والدليل على ان الله عز وجل قد يوجب الفرض في كتابه بمعنى، ويوجب ذلك الفرض بغير ذلك المعنى على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم، إذ الله عز وجل إنما دل في كتابه على ان الوضوء يوجبه الغائط وملامسة النساء؛ لانه امر بالتيمم للمريض، وفي السفر عند الإعواز من الماء، من الغائط وملامسة النساء، فدل الكتاب على ان الصحيح الواجد للماء عليه من الغائط وملامسة النساء بالوضوء، إذ التيمم بالصعيد الطيب إنما جعل بدلا من الوضوء للمريض والمسافر عند العوز للماء، والنبي المصطفى صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان الوضوء قد يجب من غير غائط، ومن غير ملامسة النساء، واعلم في خبر صفوان بن عسال ان البول والنوم كل واحد منهما على الانفراد يوجب الوضوء، والبائل والنائم غير متغوط ولا ملامس النساء، وساذكر بمشيئة الله عز وجل وعونه الاحداث الموجبة للوضوء بحكم النبي صلى الله عليه وسلم خلا الغائط وملامسة النساء اللذين ذكرهما في نص الكتاب خلاف قول من زعم ممن لم يتبحر العلم انه غير جائز ان يذكر الله حكما في الكتاب فيوجبه بشرط ان يجب ذلك الحكم بغير ذلك الشرط الذي بينه في الكتابوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ يُوجِبُ الْفَرْضَ فِي كِتَابِهِ بِمَعْنًى، وَيُوجِبُ ذَلِكَ الْفَرْضَ بِغَيْرِ ذَلِكَ الْمَعْنَى عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا دَلَّ فِي كِتَابِهِ عَلَى أَنَّ الْوُضُوءَ يُوجِبُهُ الْغَائِطُ وَمُلَامَسَةُ النِّسَاءِ؛ لِأَنَّهُ أَمَرَ بِالتَّيَمُّمِ لِلْمَرِيضِ، وَفِي السَّفَرِ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ، مِنَ الْغَائِطِ وَمُلَامَسَةِ النِّسَاءِ، فَدَلَّ الْكِتَابُ عَلَى أَنَّ الصَّحِيحَ الْوَاجِدَ لِلْمَاءِ عَلَيْهِ مِنَ الْغَائِطِ وَمُلَامَسَةِ النِّسَاءِ بِالْوُضُوءِ، إِذِ التَّيَمُّمُ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ إِنَّمَا جُعِلَ بَدَلًا مِنَ الْوُضُوءِ لِلْمَرِيضِ وَالْمُسَافِرِ عِنْدَ الْعَوْزِ لِلْمَاءِ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْوُضُوءَ قَدْ يَجِبُ مِنْ غَيْرِ غَائِطٍ، وَمِنْ غَيْرِ مُلَامَسَةِ النِّسَاءِ، وَأَعْلَمَ فِي خَبَرِ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ الْبَوْلَ وَالنَّوْمَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى الِانْفِرَادِ يُوجِبُ الْوُضُوءَ، وَالْبَائِلُ وَالنَّائِمُ غَيْرُ مُتَغَوِّطٌ وَلَا مُلَامِسِ النِّسَاءِ، وَسَأَذْكُرُ بِمَشِيئَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَوْنِهِ الْأَحْدَاثَ الْمُوجِبَةَ لِلْوُضُوءِ بِحُكْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلَا الْغَائِطِ وَمُلَامَسَةِ النِّسَاءِ اللَّذَيْنِ ذَكَرَهُمَا فِي نَصِّ الْكِتَابِ خِلَافَ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ مِمَّنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ أَنَّهُ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَذْكُرَ اللَّهُ حُكْمًا فِي الْكِتَابِ فَيُوجِبَهُ بِشَرْطِ أَنْ يَجِبَ ذَلِكَ الْحُكْمُ بِغَيْرِ ذَلِكَ الشَّرْطِ الَّذِي بَيَّنَهُ فِي الْكِتَابِ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ کسی فرض کو قرآن مجید میں ایک معنی میں واجب کرتا ہے پھر اسی فرض کو دوسرے معنی میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے واجب کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق پاخانہ اور عورتوں سے ہمبستری کرنا وضو کو واجب کر دیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر کو پانی کی عدم موجودگی میں پاخانہ اور عورتوں سے ہمبستری کرنے کے بعد تیمّم کرنے کا حُکم دیا ہے۔ لہٰذا کتاب اللہ کے حُکم کے مطابق تندرست آدمی کو پانی کی موجودگی میں پاخانہ اور عورتوں سے ہمبستری کے بعد وضو کرنا پڑے گا کیونکہ پاک مٹی سے تیمّم کرنے کو مسافر اور مریض کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں وضو کا متبادل بنایا گیا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ وضو پاخانے اور عورتوں سے مباشرت کے علاوہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے کہ پیشاب اور نیند میں سے ہر ایک وضو واجب کر دیتا ہے حالانکہ پیشاب کرنے والا اور سونے والا، پاخانہ کرنے اور عورتوں سے ہمبستری کرنے والے کے علاوہ ہیں۔ میں عنقریب اللہ تعالیٰ کی مشئیت اور نصرت سے وضو کو واجب کرنے والے ایسے احداث بیان کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت ہیں اور وہ قرآن مجید میں مذکور احداث پاخانے اور عورتوں سے مباشرت کے علاوہ ہیں۔ اس شخص کے قول کے خلاف، جو معتبر عالم نہیں ہے وہ کہتا ہے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک حکم ذکر کریں اور اسے مشروط واجب کریں، پھر وہی حکم قرآن مجید میں مذکور شرط کے بغیر ہی واجب ہو جائے۔
زر بن حبیش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موزوں پر مسح کرنے کے متعلق دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے زر، کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا کہ علم کی تلاش میں (حاضر ہوا ہوں)۔ انہوں نے فرمایا کہ اے زر، بیشک فرشتے طالب علم کی علمی طلب اور جستجو پر رضامندی اور خوشی کے اظہار کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کی کہ قضائے حاجت کے بعد موزوں پر مسح کرنے کے متعلق میرے دل میں کھٹکا سا ہے، اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں (سنا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جب ہم مسافر ہوں تو جنابت کے سوا اپنے موزے تین دن رات تک نہ اتاریں۔ پاخانہ، پیشاب اور نیند (کی وجہ) سے (اتارنے کی ضرورت نہیں) یہ مخزومی کی روایت ہے۔ احمد بن عبدہ کی روایت میں ہے: ”مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب في فضل التوبة والاستغفار وما ذكر من رحمة الله لعباده، رقم: 3535، و سنن نسائی، رقم: 127، ارواء الغليل: 106، سنن ابن ماجه: 471، مسند احمد بن حنبل: 239/4، 240/4، 241، 17394، البيهقي في السننه الكبرى: 557، 574، 1225»
وهو من الجنس الذي قد اعلمت ان الله قد يوجب الحكم في كتابه بشرط، ويوجبه على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم بغير ذلك الشرط، إذ الله عز وجل لم يذكر في آية الوضوء المذي، والنبي صلى الله عليه وسلم قد اوجب الوضوء من المذي، واتفق علماء الامصار قديما وحديثا على إيجاب الوضوء من المذيوَهُوَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي قَدْ أَعْلَمْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ يُوجِبُ الْحُكْمَ فِي كِتَابِهِ بِشَرْطٍ، وَيُوجِبُهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغَيْرِ ذَلِكَ الشَّرْطِ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَذْكُرْ فِي آيَةِ الْوُضُوءِ الْمَذْيَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَوْجَبَ الْوُضُوءَ مِنَ الْمَذْيِ، وَاتَّفَقَ عُلَمَاءُ الْأَمْصَارِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا عَلَى إِيجَابِ الْوُضُوءِ مِنَ الْمَذْيِ
یہ حکم اسی قسم سے ہے جسے میں نے بیان کیا تھا کہ کبھی اللہ تعالیٰ ایک حکم کو اپنی کتاب میں مشروط واجب کرتا ہے پھر اسی حکم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے غیر مشروط واجب کر دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیتِ وضو میں مذی کا ذکر نہیں کیا جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذی سے وضو واجب قرار دیا ہے۔ تمام شہروں کے قدیم و جدید علماء کا اتفاق ہے کہ مذی سے وضو واجب ہو جاتا ہے۔
