ضد قول بعض المتصوفة الذي يتوهم ان اتخاذ اواني الزجاج من الإسراف؛ إذ الخزف اصلب وابقى من الزجاج.ضِدُّ قَوْلِ بَعْضِ الْمُتَصَوِّفَةِ الَّذِي يَتَوَهَّمُ أَنَّ اتِّخَاذَ أَوَانِي الزُّجَاجِ مِنَ الْإِسْرَافِ؛ إِذِ الْخَزَفُ أَصْلَبُ وَأَبْقَى مِنَ الزُّجَاجِ.
اس صوفی کے قول کے برعکس جو خیال کرتا ہے کہ شیشے کے برتن استعال کرنا اسراف ہے کیونکہ مٹّی کے برتن شیشے کے برتن سے زیادہ مضبوط اور دیرپا ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے لیے پانی منگوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایا گیا، روای کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے فرمایا تھا کہ شیشے کا پیالہ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی اُنگلیاں اُس میں رکھیں (تو پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُنگلیوں سےچشمے کی طرح پھوٹنے لگا) چنانچہ لوگوں نے باری باری وضو کرنا شروع کردیا، میں نے ان کا اندازہ لگایا تو وہ تقریبا ستّر اور اسّی کے درمیان تھے۔ میں پانی کو دیکھنے لگا گویا کہ وہ آپ کی اُنگیوں کے درمیان سے اُبل رہا ہے۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو حماد بن زید سےکئی راویوں نےبیان کیا ہےکہ اور اُنہوں نے «رحراح» ”کشادہ برتن“ کا لفظ «الزجاج» ”شیشے کے برتن“ کی جگہ بغیرکسی شک وشبہ کے بیان کیا ہے۔ اما م صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں محمد بن یحییٰ نے ابو نعمان سے اور اُنہوں نے حماس سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ سلیمان بن حارث کی روایت میں ہے: «اُتِیَ بِقَدحِ زُجَاجِ» ”آپ کے پاس شیشے کا پیالہ لایا گیا۔“ اور ابو نعمان کی روایت میں ہے کہ ”شیشے کا برتن لایا گیا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ «رحراح» شیشے کے کھلے برتن کو کہتے ہیں، گہرے کو «رحراح» نہیں کہتے۔