نا بندار ، نا يحيى بن سعيد ، نا سعيد بن ابي عروبة ، ح وحدثنا بندار ، نا ابن ابي عدي ، عن سعيد ، ح وحدثنا هارون بن إسحاق ، حدثنا عبدة ، عن سعيد ، ح وحدثنا بندار ، نا معاذ بن هشام ، حدثني ابي جميعا، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام وهذا حديث يحيى بن سعيد انه طلق امراته فاتى المدينة ليبيع بها عقارا له بها، فيجعله في السلاح والكراع، ويجاهد الروم حتى يموت، فلقي رهطا من قومه فحدثوه ان رهطا من قومه ارادوا ذلك على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اليس لكم في اسوة"، ونهاهم عن ذلك فاشهد على مراجعة امراته، ثم رجع إلينا فاخبر انه لقي ابن عباس فساله عن الوتر، فقال: الا انبئك باعلم اهل الارض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: عائشة ايتها، فاسالها، ثم ارجع إلي فاخبرني بردها عليك، فاتيت على حكيم بن افلح فاستلحقته إليها، فقال: ما انا بقاربها إني نهيتها ان تقول في هاتين الشيعتين شيئا، فابت فيهما إلا مضيا، فاقسمت عليه، فجاء معي فدخل عليها، فقالت: احكيم؟ فعرفته، قال: نعم، او قال: بلى، قالت: من هذا معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، قال: فترحمت عليه، وقالت: نعم المرء كان عامر، فقلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" كنا نعد له سواكه، وطهوره فيبعثه الله لما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك، ويتوضا، ثم يصلي ثمان ركعات، لا يجلس فيهن إلا عند الثامنة، فيجلس ويذكر الله ويدعو" زاد هارون في حديثه في هذا الموضع" ثم ينهض، ولا يسلم، ثم يصلي التاسعة، فيقعد فيحمد ربه ويصلي على نبيه صلى الله عليه وسلم، ثم يسلم تسليما فيسمعنا، ثم يصلي ركعتين وهو قاعد فتلك إحدى عشرة ركعة" يا بني. وقال بندار، وهارون جميعا:" فلما اسن واخذ اللحم، اوتر بسبع وصلى ركعتين وهو جالس بعدما يسلم، فتلك تسع ركعات" يا بني. قال لنا بندار في حديث ابن ابي عدي، عن سعيد، عن قتادة: ويسلم تسليمة يسمعنا. قال بندار: قلت ليحيى: إن الناس يقولون: تسليمة، فقال: هكذا حفظي عن سعيد، وكذا قال هارون في حديث عبدة، عن سعيد: ثم يسلم تسليما يسمعنا. كما قال يحيى، وقال عبد الصمد، عن هشام، عن قتادة في هذا الخبر: ثم يسلم تسليمة يسمعنانَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، نَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ سَعِيدٍ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي جَمِيعًا، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ وَهَذَا حَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَأَتَى الْمَدِينَةَ لِيَبِيعَ بِهَا عَقَارًا لَهُ بِهَا، فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلاحِ وَالْكُرَاعِ، وَيُجَاهِدُ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ فَحَدَّثُوهُ أَنَّ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ أَرَادُوا ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ"، وَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ فَأَشْهَدَ عَلَى مُرَاجَعَةِ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْنَا فَأَخْبَرَ أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَلا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عَائِشَةُ ايْتِهَا، فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ، فَجَاءَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَحَكِيمٌ؟ فَعَرَفَتْهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَوْ قَالَ: بَلَى، قَالَتَ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٍ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ: فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" كُنَّا نَعُدُّ لَهُ سِوَاكَهُ، وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، لا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَدْعُو" زَادَ هَارُونُ فِي حَدِيثِهِ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ" ثُمَّ يَنْهَضُ، وَلا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ، فَيَقْعُدُ فَيَحْمَدُ رَبَّهُ وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا فَيُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً" يَا بُنَيَّ. وَقَالَ بُنْدَارٌ، وَهَارُونُ جَمِيعًا:" فَلَمَّا أَسَنَّ وَأَخَذَ اللَّحْمَ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ" يَا بُنَيَّ. قَالَ لَنَا بُنْدَارٌ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ: وَيُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا. قَالَ بُنْدَارٌ: قُلْتُ لِيَحْيَى: إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ: تَسْلِيمَةً، فَقَالَ: هَكَذَا حِفْظِي عَنْ سَعِيدٍ، وَكَذَا قَالَ هَارُونُ فِي حَدِيثِ عَبْدَةَ، عَنْ سَعِيدٍ: ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا. كَمَا قَالَ يَحْيَى، وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ: ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا
