح کے لئے) چلی گئیں۔ تو میں نے اُنہیں قسم دے کر (اپنے ساتھ جانے پر) راضی کیا۔ تو وہ میرے ساتھ چلے گئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پہنچے تو اُنہوں نے پوچھا کیا حکیم (آیا) ہے؟ اور اُنہوں نے پہچان لیا تھا - حضرت حکیم نے کہا کہ جی ہاں، یا کہا کہ کیوں نہیں (حکیم ہی آیا ہے) اُنہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا کہ یہ سعد بن ہشام ہے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ ہشام کون؟ جواب دیا کہ ہشام بن عامر تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (عامر کے لئے) دعائے رحمت کی اور فرمایا کہ عامر بہت اچھے آدمی تھے۔ میں نے کہا کہ اے اُم المؤمنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کی مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے۔ رات کو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھانا چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے، وضو کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات نماز پڑھتے، صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے، ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے، اور دعائیں مانگتے۔ اس جگہ ہارون نے اپنی روایت میں یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے اور سلام نہ پھیرتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نویں رکعت پڑھتے۔ پھر تشہد کے لئے بیٹھتے، اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے، نبی پر درود بھیجتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو ہمیں (اس کی آواز) سناتے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کر تے۔ اے میرے پیارے بیٹے، تو اس طرح یہ گیارہ رکعات ہوگئیں ـ جناب بندار اور ہارون دونوں نے یہ الفاظ بیان کئے ہیں پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک فربہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات رکعات وتر ادا کیے۔ اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعات ادا کیں۔ میرے پیارے بیٹے، تو یہ نو رکعات ہوگئیں۔ جناب بندار نے اپنی سند سے سیدنا قتادہ سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ اور آپ ایک سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے۔ جناب بندار کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ سے کہا کہ دیگر راوی تسليمته ایک سلام، روایت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سعید سے اسی طرح یاد کیا ہے۔ جناب ہارون نے بھی اپنی سند سے جناب سعید سے یہ الفاظ روایت کیے۔ پھر آپ سلام پھیرتے تو ہمیں سنادیتے۔ جیسا کہ جناب یحییٰ کی روایت میں ہے۔ اور عبدالصمد نے اپنی سند سے حضرت قتادہ سے اس روایت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ پھر آپ ایک سلام پھیرتے اور ہمیں سنا دیتے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1079
Save to word اعراب
كذلك حدثنا محمد بن يحيى ، نا عبد الصمد ، حدثنا هشام ، ح وحدثنا علي بن سهل الرملي ، نا مؤمل بن إسماعيل ، نا عمارة بن زادان ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يوتر بتسع ركعات، فلما اسن وثقل اوتر بسبع، وصلى ركعتين وهو جالس، يقرا فيهن بالرحمن، والواقعة" . قال انس: ونحن نقرا بالسور القصار إذا زلزلت، و قل يا ايها الكافرون، ونحوهماكَذَلِكَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، ح وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ ، نَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، نَا عُمَارَةُ بْنُ زَادَانٍ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُوتِرُ بِتِسْعِ رَكَعَاتٍ، فَلَمَّا أَسَنَّ وَثَقُلَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، يُقْرَأُ فِيهِنَّ بِالرَّحْمَنِ، وَالْوَاقِعَةِ" . قَالَ أَنَسٌ: وَنَحْنُ نَقْرَأُ بِالسُّوَرِ الْقِصَارِ إِذَا زُلْزِلَتِ، وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَنَحْوِهِمَا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعات وتر ادا کرتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف زیادہ ہوگئی اور جسم مبارک بھاری ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات رکعات وتر پڑھنے شروع کر دیے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات بیٹھ کر ادا کرتے، ان میں سوره الرحمٰن اور سوره الواقعه کی تلاوت کرتے۔ سیدنا انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اور ہم چھوٹی سورتیں جیسے «‏‏‏‏إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا» ‏‏‏‏ اور «‏‏‏‏قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» ‏‏‏‏ اور ان جیسی سورتیں پڑھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
683. (450) بَابُ إِبَاحَةِ الْوِتْرِ أَوَّلَ اللَّيْلِ إِنْ أَحَبَّ الْمُصَلِّي أَوْ وَسَطَهُ أَوْ آخِرَهُ، إِذِ اللَّيْلُ بَعْدَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ كُلُّهُ وَقْتُ الْوِتْرِ
683. اگر نمازی ابتدائی رات، درمیانی رات یا رات کے آخری پہر وتر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، کیونکہ عشاء کی نماز سے لیکر طلوع فجر تک ساری رات نماز وتر کا وقت ہے
حدیث نمبر: 1080
Save to word اعراب
