نا محمد بن يحيى ، ومحمد بن رافع ، قال محمد بن يحيى: سمعت عبد الرزاق ، وقال ابن رافع: نا عبد الرزاق، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله تعالى عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه: " صبوا علي من سبع قرب لم تحلل اوكيتهن لعلي استريح، فاعهد إلى الناس" . قالت عائشة: فاجلسناه في مخضب لحفصة من نحاس، وسكبنا عليه الماء منهن، حتى طفق يشير إلينا ان قد فعلتن، ثم خرج. حدثنا به محمد بن يحيى مرة، نا عبد الرزاق مرة، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة بمثله، غير انه لم يقل من نحاس، ولم يقل ثم خرجنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّزَّاقِ ، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: " صُبُّوا عَلَيَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِيَتُهُنَّ لَعَلِّي أَسْتَرِيحُ، فَأَعْهَدُ إِلَى النَّاسِ" . قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَجْلَسْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ مِنْ نُحَاسٍ، وَسَكَبْنَا عَلَيْهِ الْمَاءَ مِنْهُنَّ، حَتَّى طَفِقَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ، ثُمَّ خَرَجَ. حَدَّثَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى مَرَّةً، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ مَرَّةً، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ، غَيْرُ أَنَّهُ لَمْ يَقُلْ مِنْ نُحَاسٍ، وَلَمْ يَقُلْ ثُمَّ خَرَجَ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے”مجھ پر سات مشکیزوں کا پانی ڈالو جن کے بندھن (ڈوری، تحسہ) نہ کھولے گئے ہوں شاید کہ میں سکون پاؤں تو لوگوں کو وصیت کروں۔ “ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پیتل کے ٹب میں بٹھایا اور اُن کے مشکیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی ڈالا، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف اشارہ کرنے لگے کہ تم نے (حُکم) کی تعمیل کر دی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے۔ امام صاحب ایک اور سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسی ہی روایت بیان کرتے ہیں مگر اس میں یہ الفاظ بیان نہیں کیے «من نحاس» ”پیتل کا ٹب“ اور «ثم خرج» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے۔
ضد قول بعض المتصوفة الذي يتوهم ان اتخاذ اواني الزجاج من الإسراف؛ إذ الخزف اصلب وابقى من الزجاج.ضِدُّ قَوْلِ بَعْضِ الْمُتَصَوِّفَةِ الَّذِي يَتَوَهَّمُ أَنَّ اتِّخَاذَ أَوَانِي الزُّجَاجِ مِنَ الْإِسْرَافِ؛ إِذِ الْخَزَفُ أَصْلَبُ وَأَبْقَى مِنَ الزُّجَاجِ.
اس صوفی کے قول کے برعکس جو خیال کرتا ہے کہ شیشے کے برتن استعال کرنا اسراف ہے کیونکہ مٹّی کے برتن شیشے کے برتن سے زیادہ مضبوط اور دیرپا ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے لیے پانی منگوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایا گیا، روای کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے فرمایا تھا کہ شیشے کا پیالہ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی اُنگلیاں اُس میں رکھیں (تو پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُنگلیوں سےچشمے کی طرح پھوٹنے لگا) چنانچہ لوگوں نے باری باری وضو کرنا شروع کردیا، میں نے ان کا اندازہ لگایا تو وہ تقریبا ستّر اور اسّی کے درمیان تھے۔ میں پانی کو دیکھنے لگا گویا کہ وہ آپ کی اُنگیوں کے درمیان سے اُبل رہا ہے۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو حماد بن زید سےکئی راویوں نےبیان کیا ہےکہ اور اُنہوں نے «رحراح» ”کشادہ برتن“ کا لفظ «الزجاج» ”شیشے کے برتن“ کی جگہ بغیرکسی شک وشبہ کے بیان کیا ہے۔ اما م صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں محمد بن یحییٰ نے ابو نعمان سے اور اُنہوں نے حماس سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ سلیمان بن حارث کی روایت میں ہے: «اُتِیَ بِقَدحِ زُجَاجِ» ”آپ کے پاس شیشے کا پیالہ لایا گیا۔“ اور ابو نعمان کی روایت میں ہے کہ ”شیشے کا برتن لایا گیا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ «رحراح» شیشے کے کھلے برتن کو کہتے ہیں، گہرے کو «رحراح» نہیں کہتے۔