حضرت سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ اُنہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر مدینہ منوّرہ تشریف لائے تاکہ مدینہ منوّرہ میں اپنی زمین اور باغ کو فروخت کر دیں، اس سے اسلحہ اور گھوڑے (سامان جنگ) خرید کر رومیوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہو جائیں حتیٰ کہ انہیں موت آجائے - تو وہ اپنی قوم کے ایک گروہ سے ملے تو اُنہوں نے آپ کو یہ بتایا کہ آپ کی قوم کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی یہی خواہش کی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”کیا تمہارے لئے میری ذات مبارک میں نمونہ موجود نہیں ہے؟“ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس ارادے سے منع کر دیا۔ چنانچہ حضرت سعد نے اپنی بیوی کے ساتھ رجوع کرنے پر (لوگوں کو) گواہ بنایا۔ پھر وہ ہمارے پاس تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملے تھے اور اُن سے وتر کے بارے میں پوچھا تھا۔ تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں اہل زمین میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انہوں نے کہا کہ جی ضرور بتائیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اُن کے پاس جاؤ اور اُن سے پوچھو۔ پھر واپس آکر مجھے اُن کا جواب بتانا۔ لہٰذا میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس آیا اور اُنہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا تو اُنہوں نے کہا، میں اُن کی خدمت میں نہیں جاؤں گا۔ میں نے اُن سے اُن دو جماعتوں (سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کے گروہوں) کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا مگر انہوں نے انکار کیا اور (ان کی صلح کے لئے) چلی گئیں۔ تو میں نے اُنہیں قسم دے کر (اپنے ساتھ جانے پر) راضی کیا۔ تو وہ میرے ساتھ چلے گئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پہنچے تو اُنہوں نے پوچھا کیا حکیم (آیا) ہے؟ اور اُنہوں نے پہچان لیا تھا - حضرت حکیم نے کہا کہ جی ہاں، یا کہا کہ کیوں نہیں (حکیم ہی آیا ہے) اُنہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا کہ یہ سعد بن ہشام ہے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ ہشام کون؟ جواب دیا کہ ہشام بن عامر تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (عامر کے لئے) دعائے رحمت کی اور فرمایا کہ عامر بہت اچھے آدمی تھے۔ میں نے کہا کہ اے اُم المؤمنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کی مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے۔ رات کو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھانا چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے، وضو کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات نماز پڑھتے، صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے، ﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے، اور دعائیں مانگتے۔ اس جگہ ہارون نے اپنی روایت میں یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے اور سلام نہ پھیرتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نویں رکعت پڑھتے۔ پھر تشہد کے لئے بیٹھتے، اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے، نبی پر درود بھیجتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو ہمیں (اس کی آواز) سناتے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کر تے۔ اے میرے پیارے بیٹے، تو اس طرح یہ گیارہ رکعات ہوگئیں ـ جناب بندار اور ہارون دونوں نے یہ الفاظ بیان کئے ہیں پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک فربہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات رکعات وتر ادا کیے۔ اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعات ادا کیں۔ میرے پیارے بیٹے، تو یہ نو رکعات ہوگئیں۔ جناب بندار نے اپنی سند سے سیدنا قتادہ سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ اور آپ ایک سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے۔ جناب بندار کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ سے کہا کہ دیگر راوی ”تسليمته“ ایک سلام، روایت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سعید سے اسی طرح یاد کیا ہے۔ جناب ہارون نے بھی اپنی سند سے جناب سعید سے یہ الفاظ روایت کیے۔ پھر آپ سلام پھیرتے تو ہمیں سنادیتے۔ جیسا کہ جناب یحییٰ کی روایت میں ہے۔ اور عبدالصمد نے اپنی سند سے حضرت قتادہ سے اس روایت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ پھر آپ ایک سلام پھیرتے اور ہمیں سنا دیتے۔