صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
اذان اور اقامت کے ابواب کا مجموعہ
حدیث نمبر: 369
Save to word اعراب
نا محمد بن يحيى القطعي ، نا روح بن عطاء بن ابي ميمونة ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن انس بن مالك ، قال: كانت الصلاة إذا حضرت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم سعى رجل في الطريق فنادى:" الصلاة الصلاة الصلاة، فاشتد ذلك على الناس، فقالوا: يا رسول الله، لو اتخذنا ناقوسا؟ قال:" ذلك للنصارى" قال: فلو اتخذنا بوقا، قال:" ذلك لليهود"، قال: فامر بلال ان يشفع الاذان، ويوتر الإقامة" نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ ، نا رَوْحُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَتِ الصَّلاةُ إِذَا حَضَرَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعَى رَجُلٌ فِي الطَّرِيقِ فَنَادَى:" الصَّلاةُ الصَّلاةُ الصَّلاةُ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اتَّخَذْنَا نَاقُوسًا؟ قَالَ:" ذَلِكَ لِلنَّصَارَى" قَالَ: فَلَوِ اتَّخَذْنَا بُوقًا، قَالَ:" ذَلِكَ لِلْيَهُودِ"، قَالَ: فَأُمِرَ بِلالٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ، وَيُوتِرَ الإِقَامَةَ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب نماز کا وقت ہوجاتا تو ایک آدمی راستے میں چلتے ہوئے نماز، نماز، نماز پکارتا تو یہ چیز لوگوں پر گراں گزری تو اُنہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، اگر ہم گھنٹہ بجانا شروع کر دیں (تو بہتر ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو عیسائیوں کا شعار ہے۔ اُنہوں نے عرض کی کہ اگر ہم بگل بجانا شروع کر دیں (تو یہ بھی ٹھیک ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو یہودیوں کا شعار ہے۔ کہتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دوہرے اور تکبیر کے کلمات اکہرے کہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
272. ‏(‏39‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُفَسِّرِ لِلَّفْظَةِ الْمُجْمَلَةِ الَّتِي ذَكَرْتُهَا، وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ بأَنْ يُشْفَعَ بَعْضُ الْأَذَانِ لَا كُلُّهَا، وَأَنَّهُ إِنَّمَا أَمَرَ بِأَنْ يُوتَرَ بَعْضُ الْإِقَامَةِ لَا كُلُّهَا،
272. گذشتہ مجمل روایت کی مفسر روایت کا بیان اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض کلمات اذان کو دہرے کہنے کا حکم دیا ہے سارے کلمات نہیں
حدیث نمبر: Q370
Save to word اعراب
وان اللفظة التي في خبر انس إنما هي من اخبار الفاظ العام التي يراد بها الخاص، إذ الاذان وتر لا شفع؛ لان المؤذن إنما يقول: لا إله إلا الله، في آخر الاذان مرة واحدة. وكذلك المقيم يثني في الابتداء الله اكبر، فيقوله مرتين، وكذلك يقول: قد قامت الصلاة مرتين، ويقول ايضا: الله اكبر الله اكبر مرتينوَأَنَّ اللَّفْظَةَ الَّتِي فِي خَبَرِ أَنَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنْ أَخْبَارِ أَلْفَاظِ الْعَامِّ الَّتِي يُرَادُ بِهَا الْخَاصُّ، إِذِ الْأَذَانُ وِتْرٌ لَا شَفْعٌ؛ لِأَنَّ الْمُؤَذِّنَ إِنَّمَا يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فِي آخِرِ الْأَذَانِ مَرَّةً وَاحِدَةً. وَكَذَلِكَ الْمُقِيمُ يُثَنِّي فِي الِابْتِدَاءِ اللَّهُ أَكْبَرُ، فَيَقُولُهُ مَرَّتَيْنِ، وَكَذَلِكَ يَقُولُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ مَرَّتَيْنِ، وَيَقُولُ أَيْضًا: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ مَرَّتَيْنِ
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت کے بعض کلمات اکہرے کہنے کا حُکم دیا ہے ساری تکبیراکہری کہنے کا حُکم نہیں دیا، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکورہ الفاظ وہ ایسی روایت سے ہیں کہ اُن کے الفاظ عام ہوتے ہیں اور اُن کی مراد خاص ہوتی ہے۔ کیونکہ اذان اکہری ہے دوہری نہیں۔ کیونکہ مؤذّن آخر میں «‏‏‏‏لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» ‏‏‏‏ ایک ہی مرتبہ کہتا ہے اسی طرح تکبیر کہنے والا اقامت کی ابتدا میں «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ» ‏‏‏‏ دو مرتبہ کہتا ہے، اور اسی طرح «‏‏‏‏قد قامت الصلاة» ‏‏‏‏ دو مرتبہ کہتا ہے اور «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ» ‏‏‏‏ بھی دو مرتبہ کہتا ہے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 370
Save to word اعراب
