ضد قول من كره الوضوء، والغسل من ماء البحر، وزعم ان تحت البحر نارا، وتحت النار بحرا حتى عد سبعة ابحر، وسبع نيران، وكره الوضوء والغسل من مائه لهذه العلة زعمضِدُّ قَوْلِ مَنْ كَرِهَ الْوُضُوءَ، وَالْغُسْلَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ، وَزَعَمَ أَنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا، وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا حَتَّى عَدَّ سَبْعَةَ أَبْحُرٍ، وَسَبْعَ نِيرَانٍ، وَكُرْهُ الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ مِنْ مَائِهِ لِهَذِهِ الْعِلَّةِ زَعْمٌ
اس شخص کے قول کے برعکس جو سمندر کے پانی سے وضو اور غسل کرنے کو مکروہ سمجھتا ہے اس کا دعویٰ ہے کہ سمندر کے نیچے آگ ہے، اور آگ کےنیچے سمندر ہے، اس طرح سات سمندر اور سات آگ ہیں۔ اس مزعومہ علت کی وجہ سے وہ سمندر کے پانی سے وضو اور غسل کرنا مکروہ سمجھتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ہم سمندری پانی سے وضو کرلیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُس کا پانی پاک ہے، اُس کا مردار حلال ہے۔ یہ یونس کی حدیث ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ یحییٰ بن حکیم نے اپنی روایت میں «حدث» کی بجائے «عن» صفوان بن سلیم بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے سعید بن سلمہ کے نام کے ساتھ «من اٰل ان الأزرق» اور مغیرہ کے نام کے ساتھ «من بني عبدالدار» نہیں کیا (یعنی ان کے قبیلوں کا نام نہیں لیا)۔ نیز ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ ”ہم مدتوں سمندری سفر میں رہتے ہیں۔“