صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
اس پانی کے ابواب کے مجموعے کا بیان جو ناپاک نہیں ہوتا اور وہ پانی جو نجاست ملنے سے ناپاک ہو جاتا ہے
حدیث نمبر: 112
Save to word اعراب
نا محمد بن يحيى ، نا احمد بن حنبل ، نا ابو القاسم بن ابي الزناد ، حدثني إسحاق بن حازم ، عن ابن مقسم ، قال احمد: يعني عبيد الله، عن جابر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن البحر، قال:" هو الطهور ماؤه، والحلال ميتته" نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، نا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنِ ابْنِ مِقْسَمٍ ، قَالَ أَحْمَدُ: يَعْنِي عُبَيْدَ اللَّهِ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْبَحْرِ، قَالَ:" هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، وَالْحَلالُ مَيْتَتُهُ"
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندرکےمتعلق پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن صحيح
87. ‏(‏87‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ مِنَ الْمَاءِ الَّذِي يَكُونُ فِي أَوَانِي أَهْلِ الشِّرْكِ وَأَسْقِيَتِهِمْ ‏"‏
87. مشرکوں کے برتنوں اور مشکیزوں میں موجود پانی سے وضو اور غسل کرنے کی رخصت ہے،
حدیث نمبر: Q113
Save to word اعراب
والدليل على ان الإهاب يطهر بدباغ المشركين إياهوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْإِهَابَ يَطْهُرُ بِدِبَاغِ الْمُشْرِكِينَ إِيَّاهُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ مشرکوں کی دباغت سے چمڑے پاک صاف ہوجاتے ہیں
حدیث نمبر: 113
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، نا يحيى بن سعيد القطان ، وابن ابي عدي ، وسهل ، وعبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي ، قالوا: حدثنا عوف، عن ابي رجاء ، حدثنا عمران بن حصين ، قال:" كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فدعا فلانا ودعا علي بن ابي طالب، فقال:" اذهبا فابغيا لنا الماء"، فانطلقا، فلقيا امراة بين سطيحتين او بين مزادتين على بعير، فقالا لها: اين الماء؟ قالت: عهدي بالماء امس هذه الساعة، ونفرنا خلوفا، فقال لها: انطلقي، فقالت: اين؟ قالا لها: إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: هذا الذي يقال له الصابئ؟ قالا لها: هو الذي تعنين، فانطلقا، فجاءا بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحدثاه الحديث، فقال: استنزلوها من بعيرها، ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بإناء، فجعل فيه افواه المزادتين او السطيحتين، قالا: ثم مضمض، ثم اعاد في افواه المزادتين او السطيحتين، ثم اطلق افواههما، ثم نودي في الناس ان اسقوا واستقوا" . وذكر الحديث بطولهنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وَسَهْلُ ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنِ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَدَعَا فُلانًا وَدَعَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ:" اذْهَبَا فَابْغِيَا لَنَا الْمَاءَ"، فَانْطَلَقَا، فَلَقِيَا امْرَأَةً بَيْنَ سَطِيحَتَيْنِ أَوْ بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ عَلَى بَعِيرٍ، فَقَالا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ، وَنَفَرُنَا خُلُوفًا، فَقَالَ لَهَا: انْطَلِقِي، فَقَالَتْ: أَيْنَ؟ قَالا لَهَا: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: هَذَا الَّذِي يُقَالَ لَهُ الصَّابِئُ؟ قَالا لَهَا: هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ، فَانْطَلَقَا، فَجَاءَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: اسْتَنْزِلُوهَا مِنْ بَعِيرِهَا، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ، فَجَعَلَ فِيهِ أَفْوَاهَ الْمَزَادَتَيْنِ أَوِ السَّطِيحَتَيْنِ، قَالا: ثُمَّ مَضْمَضَ، ثُمَّ أَعَادَ فِي أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوِ السَّطِيحَتَيْنِ، ثُمَّ أَطْلَقَ أَفْوَاهَهُمَا، ثُمَّ نُودِيَ فِي النَّاسِ أَنِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا" . وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں شخص اور سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: جاؤ ہمارے لیے پانی تلاش کر کے لاؤ تو وہ دونوں (پانی کی تلاش میں چلے گئے۔ وہ ایک عورت سے ملے جو دو مشکیزوں یا پانی کے دو تھیلوں کے درمیان اونٹ پر سوار (جارہی) تھی۔ اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اُس نے جواب دیا کی کل اس وقت میں پانی (کے چشمے) پرتھی۔ اور ہمارے مرد پیچھے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اّس سے کہا کہ چلو، اُس نے پوچھا کہ کہاں؟ اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اُس نے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جسے صابی (بے دین) کہا جاتا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں وہی ہے جسے تم سمجتھی ہو۔ تو وہ دونوں (اُس عورت کو لیکر) چلے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اُسے لے آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے کہو کہ اپنے اونٹ سے اُتر جائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا، اور تھیلوں یا مشکیزوں کے مُنہ اس میں رکھ دیئے۔ اُنہوں نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کُلّی کی اور پانی دوبارہ تھیلوں یا مشکیزوں میں ڈال دیا۔ پھر اُن کے منہ کھول دیے گئے پھر لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ خود پیو اور جانوروں کو پلالو۔ راوی نے مکمل طویل حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
88. ‏(‏88‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْوُضُوءِ مِنَ الْمَاءِ يَكُونُ فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ
88. مردار کے دباغت شدہ چمڑے میں موجود پانی سے وضوکرنا جائز ہے
حدیث نمبر: 114
Save to word اعراب
سیدنا ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صل الله علیہ وسلم نے ایک مشکیزے سے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ یہ مردار (جانور کے چمڑے سے بنا ہوا مشکیزہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی دباغت، اس کی پلیدی، ناپاکی اور گندگی دور کر دیتی ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
89. ‏(‏89‏)‏ بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ أَبْوَالَ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ لَيْسَ بِنَجَسٍ، وَلَا يَنْجُسُ الْمَاءُ إِذَا خَالَطَهُ
89. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب ناپاک نہیں ہے اور اگر وہ پانی میں مل جائے تو پانی پلید نہیں ہوتا
حدیث نمبر: Q115
Save to word اعراب
إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد امر بشرب ابوال الإبل مع البانها، ولو كان نجسا لم يامر بشربه، وقد اعلم ان لا شفاء في المحرم، وقد امر بالاستشفاء بابوال الإبل، ولو كان نجسا كان محرما، كان داء لا دواء، وما كان فيه شفاء كما اعلم صلى الله عليه وسلم لما سئل‏:‏ ايتداوى بالخمر‏؟‏ فقال‏:‏ إنما هي داء وليست بدواءإِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِشُرْبِ أَبُوالِ الْإِبِلِ مَعَ أَلْبَانِهَا، وَلَوْ كَانَ نَجِسًا لَمْ يَأْمُرْ بِشُرْبِهِ، وَقَدْ أَعْلَمَ أَنْ لَا شِفَاءَ فِي الْمُحَرَّمِ، وَقَدْ أَمَرَ بِالِاسْتِشْفَاءِ بِأَبُوالِ الْإِبِلِ، وَلَوْ كَانَ نَجِسًا كَانَ مُحَرَّمًا، كَانَ دَاءً لَا دَوَاءً، وَمَا كَانَ فِيهِ شِفَاءٌ كَمَا أَعْلَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سُئِلَ‏:‏ أَيُتَدَاوَى بِالْخَمْرِ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ إِنَّمَا هِيَ دَاءٌ وَلَيْسَتْ بِدَوَاءٍ
کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُونٹوں کے پیشاب کو اُن کے دودھ کے ساتھ پینے کا حُکم دیا ہے، اور اگر اُن کا پیشاب ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے پینے کا حُکم نہ دیتے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بیان فرما چکے ہیں کہ حرام چیز میں شفا نہیں ہے۔ اور اُونٹوں کے پیشاب سے شفا حاصل کرنے کا حُکم بھی دیا ہے۔ لہذا اگر وہ ناپاک ہوتا تو حرام ہوتا اور شفا کی بجائے بیماری ہوتا، اور اُس میں شفا نہ ہوتی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ (اے اللہ کے رسول) کیا شراب کو بطور دوا استعمال کر لیا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شراب تو بیماری ہے، دوا نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 115
