وإن لم يحك موضع الدم بضلع، ولا قرص موضعه بالاظفار، وإن لم يغسل بسدر ايضا، ولا رش ما لم يصب الدم من الثوب، وان جميع ما امر به من قرص بالاظفار، وحك بالاضلاع، وغسل بالسدر، امر اختيار واستحباب، وان غسل الدم من الثوب مطهر للثوب وتجزئ الصلاة فيهوَإِنْ لَمْ يُحَكَّ مَوْضِعُ الدَّمِ بِضِلَعٍ، وَلَا قُرِصَ مَوْضِعُهُ بِالْأَظْفَارِ، وَإِنْ لَمْ يُغْسَلْ بِسِدْرٍ أَيْضًا، وَلَا رُشَّ مَا لَمْ يُصِبِ الدَّمُ مِنَ الثَّوْبِ، وَأَنَّ جَمِيعَ مَا أُمِرَ بِهِ مِنْ قَرْصٍ بِالْأَظْفَارِ، وَحَكٍّ بِالْأَضْلَاعِ، وَغَسْلٍ بِالسِّدْرِ، أَمْرُ اخْتِيَارٍ وَاسْتِحْبَابٍ، وَأَنَّ غَسْلَ الدَّمِ مِنَ الثَّوْبِ مُطَهِّرٌ لِلثَّوْبِ وَتُجْزِئُ الصَّلَاةُ فِيهِ
اگرچہ خون کی جگہ کو لکڑی سے نہ کُھرچا جائے، نہ اس جگہ کو ناخنوں سے مل جائے، اور نہ اُسے بیری سے دھویا جائے، اور جس حصّے کو خون نہیں لگا اگرچہ اسے پانی کے چھینٹے بھی نہ مارے جائیں۔ اور ناخنوں سے ملنے، لکڑی سے کُھرچنے اور بیری سے دھونے کا حُکم اختیاری اور مستحب ہے۔ اور بلاشبہ کپڑے سے خون دھو دینے سے کپڑے پاک و صاف ہو جاتے ہیں اور اس میں نماز پڑھنا کافی ہے۔
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُنہوں نے فرمایا یا اُن سے کہا گیا کہ تم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک میں حائضہ ہو جاتی تھیں تو تم اپنے کپڑوں کو کیسے (صاف) کرتی تھیں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم اپنے کپڑوں اور قمیضوں میں حائضہ ہو جاتی تھیں تو ہم اُن میں سے صرف اتنا حصّہ دھوتی تھیں جسے خون لگتا تھا۔ اور بیشک آج تو تمہارے خادموں میں سے ایک خادم اُس کے پاک ہونے کے دن اُس کے کپڑے دھونے کے لیے فارغ ہو جاتا ہے۔