سیدنا علی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصّے میں وتر پڑھے ہیں، ابتدائی رات میں بھی، درمیانی رات میں بھی اور رات کے آخری حصّے میں بھی ادا کیے ہیں۔

تخریج الحدیث: صحيح
حدیث نمبر: 1081
Save to word اعراب
نا بحر بن نصر ، نا عبد الله بن وهب ، قال: وحدثني معاوية بن صالح ، ان عبد الله بن ابي قيس حدثه، انه سال عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر، آخر الليل او اوله؟ قالت: كل ذلك قد كان يفعل، ربما " اوتر اول الليل وربما اوتر من آخره ، فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة"نَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَيْسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ، آخِرَ اللَّيْلِ أَوْ أَوَّلَهُ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، رُبَّمَا " أَوْتَرَ أَوَّلَ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِهِ ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الأَمْرِ سَعَةً"
سیدنا عبداللہ بن قیس بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کیسے ادا کرتے تھے، آخر رات یا رات کے شروع میں پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حصّے میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ کبھی رات کے شروع میں پڑھ لیتے، اور کبھی رات کے آخری حصّے میں ادا کر لیتے۔ تو میں نے کہا، سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اس معا ملہ میں وسعت و گنجائش رکھی ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح
684. (451) بَابُ الْأَمْرِ بِالْوِتْرِ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ بِذِكْرِ خَبَرٍ مُخْتَصَرٍ غَيْرِ مُتَقَصًّى وَمُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسَّرٍ
684. رات کے آخری حصّے میں وتر پڑھنے کا حُکم کا بیان، ایک مختصر غیر مفصل اور مجمل غیر مفسر حدیث کے ذکر کے ساتھ
حدیث نمبر: 1082
Save to word اعراب
نا بندار ، نا يحيى ، نا عبيد الله ، اخبرني نافع ، عن ابن عمر . ح وحدثنا الدورقي ، والحسن الزعفراني بن محمد ، قالا: حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا عبيد الله ، ح وحدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا حماد بن مسعدة ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا" نَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى ، نَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وَحَدَّثَنَا الدَّوْرَقِيُّ ، وَالْحَسَنُ الزَّعْفَرَانِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اجْعَلُوا آخِرَ صَلاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا"
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
685. (452) بَابُ ذِكْرِ الْوَصِيَّةِ بِالْوِتْرِ قَبْلَ النَّوْمِ بِلَفْظٍ مُجْمَلٍ غَيْرِ مُفَسَّرٍ،
685. ایک مجمل غیر مفسر روایت کے ساتھ سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی وصیت کا بیان
حدیث نمبر: Q1083
Save to word اعراب
قد يسبق علمي إلى وهم من لا يميز بين الخبر المختصر والخبر المتقصى، ولا يستدل بالمفسر من الاخبار على المجمل منها، ان امر النبي صلى الله عليه وسلم بان يجعل آخر صلاة الليل وترا يضاد امره ووصيته بالوتر قبل النوم قَدْ يَسْبِقُ عِلْمِي إِلَى وَهْمِ مَنْ لَا يُمَيِّزُ بَيْنَ الْخَبَرِ الْمُخْتَصَرِ وَالْخَبَرِ الْمُتَقَصَّى، وَلَا يُسْتَدَلُّ بِالْمُفَسَّرِ مِنَ الْأَخْبَارِ عَلَى الْمُجْمَلِ مِنْهَا، أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ يَجْعَلَ آخِرَ صَلَاةِ اللَّيْلِ وِتْرًا يُضَادُّ أَمْرَهُ وَوَصِيَّتَهُ بِالْوِتْرِ قَبْلَ النَّوْمِ

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1083
Save to word اعراب
نا علي بن حجر السعدي ، حدثنا إسماعيل يعني ابن جعفر ، نا محمد وهو ابن ابي حرملة ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي ذر ، قال:" اوصاني حبيبي بثلاث، لا ادعهن إن شاء الله ابدا، اوصاني بصلاة الضحى، وبالوتر قبل النوم، وبصوم ثلاثة ايام من كل شهر" قال ابو بكر: إخبار ابي هريرة:" اوصاني النبي صلى الله عليه وسلم بثلاث خرجتها في غير هذا الموضع"نَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، نَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ:" أَوْصَانِي حَبِيبِي بِثَلاثٍ، لا أَدَعُهُنَّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَبَدًا، أَوْصَانِي بِصَلاةِ الضُّحَى، وَبِالْوِتْرِ قَبْلَ النَّوْمِ، وَبِصَوْمِ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِخْبَارُ أَبِي هُرَيْرَةَ:" أَوْصَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلاثٍ خَرَّجْتُهَا فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ"
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین کاموں کی وصیت فرمائی تھی، میں انہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا، ان شاء اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چاشت کی نماز پڑھنے کی وصیت فرمائی، سونے سے پہلے وتر ادا کرنے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی وصیت فرمائی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی، میں اسے ایک دوسری جگہ بیان کر چکا ہوں۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.