سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندرکےمتعلق پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص اور سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: ”جاؤ ہمارے لیے پانی تلاش کر کے لاؤ“ تو وہ دونوں (پانی کی تلاش میں چلے گئے۔ وہ ایک عورت سے ملے جو دو مشکیزوں یا پانی کے دو تھیلوں کے درمیان اونٹ پر سوار (جارہی) تھی۔ اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اُس نے جواب دیا کی کل اس وقت میں پانی (کے چشمے) پرتھی۔ اور ہمارے مرد پیچھے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اّس سے کہا کہ چلو، اُس نے پوچھا کہ کہاں؟ اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اُس نے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جسے صابی (بے دین) کہا جاتا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں وہی ہے جسے تم سمجتھی ہو۔ تو وہ دونوں (اُس عورت کو لیکر) چلے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اُسے لے آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے کہو کہ اپنے اونٹ سے اُتر جائے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا، اور تھیلوں یا مشکیزوں کے مُنہ اس میں رکھ دیئے۔ اُنہوں نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کُلّی کی اور پانی دوبارہ تھیلوں یا مشکیزوں میں ڈال دیا۔ پھر اُن کے منہ کھول دیے گئے پھر لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ خود پیو اور جانوروں کو پلالو۔ راوی نے مکمل طویل حدیث بیان کی۔
سیدنا ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صل الله علیہ وسلم نے ایک مشکیزے سے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ یہ مردار (جانور کے چمڑے سے بنا ہوا مشکیزہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دباغت، اس کی پلیدی، ناپاکی اور گندگی دور کر دیتی ہے۔“
إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امر بشرب ابوال الإبل مع البانها، ولو كان نجسا لم يامر بشربه، وقد اعلم ان لا شفاء في المحرم، وقد امر بالاستشفاء بابوال الإبل، ولو كان نجسا كان محرما، كان داء لا دواء، وما كان فيه شفاء كما اعلم صلى الله عليه وسلم لما سئل: ايتداوى بالخمر؟ فقال: إنما هي داء وليست بدواءإِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِشُرْبِ أَبُوالِ الْإِبِلِ مَعَ أَلْبَانِهَا، وَلَوْ كَانَ نَجِسًا لَمْ يَأْمُرْ بِشُرْبِهِ، وَقَدْ أَعْلَمَ أَنْ لَا شِفَاءَ فِي الْمُحَرَّمِ، وَقَدْ أَمَرَ بِالِاسْتِشْفَاءِ بِأَبُوالِ الْإِبِلِ، وَلَوْ كَانَ نَجِسًا كَانَ مُحَرَّمًا، كَانَ دَاءً لَا دَوَاءً، وَمَا كَانَ فِيهِ شِفَاءٌ كَمَا أَعْلَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سُئِلَ: أَيُتَدَاوَى بِالْخَمْرِ؟ فَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ دَاءٌ وَلَيْسَتْ بِدَوَاءٍ
کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُونٹوں کے پیشاب کو اُن کے دودھ کے ساتھ پینے کا حُکم دیا ہے، اور اگر اُن کا پیشاب ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے پینے کا حُکم نہ دیتے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرما چکے ہیں کہ حرام چیز میں شفا نہیں ہے۔ اور اُونٹوں کے پیشاب سے شفا حاصل کرنے کا حُکم بھی دیا ہے۔ لہذا اگر وہ ناپاک ہوتا تو حرام ہوتا اور شفا کی بجائے بیماری ہوتا، اور اُس میں شفا نہ ہوتی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ (اے اللہ کے رسول) کیا شراب کو بطور دوا استعمال کر لیا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شراب تو بیماری ہے، دوا نہیں ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ یا کچھ آدمی مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم مویشیوں والے لوگ ہیں (مویشی پالتے ہیں) اور کھیتی باڑی کرنے والے نہیں ہیں۔ پھر اُنہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا موفق نہ آئی (تو وہ بیمار ہوگئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دینے کا حکم دیا اور اُنہیں حکم دیا کہ وہ ان اونٹوں کے ساتھ (مدینہ منورہ سے باہر) چلے جائیں اور ان کے پیشاب اور دودھ پیئں۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔
اوهم بعض العلماء ان توقيت المد من الماء للوضوء توقيت لا يجوز الوضوء باقل منهأَوْهَمَ بَعْضَ الْعُلَمَاءِ أَنَّ تَوْقِيتَ الْمُدِّ مِنَ الْمَاءِ لِلْوُضُوءِ تَوْقِيتٌ لَا يَجُوزُ الْوُضُوءُ بِأَقَلَّ مِنْهُ
بعض علماء کو وہم ہوا ہے کہ وضو کے لیے ایک مد پانی کی مقدار مقررکرنا ایسی تعیین ہے جس سے کم پانی وضو کرنا جائز نہیں ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد سے وضواورپانچ مد سےغسل کیا کرتےتھے۔اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ اس حدیث میں مذکورہ مکوک سے مراد ”مد“ ہی ہے۔
لا انه لا يسع المتوضئ ان يزيد على المد او ينقص منه إذ لو لم يجزئ الزيادة على ذلك ولا النقصان منه، كان على المرء إذا اراد الوضوء ان يكيل مدا من ماء فيتوضا به لا يبقي منه شيئا، وقد يرفق المتوضئ بالقليل من الماء فيكفي بغسل اعضاء الوضوء، ويخرق بالكثير فلا يكفي لغسل اعضاء الوضوءلَا أَنَّهُ لَا يَسَعُ الْمُتَوَضِّئُ أَنْ يَزِيدَ عَلَى الْمُدِّ أَوْ يَنْقُصَ مِنْهُ إِذْ لَوْ لَمْ يُجْزِئِ الزِّيَادَةُ عَلَى ذَلِكَ وَلَا النُّقْصَانُ مِنْهُ، كَانَ عَلَى الْمَرْءِ إِذَا أَرَادَ الْوُضُوءَ أَنْ يَكِيلَ مُدًّا مِنْ مَاءٍ فَيَتَوَضَّأَ بِهِ لَا يُبْقِي مِنْهُ شَيْئًا، وَقَدْ يَرْفُقُ الْمُتَوَضِّئُ بِالْقَلِيلِ مِنَ الْمَاءِ فَيَكْفِي بِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ، وَيَخْرُقُ بِالْكَثِيرِ فَلَا يَكْفِي لِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ
یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک مد سے کم و بیش پانی وضو کرنے والا استعمال نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اگر ایک مد پانی میں کمی و بیشی درست نہ ہوتی تو وضو کرنے والے کے لیے ضروری ہو جاتا کہ وضو کرنے سے پہلے ایک مد پانی ناپے پھر اس سے اس طرح وضو کرے کہ باقی کچھ نہ بچے۔ حالانکہ بعض اوقات وضو کرنے والا تھوڑا پانی احتیاط سے استعمال کرتا ہے تو وہ اعضائے وضو کو دھونے کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ زیادہ پانی بے اعتدالی سے استعمال کرتا ہے تو وہ اعضائے وضو کو دھونے کے لیے ناکافی ہو جاتا ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کے لیے ایک مد اور (غسل) جنابت کے لیے ایک صاع (پانی) کافی ہے۔“ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے جابر، ہمیں (پانی کی) یہ مقدار کافی نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم سے بہتر و اعلیٰ اور زیادہ بالوں والی شخصیت (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ پانی کافی تھا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان، ”وضو کے لیے ایک مد کافی ہے“ میں یہ دلیل ہے کہ وضو کے لئے ایک مد پانی کی مقدار مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مقدار کافی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس مقدار سے کم و بیش پانی استعمال کرنا جائز نہیں۔