قال محمد بن عيسى ، نا سلمة يعني ابن الفضل ، عن محمد بن إسحاق ، قال: وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدمها، إنما يجتمع الناس إليه للصلاة بحين مواقيتها بغير دعوة، فهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يجعل بوقا كبوق اليهود الذي يدعون به لصلواتهم، ثم كرهه، ثم امر بالناقوس، فنحت ليضرب به للمسلمين إلى الصلاة، فبينما هم على ذلك، اري عبد الله بن زيد بن عبد ربه، اخو الحارث بن الخزرج النداء، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له: يا رسول الله، إنه طاف بي هذه الليلة طائف مر بي رجل عليه ثوبان اخضران يحمل ناقوسا في يده، فقلت: يا عبد الله، اتبيع هذا الناقوس؟ فقال: وما تصنع به؟ قلت: ندعو به إلى الصلاة، فقال: الا ادلك على خير من ذلك؟ قلت: وما هو؟ قال: " تقول: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، ثم استاخر غير كثير، ثم قال: مثل ما قال: وجعلها وترا، إلا قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله"، فلما خبرتها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال فالقها عليه فإنه اندى صوتا منك ، فلما اذن بلال، سمع بها عمر بن الخطاب وهو في بيته، فخرج إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يجر رداءه، وهو يقول: يا نبي الله، والذي بعثك بالحق لقد رايت مثل ما راى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلله الحمد، فذاك اثبت"قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى ، نا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَهَا، إِنَّمَا يَجْتَمِعُ النَّاسُ إِلَيْهِ لِلصَّلاةِ بِحِينِ مَوَاقِيتِهَا بِغَيْرِ دَعْوَةٍ، فَهَمَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَجْعَلَ بُوقًا كَبُوقِ الْيَهُودِ الَّذِي يَدْعُونَ بِهِ لِصَلَوَاتِهِمْ، ثُمَّ كَرِهَهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِالنَّاقُوسِ، فَنُحِتَ لَيَضْرِبَ بِهِ لِلْمُسْلِمِينَ إِلَى الصَّلاةِ، فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ، أُرِيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، أَخُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ النِّدَاءَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ طَافَ بِي هَذِهِ اللَّيْلَةَ طَائِفٌ مَرَّ بِي رَجُلٌ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ هَذَا النَّاقُوسَ؟ فَقَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلاةِ، فَقَالَ: أَلا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: " تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ غَيْرَ كَثِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: مِثْلَ مَا قَالَ: وَجَعَلَهَا وِتْرًا، إِلا قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ"، فَلَمَّا خَبَّرْتُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلالٍ فَأَلْقِهَا عَلَيْهِ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ ، فَلَمَّا أَذَّنَ بِلالٌ، سَمِعَ بِهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلِلَّهِ الْحَمْدُ، فَذَاكَ أَثْبُتُ"
جناب محمد بن اسحاق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ بغیر اذان کے نماز کے اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوجاتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے بگل کی طرح کا بگل بنانے کا ارادہ کیا جس سے وہ اپنی نمازوں کے لیے بلاتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھنٹہ بنانے کا حُکم دیا تو وہ تراش دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو نماز کے لئے بلانے کے لیے بجایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اور آپ کے صحابہ کرام) اسی صلاح مشورے میں مصروف تھے کہ حارث بن خزرج کے بھائی عبداللہ بن زید بن عبدربہ کو (خواب میں) اذان دکھائی گئی۔ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آج رات میں نے ایک شخص کوخواب میں دیکھا، ایک آدمی میرے پاس سے گزرا، اُس پر دو سبز کپڑے تھے اور وہ ہاتھ میں گھنٹہ اُٹھائے ہوئے تھا۔ تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے بندے، کیا تم اس گھنٹے کو بیچو گے؟ اُس نے کہا کہ تم اس سے کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ ہم اس سے نماز کے لیے بلائیں گے۔ تو اُس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ میں نے کہا کہ وہ کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ تم کہا کرو: «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ‏‏‏‏ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے «‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ‏‏‏‏میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں گوہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں «‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه، أَشْهَدُ أَنْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰه» ‏‏‏‏ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں «‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» ‏‏‏‏ نماز کی طرف آؤ، نماز کی طرف آؤ «‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» ‏‏‏‏ آؤ کامیابی کی طرف، آؤ کامیابی کی طرف «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ» ‏‏‏‏ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے «‏‏‏‏لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ‏‏‏‏ ﷲ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں پھر وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا پھر اُس نے اسی طرح کہا کہ جیسے پہلے کہا تھا۔ اور اُس نے وہ کلمات اکہرے کہے سوائے قد قامت الصلاۃ کے، اُس نے (دو مرتبہ) « قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» ‏‏‏‏ نماز کھڑی ہوگئی، نماز قائم ہوگئی «‏‏‏‏اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ‏‏‏‏ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، ﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جب میں نے اس کی خبر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاء اللہ یہ خواب سچا ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اُسے یہ کلمات بتاؤ کیونکہ وہ تم سے بلند آواز والا ہے۔ پھر جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان کلمات کے ساتھ اذان دی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے سنا جبکہ وہ اپنے گھر میں تھے۔ تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے نبی، اس ذات باری کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دیکر بھیجا ہے، یقیناًً ً میں نے بھی ایسا ہی (خواب) دیکھا ہے جیسا اُس نے دیکھا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس (گواہی نے) مسئلے کو زیادہ مضبوط اور واضح کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن صحيح
حدیث نمبر: 371
Save to word اعراب
سیدناعبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول للہ صلے اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بنانے کا حُکم دیا تو وہ بنادیا گیا تاکہ لوگوں کو نماز کے لئے جمع کرنے کے لئے بجایا جائے، پھر سلمہ بن فضل کی حدیث کی طرح مکمل حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن صحيح
حدیث نمبر: 372
Save to word اعراب
قال: سمعت محمد بن يحيى، يقول: ليس في اخبار عبد الله بن زيد في قصة الاذان خبر اصح من هذا، لان محمد بن عبد الله بن زيد سمعه من ابيه، وعبد الرحمن بن ابي ليلى لم يسمعه من عبد الله بن زيدقَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى، يَقُولُ: لَيْسَ فِي أَخْبَارِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ فِي قِصَّةِ الأَذَانِ خَبَرٌ أَصَحُّ مِنْ هَذَا، لأَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ سَمِعَهُ مِنْ أَبِيهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ
جناب محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدﷲ بن زید کے قِصّہ اذان کی روایات میں اس سے زیادہ صحیح روایت اور کوئی نہیں کیونکہ محمد بن عبدﷲ بن زید نے اسے اپنے والد محترم (سیدنا عبداللہ بن زید) سے سنا ہے۔ اور عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ نے سیدنا عبداللہ بن زید سے اس روایت کو نہیں سنا۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 373
Save to word اعراب
نا محمد بن علي في عقب حديثه، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، نا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: فذكر محمد بن مسلم بن عبد الله بن شهاب الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن عبد الله بن زيد بن عبد ربه بهذا الخبر، قال: فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذه لرؤيا حق إن شاء الله، ثم امر بالتاذين، فكان بلال مولى ابي بكر يؤذن بذلك" نا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ فِي عَقِبِ حَدِيثِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، نا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: فَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنَّ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِالتَّأْذِينِ، فَكَانَ بِلالٌ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ يُؤَذِّنُ بِذَلِكَ"
سیدنا عبداﷲ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: یہ خواب سچا ہے ان شاﺀ اﷲ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کا حُکم دیا، لہٰذا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ان کلمات کے ساتھ اذان دیتے تھے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 374