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ مذی والا شخص تھا، میں نے (اس بارے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پُوچھنے میں شرم محسوس کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھی، میں نے ایک آدمی کو (یہ مسئلہ پوچھنے کا) حکم دیا تو اُس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ مسئلہ) پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مذی (نکلنے) سے وضو کرنا ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «صحیح بخارى، كتاب العلم، باب من استحيا فامر غيره بالسؤال رقم: 132، 178، 269، سنن نسائی، رقم: 152، مسند: احمد: 125/1، امن طريق أبى حصین، ابن ماجه رقم: 504، ارواء الغليل 47 - 125»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے مذی کے متعلق مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے شرم محسوس کی تو میں نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو (یہ مسئلہ پوچھنے کا) حکم دیا۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس(مذی) میں وضو کرنا (واجب) ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم، کتاب الحيض، باب المذى: 303، سنن نسائی، رقم الحديث: 157، مسند احمد: 1121»
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں بکثرت مذی والا شخص تھا۔ میں سردی کے موسم میں غسل کرتا تھا یہاں تک کہ میری کمر سردی کی وجہ سے پھٹ گئی (اس میں درد ہونے لگا) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”یہ (غسل) نہ کرو، جب تم مذی (نکلی ہوئی) دیکھو تو شرم گاہ دھو لو اور نماز کو وضو جیسا وضو کر لو، اور جب تمہاری منی نکل جائے تو غسل کرو۔“ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لا تفعل» ”نہ کرو“ کلمہ زجر ہے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مذی نکلنے پر غسل کرنے کے وجوب کی نفی کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحیح، سنن ابی داود، كتاب الطهارة، باب المذى: 206، النسائي، الطهارة باب الغسل من المغنى رقم: 193، عن قتبه به مسند احمد: 826»
سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں حُکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق پوچھیں جو اپنی بیوی کے قریب ہوتا ہے تو اس کی مذی نکل جاتی ہے اس پر کیا لازم ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، چونکہ میرے پاس (میرے نکاح میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں، اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھتے ہوئے شرماتا ہوں، سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص یہ پائے (کہ مذی نکل گئی ہے) تو اپنی شرم گاہ دھو لے اور وہ نماز کے لیے جیسا وضو کرتا ہے ویسا وضو کرلے۔“
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، صحيح ابي داود: 201، سنن ابي داود، كتاب الطهارة، باب المذي: 207، سنن نسائي: 156، ابن ماجه رقم: 505، موطا امام مالك: 76»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (مسئلہ پوچھنے کے لیے) بھیجا۔ تو اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جس شخص کی مذی نکل جائے وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کرو اور اپنی شرم گاہ دھولو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب المذي، رقم: 303، مسند أحمد: 104/1، ابن الجارود فى المنتقى: 5»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بہت زیادہ مذی والا شخص تھا۔ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مذی (نکلنے) سے تمہارے لیے وضو کرنا کافی ہو گا۔“ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذی کے بارے میں سیدنا سھل بن حنیف کی پوری روایت کے الفاظ یوں ہیں «يكفيك من ذالك الوضوء» ”مذی نکلنے سے وضو کرنا تیرے لیے کافی ہو گا۔“ میں نے اسے مذی لگنے سے کپڑے دھونے کے باب میں ذکر کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب المذي: 303، سنن نسائي: 154، مسند احمد: 110/1، رقم: 870»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو اپنے پیٹ میں کچھ درد محسوس ہو تو وہ شک میں پڑ جائے کہ پیٹ سے کچھ نکلا ہے یا نہیں نکلا تو وہ (مسجد سے) نہ نکلے حتیٰ کہ آواز سن لے یا بُو محسوس کرے۔“ یہ خالد بن عبداللہ کی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب الدليل على ان من تيقن الطهارة ثم شك فى الحدث فله أن يصلى بطهارته تلك: 362، سنن ابي داود الطهارة باب اذا شك فى الحدث، رقم: 177، مسند احمد: 414/2، رقم: 8019، سنن الدارمي رقم: 721»