سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں مکّھی گر جائے تو اُسے چاہیے کہ وہ مکّھی کو پوری طرح برتن میں ڈبوئے، پھر اُسے باہر نکال لے کیونکہ اُس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے پر میں شفا۔ اور وہ اُس پر سے اپنا بچاؤ کرتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے۔“
والدليل على ان الماء إذا غسل به بعض اعضاء البدن او جميعه لم ينجس الماء، وكان الماء طاهرا، إذا كان الموضع المغسول من البدن طاهرا لا نجاسة عليه.وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْمَاءَ إِذَا غُسِلَ بِهِ بَعْضُ أَعْضَاءِ الْبَدَنِ أَوْ جَمِيعُهُ لَمْ يَنْجُسِ الْمَاءُ، وَكَانَ الْمَاءُ طَاهِرًا، إِذَا كَانَ الْمَوْضِعُ الْمَغْسُولُ مِنَ الْبَدَنِ طَاهِرًا لَا نَجَاسَةَ عَلَيْهِ.
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب پانی سے جسم کے بعض اعضا یا پورا جسم دھویا جائے تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ اور پانی پاک ہے اس پرکوئی نجاست نہیں ہے۔
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ (ایک دفعہ) میں بیمار ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ پیدل چل کر میری عیادت کے لیے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا تو وضو کیا اور (باقی ماندہ) پانی مجھ پر ڈالا۔ (اُس سے) مجھے کچھ افاقہ ہوا تو میں نے عرض کی کہ اےاللہ کے رسول، میں اپنے مال میں سے کیسے تصرف کروں، اپنے مال کو کیسے تقسیم کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، حتیٰ کہ آیت میراث نازل ہو گئی «إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ۔۔۔» [ سورة النساء ]”اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ وہ اور ایک بہن ہو تو اُس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصّہ اس کا ہے۔“ ایک بار انہوں نے یہ کہا کہ ”حتیٰ کہ آیت کلالہ نازل ہوئی۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کے وہ کہتے ہیں (ایک دفعہ) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کیا نماز کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا لوگوں کے پاس پانی نہیں ہے؟“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص برتن میں بچا ہوا پانی لے کر حاضر خدمت ہوا۔ کہتے ہیں کہ اُس نے وہ پانی ایک پیالے میں ڈال دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ کہتے ہیں کہ پھر لوگ باقی ماندہ پانی لینے کے لیے آگئے تو اُس نے کہا کہ اس سے مسح کر لو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک پیالے میں پانی کے وسط میں رکھا، پھر فرمایا: ” مکمل وضو کرو۔ “ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جو میری بصارت لے گئی، راوی کہتے ہیں کہ اُن کی بصارت ختم ہو چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُنگلیوں کے درمیان سے پانی اُبلتا ہوا دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک (اُس وقت تک) نہ اُٹھایا جب تک کہ سب لوگوں نے وضو نہ کر لیا۔ عبیدہ کہتے ہیں کہ اسود نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہم دو سو یا اس سے زیادہ لوگ تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ایک زوجہ محترمہ نے غسل جنابت کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے بچے ہوئے پانی سے وضو یا غسل کیا۔ “ یہ وکیع کی حدیث ہے۔ احمد بن منیع کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا۔ ابو موسیٰ اور عتبہ بن عبداللہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے (اور) اُن کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے لگے تو اُنہوں نے عرض کی کہ (اللہ کے رسول، یہ پانی تومیرے غسل جنابت سے بچا ہوا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کوکوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔“
وإباحة الوضوء والغسل به، إذ هو طاهر غير نجس، إذ لو كان سؤر حائض نجسا لما شرب النبي صلى الله عليه وسلم ماء نجسا غير مضطر إلى شربهوَإِبَاحَةِ الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ بِهِ، إِذْ هُوَ طَاهِرٌ غَيْرُ نَجِسٍ، إِذْ لَوْ كَانَ سُؤْرُ حَائِضٍ نَجِسًا لَمَا شَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً نَجِسًا غَيْرَ مُضْطَرٍّ إِلَى شُرْبِهِ
اور اس سے وضو اور غسل کرنا جائز ہے کیونکہ وہ پاک ہے، ناپاک نہیں ہے، کیونکہ اگر حائضہ عورت کا جھوٹا ناپاک ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ناپاک پانی نہ پیتے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پینے کے لیے مجبور بھی نہ تھے۔
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (مشروب کا) برتن لایا جاتا تو میں (اس سے) پینے کی ابتدا کرتی حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔ پھر آپ برتن پکڑتے اور اپنا منہ اس جگہ لگاتے جہاں میں نے لگایا تھا (اور مشروب نوش کرتے) اور میں (کھانا کھاتے وقت) ہڈی پکڑتی اور اس سے (گوشت) نوچتی- پھر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہڈی لے لیتے اور) اپنا منہ اسی جگہ رکھتے جہاں میں نے منہ رکھا تھا۔ (اور کھایا تھا) امام صاحب فرماتے ہیں: ہمیں سلم بن جنادہ نے بھی اسی سند سے ایسی ہی روایت بیان کی ہے۔
ضد قول من كره الوضوء، والغسل من ماء البحر، وزعم ان تحت البحر نارا، وتحت النار بحرا حتى عد سبعة ابحر، وسبع نيران، وكره الوضوء والغسل من مائه لهذه العلة زعمضِدُّ قَوْلِ مَنْ كَرِهَ الْوُضُوءَ، وَالْغُسْلَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ، وَزَعَمَ أَنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا، وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا حَتَّى عَدَّ سَبْعَةَ أَبْحُرٍ، وَسَبْعَ نِيرَانٍ، وَكُرْهُ الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ مِنْ مَائِهِ لِهَذِهِ الْعِلَّةِ زَعْمٌ
اس شخص کے قول کے برعکس جو سمندر کے پانی سے وضو اور غسل کرنے کو مکروہ سمجھتا ہے اس کا دعویٰ ہے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے، اور آگ کےنیچے سمندر ہے، اس طرح سات سمندر اور سات آگ ہیں۔ اس مزعومہ علت کی وجہ سے وہ سمندر کے پانی سے وضو اور غسل کرنا مکروہ سمجھتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کرلیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُس کا پانی پاک ہے، اُس کا مردار حلال ہے۔ یہ یونس کی حدیث ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ یحییٰ بن حکیم نے اپنی روایت میں «حدث» کی بجائے «عن» صفوان بن سلیم بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے سعید بن سلمہ کے نام کے ساتھ «من اٰل ان الأزرق» اور مغیرہ کے نام کے ساتھ «من بني عبدالدار» نہیں کیا (یعنی ان کے قبیلوں کا نام نہیں لیا)۔ نیز ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ ”ہم مدتوں سمندری سفر میں رہتے ہیں۔“