لا انه لا يسع المتوضئ ان يزيد على المد او ينقص منه إذ لو لم يجزئ الزيادة على ذلك ولا النقصان منه، كان على المرء إذا اراد الوضوء ان يكيل مدا من ماء فيتوضا به لا يبقي منه شيئا، وقد يرفق المتوضئ بالقليل من الماء فيكفي بغسل اعضاء الوضوء، ويخرق بالكثير فلا يكفي لغسل اعضاء الوضوءلَا أَنَّهُ لَا يَسَعُ الْمُتَوَضِّئُ أَنْ يَزِيدَ عَلَى الْمُدِّ أَوْ يَنْقُصَ مِنْهُ إِذْ لَوْ لَمْ يُجْزِئِ الزِّيَادَةُ عَلَى ذَلِكَ وَلَا النُّقْصَانُ مِنْهُ، كَانَ عَلَى الْمَرْءِ إِذَا أَرَادَ الْوُضُوءَ أَنْ يَكِيلَ مُدًّا مِنْ مَاءٍ فَيَتَوَضَّأَ بِهِ لَا يُبْقِي مِنْهُ شَيْئًا، وَقَدْ يَرْفُقُ الْمُتَوَضِّئُ بِالْقَلِيلِ مِنَ الْمَاءِ فَيَكْفِي بِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ، وَيَخْرُقُ بِالْكَثِيرِ فَلَا يَكْفِي لِغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ
یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک مد سے کم و بیش پانی وضو کرنے والا استعمال نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اگر ایک مد پانی میں کمی و بیشی درست نہ ہوتی تو وضو کرنے والے کے لیے ضروری ہو جاتا کہ وضو کرنے سے پہلے ایک مد پانی ناپے پھر اس سے اس طرح وضو کرے کہ باقی کچھ نہ بچے۔ حالانکہ بعض اوقات وضو کرنے والا تھوڑا پانی احتیاط سے استعمال کرتا ہے تو وہ اعضائے وضو کو دھونے کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ زیادہ پانی بے اعتدالی سے استعمال کرتا ہے تو وہ اعضائے وضو کو دھونے کے لیے ناکافی ہو جاتا ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کے لیے ایک مد اور (غسل) جنابت کے لیے ایک صاع (پانی) کافی ہے۔“ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے جابر، ہمیں (پانی کی) یہ مقدار کافی نہیں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم سے بہتر و اعلیٰ اور زیادہ بالوں والی شخصیت (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ پانی کافی تھا۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان، ”وضو کے لیے ایک مد کافی ہے“ میں یہ دلیل ہے کہ وضو کے لئے ایک مد پانی کی مقدار مقرر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مقدار کافی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس مقدار سے کم و بیش پانی استعمال کرنا جائز نہیں۔