سیدنا جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو حُدیبیہ والے دن پیاس لگی جبکہ پانی نہیں تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چمڑے کا ایک چھوٹا ڈول رکھا ہوا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر رہے تھے اچانک لوگ پریشان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض گزار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کیا ہوا ہے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ ہمارے پاس وضو کرنے اور پینے کے لیے پانی نہیں ہے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اُس ڈول میں رکھے اور اللہ تعالی کی مشیت کے مطابق دعا کی، لہذا پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُنگلیوں کے درمیان سے چشموں کی مانند اُبلنے لگا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے (خوب سیر ہو کر پانی) پیا اور وضو کیا۔ حضرت سالم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ آپ کتنے افراد تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم پندرہ سو تھے اور اگر ایک لاکھ افراد بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہوتا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چمڑے کے بڑے اور موٹے۔ دل کا چھوٹا برتن لایا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا۔ (جناب عمرو بن عامر کہتے ہیں) میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے وقت وضو کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں، میں نے پوچھا کہ تم لوگ؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم ایک وضو سے کئی نماز پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاک میں رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کیسے نماز پڑھتے ہیں۔ لہذا (رات کو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا، پھر اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کچھ دیر آرام کرنے کے بعد) اُٹھے اور مشکیزے کی رسی کھولی، اور بڑے پیالے یا ٹب میں پانی اُنڈیلا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو وضوں کے درمیان وضو کیا (نہ بہت اعلیٰ نہ بہت ہلکا) اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی، تو میں اُٹھا اور میں نے بھی وضو کیا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب آکر (کھڑا ہوگیا) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھے (کان سے) پکڑ کراپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا۔
حدثنا ابو يونس الواسطي ، حدثنا خالد يعني ابن عبد الله ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بتغطية الوضوء، وإيكاء السقاء، وإكفاء الإناء" . قال ابو بكر: قد اوقع النبي صلى الله عليه وسلم اسم الوضوء على الماء الذي يتوضا به، وهذا من الجنس الذي اعلمت في غير موضع من كتبنا ان العرب توقع الاسم على الشيء في الابتداء على ما يؤول إليه الامر في المتعقب، إذ الماء قبل ان يتوضا به إنما وقع عليه اسم الوضوء، لانه يؤول إلى ان يتوضا بهحَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَغْطِيَةِ الْوَضُوءِ، وَإِيكَاءِ السِّقَاءِ، وَإِكْفَاءِ الإِنَاءِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ أَوْقَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْمَ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي يَتَوَضَّأُ بِهِ، وَهَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ الْعَرَبَ تُوقِعُ الاسْمَ عَلَى الشَّيْءِ فِي الابْتِدَاءِ عَلَى مَا يَؤُولُ إِلَيْهِ الأَمْرُ فِي الْمُتَعَقَّبِ، إِذِ الْمَاءُ قَبْلَ أَنْ يُتَوَضَّأَ بِهِ إِنَّمَا وَقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ الْوَضُوءِ، لأَنَّهُ يَؤُولُ إِلَى أَنْ يُتَوَضَّأَ بِهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وضو (کے پانی) کو ڈھانپنے، مشکیزوں (کے منہ رسی سے) باندھنے، اور (خالی) برتنوں کو اُلٹا کرکے رکھنے کا حُکم دیا ہے۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پانی سے وضو کیا جائے گا اسے وضو کا نام دیا ہے۔ یہ اسی جنس سے ہے جسےمیں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کر چکا ہوں کہ عرب کسی چیز کو ابتدا ہی میں وہ نام دے دیتے ہیں جو اسے کام کے اختتام پر ملنا تھا کیونکہ پانی کو اس سے وضو کرنے سے پہلے ہی وضو کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ بالآخر اس سے وضو کیا جائے گا۔
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما امر بتغطية الاواني بالليل لا بالنهار جميعاوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ بِتَغْطِيَةِ الْأَوَانِي بِاللَّيْلِ لَا بِالنَّهَارِ جَمِيعًا
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت برتن ڈھانپنے کا حُکم دیا ہے سارا دن یہ حُکم نہیں ہے۔
سیدنا ابو حمید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نقیع سے بغیر ڈھانپے دودھ کا پیالہ لیکر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اسے ڈھانپا کیوں نہیں؟ اگرچہ چوڑائی کے رُخ لکڑی رکھ کر ہی ڈھانپتے۔“ ابو حمید فرماتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت دروازے بند کرنے کا حُکم دیا ہے۔ اور رات کے وقت مشکیزوں کو ڈھانپنے کا حُکم دیا ہے۔ دارمی کی روایت میں ہے کہ بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت برتنوں کو ڈھانپنے اور مشکیزوں کو باندھنے کا حُکم دیا ہے۔ اور دروازوں کا ذکر نہیں کیا۔