سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑے کو لگ جانے والے حیض کے خون کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اسے کھرچ دے، پھراسے پانی سے ملو پھر اسے چھینٹے مار لو۔“ یہ حماد کی حدیث ہے۔ ابن عیینہ کی روایت میں ہے۔ «ثُمَّ رُشِّيَ وَصَلِّي فِيْهِ» ”پھر اسے پانی سے چھینٹے مار اور اس میں نماز پڑھ لے۔“ یحییٰ کی روایت میں ہے: «ثُمَّ تَنْضَحِيْهِ وَ تُصَلِّيْ فِيْهِ» ”پھر اسے دھو کر اس میں نماز پڑھ لے۔“ باقی راویوں نے چھینٹے مارنے اور دھونے کا ذکر نہیں کیا۔ اُنہوں نے صرف کُھرچنے، پانی سے ملنے اور پھر اُس کپڑے میں نماز پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ وکیع کی حدیث میں ہے: «وُحُتِّيْهِ ثُمَّ اقْرُصِيْهِ بِالْمَاءِ» ”اور اسے کُھرچ لو پھر اسے پانی سے مل لو“ اس سے زیادہ الفاظ بیان نہیں کیے۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ایک عورت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے سنا، اُس نے کہا کہ جب ہم سے کوئی عورت (حیض سے) پاک ہو جائے تو وہ اُن کپڑوں کا کیا کرے، جو وہ (حیض کے دنوں میں) پہنا کرتی تھی؟ َ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس میں کوئی چیز (خون) دیکھے تو اُسے کھرچ لینا چاہیے پھر اُسے تھوڑے سے پانی کے ساتھ مل لینا چاہیے اور سارے کپڑے کو چھینٹے مار کر اس میں نماز پڑھ لے۔“ امام صاحب اپنے استاد یحییٰ بن حکیم سے اور ابن عدی سے اور وہ محد بن اسحاق سے مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کرتے ہیں۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تُو اُس میں خون دیکھے تواُسے پانی کے ساتھ کُھرچ لو، پھر سارے کپڑے پر چھینٹے مارو، پھر اُس میں نماز پڑھ لو۔“
إذ هو احرى ان يذهب اثره من الثوب إذا حك بالضلع، وغسل بالسدر مع الماء، من ان يغسل بالماء بحتا.إِذْ هُوَ أَحْرَى أَنْ يَذْهَبَ أَثَرُهُ مِنَ الثَّوْبِ إِذَا حُكَّ بِالضِّلَعِ، وَغُسِلَ بِالسِّدْرِ مَعَ الْمَاءِ، مِنْ أَنْ يُغْسَلَ بِالْمَاءِ بَحْتًا.
کیونکہ صرف پانی سے دھونے کی بجائے جب اسے لکڑی سے کھرچا جائے اور پانی اور بیری سے دھویا جائے تو یہ خون کے اثر کو مٹانے میں زیادہ مؤثر اور کارگر ہے۔
سیدہ اُم قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑے کو لگنے والے حیض کے خون کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُسے پانی اور بیری (کے پتّوں) سے دھولو اور اُسے لکڑی سے کُھرچ ڈالو۔“
وإن لم يحك موضع الدم بضلع، ولا قرص موضعه بالاظفار، وإن لم يغسل بسدر ايضا، ولا رش ما لم يصب الدم من الثوب، وان جميع ما امر به من قرص بالاظفار، وحك بالاضلاع، وغسل بالسدر، امر اختيار واستحباب، وان غسل الدم من الثوب مطهر للثوب وتجزئ الصلاة فيهوَإِنْ لَمْ يُحَكَّ مَوْضِعُ الدَّمِ بِضِلَعٍ، وَلَا قُرِصَ مَوْضِعُهُ بِالْأَظْفَارِ، وَإِنْ لَمْ يُغْسَلْ بِسِدْرٍ أَيْضًا، وَلَا رُشَّ مَا لَمْ يُصِبِ الدَّمُ مِنَ الثَّوْبِ، وَأَنَّ جَمِيعَ مَا أُمِرَ بِهِ مِنْ قَرْصٍ بِالْأَظْفَارِ، وَحَكٍّ بِالْأَضْلَاعِ، وَغَسْلٍ بِالسِّدْرِ، أَمْرُ اخْتِيَارٍ وَاسْتِحْبَابٍ، وَأَنَّ غَسْلَ الدَّمِ مِنَ الثَّوْبِ مُطَهِّرٌ لِلثَّوْبِ وَتُجْزِئُ الصَّلَاةُ فِيهِ
اگرچہ خون کی جگہ کو لکڑی سے نہ کُھرچا جائے، نہ اس جگہ کو ناخنوں سے مل جائے، اور نہ اُسے بیری سے دھویا جائے، اور جس حصّے کو خون نہیں لگا اگرچہ اسے پانی کے چھینٹے بھی نہ مارے جائیں۔ اور ناخنوں سے ملنے، لکڑی سے کُھرچنے اور بیری سے دھونے کا حُکم اختیاری اور مستحب ہے۔ اور بلاشبہ کپڑے سے خون دھو دینے سے کپڑے پاک و صاف ہو جاتے ہیں اور اس میں نماز پڑھنا کافی ہے۔
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُنہوں نے فرمایا یا اُن سے کہا گیا کہ تم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک میں حائضہ ہو جاتی تھیں تو تم اپنے کپڑوں کو کیسے (صاف) کرتی تھیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم اپنے کپڑوں اور قمیضوں میں حائضہ ہو جاتی تھیں تو ہم اُن میں سے صرف اتنا حصّہ دھوتی تھیں جسے خون لگتا تھا۔ اور بیشک آج تو تمہارے خادموں میں سے ایک خادم اُس کے پاک ہونے کے دن اُس کے کپڑے دھونے کے لیے فارغ ہو جاتا ہے۔
حضرت قاسم بن محمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اُس شخص کے متعلق پوچھا جو اپنی بیوی کے پاس آتا ہے (اُس سے ہمبستری کرتا ہے) پھر اپنے کپڑے پہنتا ہے تو اُسے اُس میں پسینہ آجاتا ہے، کیا ناپاک ہوجاتے ہیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ عورت پُرانےکپڑے کا ٹکڑا یا ٹکڑے رکھا کرتی تھی پھر جب یہ ہوتا (یعنی مرد ہم بستری کرتا) تو مرد اس ٹکڑے سے گندگی صاف کر لیتا اور وہ نہیں سمجھتا تھا کہ (پسینے سے) اس کے کپڑے ناپاک ہو جائیں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عورت پُرانے کپڑے کا ٹکڑا رکھ لے، پھر جب اُس کا خاوند (جماع سے) فارغ ہو جائے تو وہ اٗسے دے دے، وہ اپنے جسم سے گندگی صاف کرلے اور وہ عورت بھی اپنے جسم سے صاف کر لے پھر وہ دونوں (غسل کرنے کے بعد) انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمّ فلاں (اُمّ سلیم) کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چمڑے کا بستر بچھا دیتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس پر قیلُولہ کرتے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے پسینہ نکلتا) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کو محفوظ کر لیتیں اور اُسے اپنی خُوشبو میں ملا کر استعمال کرتیں۔ امام صاحب اپنے استاد محمد بن ولید کی سند سے اسی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔ اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔
حضرت لبابہ بنت حارث بیان کرتی ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کردیا تو میں نے کہا کہ اپنا کپڑا دیجیے (لائیے) میں اسے دھو دوں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچّی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور بچّے کے پیشاب پر پانی کے چھنیٹے مارے جاتے ہیں۔“