ضد قول بعض من لا يفهم العلم ولا يميز بين ما يكون لفظه عاما مراده خاص، وبين ما لفظه عام مراده عام، فتوهم بجهله ان قوله: ويوتر الإقامة كل الإقامة لا بعضها من اولها إلى آخرها، يعني الحسن بن الفضلضِدَّ قَوْلِ بَعْضِ مَنْ لَا يَفْهَمُ الْعِلْمَ وَلَا يُمَيِّزُ بَيْنَ مَا يَكُونُ لَفْظُهُ عَامًّا مُرَادُهُ خَاصٌّ، وَبَيْنَ مَا لَفْظُهُ عَامٌّ مُرَادُهُ عَامٌّ، فَتَوَهَّمَ بِجَهْلِهِ أَنَّ قَوْلَهُ: وَيُوتِرُ الْإِقَامَةَ كُلَّ الْإِقَامَةِ لَا بَعْضَهَا مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا، يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ الْفَضْلِ
اس شخص کے قول کےبرعکس جوعلمی بصیرت سے بے بہرہ ہے اور ایسی روایت کے مابین تمیز سے محروم ہے جس کے الفاظ عام اور اس کی مراد خاص ہو اور جس کے لفظ عام ہوں اور اس کی مراد بھی عام ہو، لہٰذا وہ اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور اقامت اکہری کہنے سے ساری اقامت اکہری مراد ہے اس کے بعض کلمات نہیں، بلکہ شروع سے لیکر آخر تک اکہری ہے۔ مذکور شخص سے مراد الحسن بن الفضل ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان دوہری اور اقامت اکہری کہتے تھے، سوائے « قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ» کے (یہ دوبار کہتے تھے) امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن مثنی کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت اسی باب کے متعلق ہے۔