638. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس نماز کا دہرانے کا حُکم دینا جس سے نمازی سو یا رہ گیا یا اسے بھول جانے کے بعد یاد آئی کہ وہ اسے کل اس کے وقت میں پڑھ لے
قبل نهي الله عز وجل عن الربا، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد زجر عن إعادة تلك الصلاة من الغد بعد امره كان بها، واعلم اصحابه ان الله عز وجل لا ينهى عن الربا ويقبل من عباده الربا، وصلاتان بصلاة واحدة كدرهم بدرهمين، وواحد ما شاء مما لا يجوز فيه التفاضلقَبْلَ نَهْيِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَنِ الرِّبَا، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَجَرَ عَنْ إِعَادَةِ تِلْكَ الصَّلَاةِ مِنَ الْغَدِ بَعْدَ أَمْرِهِ كَانَ بِهَا، وَأَعْلَمَ أَصْحَابَهُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنْهَى عَنِ الرِّبَا وَيَقْبَلُ مِنْ عِبَادِهِ الرِّبَا، وَصَلَاتَانِ بِصَلَاةٍ وَاحِدَةٍ كَدِرْهَمٍ بِدِرْهَمَيْنِ، وَوَاحَدَ مَا شَاءَ مِمَّا لَا يَجُوزُ فِيهِ التَّفَاضُلُ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کا سفر کیا، پھر جب رات کا آخری وقت ہوا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور ہم پر نیند غالب آگئی، پھر ہمیں سورج کی گرمی اور تپش نے ہی جگایا۔ چنانچہ ہرشخص پریشانی کے عالم میں وضو کے پانی کی طرف لپکا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حُکم دیا اور انہوں نے وضو کیا، پھر سیدنا بلال رضی اﷲ عنہ کو حُکم دیا تو انہوں نے اذان کہی، پھر انہوں نے فجر کی دو سنّت پڑہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حُکم دیا تو اس نے اقامت کہی، پھر انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے بڑی کوتاہی کی ہے، کیا ہم کل اس وقت میں اسے دوبارہ نہ پڑھ لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب تمہیں سود سے منع کرتا ہے۔“
سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خندق والے دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور قریش کے کافروں کو بُرا بھلا کہنے لگے، اور عرض کی کہ اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول، میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی حتیٰ کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم، میں نے بھی عصر کی نماز نہیں پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی بطحان میں اُترے اور وضو کیا، پھر سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی۔ تمام راویوں کی احادیث ہم معنی ہیں اور یہ الفاظ وکیع کی روایت کے ہیں۔
إذا قضيت في وقت صلاة الاخيرة منها والاكتفاء بكل صلاة منها بإقامة واحدة والدليل على ضد قول من زعم ان الصلوات إذا فات وقتها لم تصل جماعة وإنما تصلى فرادى إِذَا قُضِيَتْ فِي وَقْتِ صَلَاةِ الْأَخِيرَةِ مِنْهَا وَالِاكْتِفَاءِ بِكُلِّ صَلَاةٍ مِنْهَا بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ وَالدَّلِيلِ عَلَى ضِدِّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الصَّلَوَاتِ إِذَا فَاتَ وَقْتُهَا لَمْ تُصَلَّ جَمَاعَةً وَإِنَّمَا تُصَلَّى فُرَادَى
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خندق والے دن ہمیں (نمازوں کی ادائیگی سے روک دیا گیا حتیٰ کہ مغرب کے بعد کچھ وقت ہوگیا، اور یہ لڑائی کے متعلق کوئی وحی نازل ہونے سے پہلے ہوا۔ پھر جب ہم لڑائی سے بے نیاز کردیئے گئے اور یہ الله تعالی کے اس فرمان کے مطابق تھا «وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» [ سورة الأحزاب: 25 ]”اور اللہ مومنوں کو لڑائی میں کافی ہو گیا، اور اللہ بڑی قوت والا، نہایت غالب ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال کو حُکم دیا، اُنہوں نے ظہر کی اقامت کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اس کے وقت میں ادا کیا کرتے تھے، پھر عصر کی اقامت کہی تو اُسے ادا کیا جس طرح اُسے اُس کے وقت میں ادا کیا کرتے تھے، پھر اُنہوں نے مغرب کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب اُسی طرح ادا کی جیسے اُس کے وقت میں اسے ادا کرتے تھے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پھر اُنہوں نے نماز سے سوئے رہ جانے کی حدیث بیان کی اور فرمایا کہ پھر نماز کے لئے اذان ہوئی پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی حتیٰ کہ سورج طلوع ہوگیا۔
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا تو اُنہوں نے اذان کہی۔ (دیگر صحابہ نے وضو کیا، پھر اُنہوں نے دو رکعتیں ادا کیں، پھر صبح کی فرض نماز ادا کی۔ امام ابو بکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا تو اُنہوں نے اذان پڑھی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (دوران سفر) رات کے آخری پہر پڑاؤ ڈالا تو ہم سورج طلوع ہونے تک بیدار نہ ہو سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرشخص اپنی سواری کی نکیل پکڑلے (اور چل پڑے) بیشک ہماری اس منزل میں شیطان آگیا ہے۔“ لہٰذا ہم نے حُکم کی تعمیل کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا، پھر دو رکعتیں سنّت ادا کیں، پھر نماز کی اقامت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی “ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نبی کریم سے روایت میں یہ الفاظ ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کیں، پھر فجر کی نماز پڑھی۔ سیدنا عمران بن حسین رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اسی طرح ہے۔