Save to word اعراب
نا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني ، نا يزيد يعني ابن زريع ، نا سعيد ، نا قتادة ، ان انس بن مالك ، حدثهم، ان اناسا او رجالا من عكل وعرينة قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فتكلموا بالإسلام، وقالوا: يا رسول الله، إنا اهل ضرع، ولم نكن اهل ريف فاستوحشوا المدينة، " فامر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذود وراع، وامرهم ان يخرجوا فيها فيشربوا من ابوالها والبانها" . فذكر الحديث بطولهنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ ، نا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ ، نا سَعِيدٌ ، نا قَتَادَةُ ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، حَدَّثَهُمْ، أَنَّ أُنَاسًا أَوْ رِجَالا مِنْ عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَتَكَلَّمُوا بِالإِسْلامِ، وَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَهْلُ ضِرْعٍ، وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ فَاسْتَوْحَشُوا الْمَدِينَةَ، " فَأَمَرَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَوْدٍ وَرَاعٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فِيهَا فَيَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا" . فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ یا کچھ آدمی مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم مویشیوں والے لوگ ہیں (مویشی پالتے ہیں) اور کھیتی باڑی کرنے والے نہیں ہیں۔ پھر اُنہیں مدینہ منورہ کی آب و ہوا موفق نہ آئی (تو وہ بیمار ہوگئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دینے کا حکم دیا اور اُنہیں حکم دیا کہ وہ ان اونٹوں کے ساتھ (‏‏‏‏مدینہ منورہ سے باہر) چلے جائیں اور ان کے پیشاب اور دودھ پیئں۔ پھر مکمل حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
90. ‏(‏90‏)‏ بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِجَازَةِ الْوُضُوءِ بِالْمُدِّ مِنَ الْمَاءِ ‏"‏
90. ایک مد پانی سے وضو کرنے کی اجازت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث کا بیان
حدیث نمبر: Q116
Save to word اعراب
اوهم بعض العلماء ان توقيت المد من الماء للوضوء توقيت لا يجوز الوضوء باقل منهأَوْهَمَ بَعْضَ الْعُلَمَاءِ أَنَّ تَوْقِيتَ الْمُدِّ مِنَ الْمَاءِ لِلْوُضُوءِ تَوْقِيتٌ لَا يَجُوزُ الْوُضُوءُ بِأَقَلَّ مِنْهُ
بعض علماء کو وہم ہوا ہے کہ وضو کے لیے ایک مد پانی کی مقدار مقررکرنا ایسی تعیین ہے جس سے کم پانی وضو کرنا جائز نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 116
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، نا عبد الرحمن يعني ابن مهدي ، نا شعبة ، عن عبد الله بن عبد الله بن جبر بن عتيك ، قال: سمعت انس بن مالك ، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يتوضا بمكوك، ويغتسل بخمسة مكاكي" . قال ابو بكر: المكوك في هذا الخبر المد نفسهنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، نا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرِ بْنِ عَتِيكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَتَوَضَّأُ بِمَكُّوكٍ، وَيَغْتَسِلُ بِخَمْسَةِ مَكَاكِيَّ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الْمَكُّوكُ فِي هَذَا الْخَبَرِ الْمُدُّ نَفْسُهُ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد سے وضواورپانچ مد سےغسل کیا کرتےتھے۔اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ اس حدیث میں مذکورہ مکوک سے مراد مد ہی ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