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، نا محمد بن جعفر ، نا شعبة ، قال: سمعت ابا جعفر ، يحدث، عن مسلم بن المثنى ، عن ابن عمر ، قال:" إنما كان الاذان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مرتين والإقامة مرة، غير انه كان يقول: قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، فإذا سمعنا ذلك توضانا ثم خرجنا" . قال محمد: قال شعبة: لم اسمع من ابي جعفر غير هذا الحديث. نا بندار ، نا يحيى ، عن شعبة ، عن ابي جعفر ، عن مسلم بن المثنى ، عن ابن عمر ، مثلهحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ، يُحَدِّثُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْمُثَنَّى ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" إِنَّمَا كَانَ الأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتَيْنِ وَالإِقَامَةُ مَرَّةً، غَيْرُ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، فَإِذَا سَمِعْنَا ذَلِكَ تَوَضَّأْنَا ثُمَّ خَرَجْنَا" . قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ أَبِي جَعْفَرٍ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. نا بُنْدَارٌ ، نا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْمُثَنَّى ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، مِثْلَهُ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اذان دو دو مرتبہ اور اقامت ایک مرتبہ تھی۔ سوائے اس کے کہ وہ (مؤذن) « قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» ‏‏‏‏ ​دو مرتبہ کہتا تھا، تو جب ہم یہ کلمات سنتے تو وضو کرکے نکل پڑتے۔ محمد کہتے ہیں کہ شعبہ نے کہا، میں نے ابوجعفر سے اس حدیث کے سوا کوئی حدیث نہیں سنی۔ امام ابوبکر بندار کی سند سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
273. ‏(‏40‏)‏ بَابُ تَثْنِيَةِ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ فِي الْإِقَامَةِ
273. اقامت میں ”قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ“ دو مرتبہ کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: Q375
Save to word اعراب
ضد قول بعض من لا يفهم العلم ولا يميز بين ما يكون لفظه عاما مراده خاص، وبين ما لفظه عام مراده عام، فتوهم بجهله ان قوله: ويوتر الإقامة كل الإقامة لا بعضها من اولها إلى آخرها، يعني الحسن بن الفضلضِدَّ قَوْلِ بَعْضِ مَنْ لَا يَفْهَمُ الْعِلْمَ وَلَا يُمَيِّزُ بَيْنَ مَا يَكُونُ لَفْظُهُ عَامًّا مُرَادُهُ خَاصٌّ، وَبَيْنَ مَا لَفْظُهُ عَامٌّ مُرَادُهُ عَامٌّ، فَتَوَهَّمَ بِجَهْلِهِ أَنَّ قَوْلَهُ: وَيُوتِرُ الْإِقَامَةَ كُلَّ الْإِقَامَةِ لَا بَعْضَهَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا، يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ الْفَضْلِ
اس شخص کے قول کےبرعکس جوعلمی بصیرت سے بے بہرہ ہے اور ایسی روایت کے مابین تمیز سے محروم ہے جس کے الفاظ عام اور اس کی مراد خاص ہو اور جس کے لفظ عام ہوں اور اس کی مراد بھی عام ہو، لہٰذا وہ اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور اقامت اکہری کہنے سے ساری اقامت اکہری مراد ہے اس کے بعض کلمات نہیں، بلکہ شروع سے لیکر آخر تک اکہری ہے۔ مذکور شخص سے مراد الحسن بن الفضل ہے۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 375
Save to word اعراب
نا نا محمد بن رافع ، نا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن انس ، قال:" كان بلال يثني الاذان ويوتر الإقامة، إلا قوله: قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة" . قال ابو بكر: وخبر ابن المثنى، عن ابن عمر من هذا البابنا نا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ:" كَانَ بِلالٌ يُثَنِّي الأَذَانَ وَيُوتِرُ الإِقَامَةَ، إِلا قَوْلَهُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَخَبَرُ ابْنِ الْمُثَنَّى، عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ هَذَا الْبَابِ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان دوہری اور اقامت اکہری کہتے تھے، سوائے « قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» ‏‏‏‏ کے (یہ دوبار کہتے تھے) امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن مثنی کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت اسی باب کے متعلق ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 376
Save to word اعراب
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کواذان کے کلمات دوہرے اور تکبیر کے کلمات اکہرے کہنے کا حُکم دیاگیا تھا سوائے اقامت کے یعنی «‏‏‏‏قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» ‏‏‏‏ کے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.