إذا قضيت في وقت صلاة الاخيرة منها والاكتفاء بكل صلاة منها بإقامة واحدة والدليل على ضد قول من زعم ان الصلوات إذا فات وقتها لم تصل جماعة وإنما تصلى فرادى إِذَا قُضِيَتْ فِي وَقْتِ صَلَاةِ الْأَخِيرَةِ مِنْهَا وَالِاكْتِفَاءِ بِكُلِّ صَلَاةٍ مِنْهَا بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ وَالدَّلِيلِ عَلَى ضِدِّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ الصَّلَوَاتِ إِذَا فَاتَ وَقْتُهَا لَمْ تُصَلَّ جَمَاعَةً وَإِنَّمَا تُصَلَّى فُرَادَى
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ خندق والے دن ہمیں (نمازوں کی ادائیگی سے روک دیا گیا حتیٰ کہ مغرب کے بعد کچھ وقت ہوگیا، اور یہ لڑائی کے متعلق کوئی وحی نازل ہونے سے پہلے ہوا۔ پھر جب ہم لڑائی سے بے نیاز کردیئے گئے اور یہ الله تعالی کے اس فرمان کے مطابق تھا «وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» [ سورة الأحزاب: 25 ]”اور اللہ مومنوں کو لڑائی میں کافی ہو گیا، اور اللہ بڑی قوت والا، نہایت غالب ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال کو حُکم دیا، اُنہوں نے ظہر کی اقامت کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اس کے وقت میں ادا کیا کرتے تھے، پھر عصر کی اقامت کہی تو اُسے ادا کیا جس طرح اُسے اُس کے وقت میں ادا کیا کرتے تھے، پھر اُنہوں نے مغرب کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب اُسی طرح ادا کی جیسے اُس کے وقت میں اسے ادا کرتے تھے۔