91. ‏(‏91‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ تَوْقِيتَ الْمُدِّ مِنَ الْمَاءِ لِلْوُضُوءِ ‏"‏ أَنَّ الْوُضُوءَ بِالْمُدِّ يُجْزِئُ،
91. اس بات کی دلیل کا بیان کہ وضو کرنے کے لیے ایک مد پانی کی مقدار مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مد پانی سے کیا گیا وضو درست ہے
حدیث نمبر: Q117
Save to word اعراب
لا انه لا يسع المتوضئ ان يزيد على المد او ينقص منه إذ لو لم يجزئ الزيادة على ذلك ولا النقصان منه، كان على المرء إذا اراد الوضوء ان يكيل مدا من ماء فيتوضا به لا يبقي منه شيئا، وقد يرفق المتوضئ بالقليل من الماء فيكفي بغسل اعضاء الوضوء، ويخرق بالكثير فلا يكفي لغسل اعضاء الوضوءلَا أَنَّهُ لَا يَسَعُ الْمُتَوَضِّئُ أَنْ يَزِيدَ عَلَى الْمُدِّ أَوْ يَنْقُصَ مِنْهُ إِذْ لَوْ لَمْ يُجْزِئِ الزِّيَادَةُ عَلَى ذَلِكَ وَلَا النُّقْصَانُ مِنْهُ، كَانَ عَلَى الْمَرْءِ إِذَا أَرَادَ الْوُضُوءَ أَنْ يَكِيلَ مُدًّا مِنْ مَاءٍ فَيَتَوَضَّأَ بِهِ لَا يُبْقِي مِنْهُ شَيْئًا، وَقَدْ يَرْفُقُ الْمُتَوَضِّئُ بِالْقَلِيلِ مِنَ الْمَاءِ فَيَكْفِي بِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ، وَيَخْرُقُ بِالْكَثِيرِ فَلَا يَكْفِي لِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ
یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک مد سے کم و بیش پانی وضو کرنے والا استعمال نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اگر ایک مد پانی میں کمی و بیشی درست نہ ہوتی تو وضو کرنے والے کے لیے ضروری ہو جاتا کہ وضو کرنے سے پہلے ایک مد پانی ناپے پھر اس سے اس طرح وضو کرے کہ باقی کچھ نہ بچے۔ حالانکہ بعض اوقات وضو کرنے والا تھوڑا پانی احتیاط سے استعمال کرتا ہے تو وہ اعضائے وضو کو دھونے کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ زیادہ پانی بے اعتدالی سے استعمال کرتا ہے تو وہ اعضائے وضو کو دھونے کے لیے ناکافی ہو جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 117
Save to word اعراب
حدثنا هارون بن إسحاق الهمذاني من كتابه، حدثنا ابن فضيل ، عن حصين ، ويزيد بن ابي زياد ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجزئ من الوضوء المد، ومن الجنابة الصاع" . فقال له رجل: لا يكفينا ذلك يا جابر، فقال: قد كفى من هو خير منك واكثر شعرا. قال ابو بكر في قوله صلى الله عليه وسلم:" يجزئ من الوضوء المد": دلالة على ان توقيت المد من الماء للوضوء ان ذلك يجزئ، لا انه لا يجوز النقصان منه، ولا الزيادة فيهحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمَذَانِيُّ مِنْ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُجْزِئُ مِنَ الْوُضُوءِ الْمُدُّ، وَمِنَ الْجَنَابَةِ الصَّاعُ" . فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: لا يَكْفِينَا ذَلِكَ يَا جَابِرُ، فَقَالَ: قَدْ كَفَى مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ وَأَكْثَرُ شَعَرًا. قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُجْزِئُ مِنَ الْوُضُوءِ الْمُدُّ": دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ تَوْقِيتَ الْمُدِّ مِنَ الْمَاءِ لِلْوُضُوءِ أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُ، لا أَنَّهُ لا يَجُوزُ النُّقْصَانُ مِنْهُ، وَلا الزِّيَادَةُ فِيهِ
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو کے لیے ایک مد اور (غسل) جنابت کے لیے ایک صاع (پانی) کافی ہے۔ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے جابر، ہمیں (پانی کی) یہ مقدار کافی نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم سے بہتر و اعلیٰ اور زیادہ بالوں والی شخصیت (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ پانی کافی تھا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان، وضو کے لیے ایک مد کافی ہے میں یہ دلیل ہے کہ وضو کے لئے ایک مد پانی کی مقدار مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مقدار کافی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس مقدار سے کم و بیش پانی استعمال کرنا جائز نہیں۔

Previous    1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.