والدليل على ان الله عز وجل قد يوجب الفرض في كتابه بمعنى، ويوجب ذلك الفرض بغير ذلك المعنى على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم، إذ الله عز وجل إنما دل في كتابه على ان الوضوء يوجبه الغائط وملامسة النساء؛ لانه امر بالتيمم للمريض، وفي السفر عند الإعواز من الماء، من الغائط وملامسة النساء، فدل الكتاب على ان الصحيح الواجد للماء عليه من الغائط وملامسة النساء بالوضوء، إذ التيمم بالصعيد الطيب إنما جعل بدلا من الوضوء للمريض والمسافر عند العوز للماء، والنبي المصطفى صلى الله عليه وسلم قد اعلم ان الوضوء قد يجب من غير غائط، ومن غير ملامسة النساء، واعلم في خبر صفوان بن عسال ان البول والنوم كل واحد منهما على الانفراد يوجب الوضوء، والبائل والنائم غير متغوط ولا ملامس النساء، وساذكر بمشيئة الله عز وجل وعونه الاحداث الموجبة للوضوء بحكم النبي صلى الله عليه وسلم خلا الغائط وملامسة النساء اللذين ذكرهما في نص الكتاب خلاف قول من زعم ممن لم يتبحر العلم انه غير جائز ان يذكر الله حكما في الكتاب فيوجبه بشرط ان يجب ذلك الحكم بغير ذلك الشرط الذي بينه في الكتابوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ يُوجِبُ الْفَرْضَ فِي كِتَابِهِ بِمَعْنًى، وَيُوجِبُ ذَلِكَ الْفَرْضَ بِغَيْرِ ذَلِكَ الْمَعْنَى عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّمَا دَلَّ فِي كِتَابِهِ عَلَى أَنَّ الْوُضُوءَ يُوجِبُهُ الْغَائِطُ وَمُلَامَسَةُ النِّسَاءِ؛ لِأَنَّهُ أَمَرَ بِالتَّيَمُّمِ لِلْمَرِيضِ، وَفِي السَّفَرِ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ، مِنَ الْغَائِطِ وَمُلَامَسَةِ النِّسَاءِ، فَدَلَّ الْكِتَابُ عَلَى أَنَّ الصَّحِيحَ الْوَاجِدَ لِلْمَاءِ عَلَيْهِ مِنَ الْغَائِطِ وَمُلَامَسَةِ النِّسَاءِ بِالْوُضُوءِ، إِذِ التَّيَمُّمُ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ إِنَّمَا جُعِلَ بَدَلًا مِنَ الْوُضُوءِ لِلْمَرِيضِ وَالْمُسَافِرِ عِنْدَ الْعَوْزِ لِلْمَاءِ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْوُضُوءَ قَدْ يَجِبُ مِنْ غَيْرِ غَائِطٍ، وَمِنْ غَيْرِ مُلَامَسَةِ النِّسَاءِ، وَأَعْلَمَ فِي خَبَرِ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ الْبَوْلَ وَالنَّوْمَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى الِانْفِرَادِ يُوجِبُ الْوُضُوءَ، وَالْبَائِلُ وَالنَّائِمُ غَيْرُ مُتَغَوِّطٌ وَلَا مُلَامِسِ النِّسَاءِ، وَسَأَذْكُرُ بِمَشِيئَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَوْنِهِ الْأَحْدَاثَ الْمُوجِبَةَ لِلْوُضُوءِ بِحُكْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلَا الْغَائِطِ وَمُلَامَسَةِ النِّسَاءِ اللَّذَيْنِ ذَكَرَهُمَا فِي نَصِّ الْكِتَابِ خِلَافَ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ مِمَّنْ لَمْ يَتَبَحَّرِ الْعِلْمَ أَنَّهُ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَذْكُرَ اللَّهُ حُكْمًا فِي الْكِتَابِ فَيُوجِبَهُ بِشَرْطِ أَنْ يَجِبَ ذَلِكَ الْحُكْمُ بِغَيْرِ ذَلِكَ الشَّرْطِ الَّذِي بَيَّنَهُ فِي الْكِتَابِ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ کسی فرض کو قرآن مجید میں ایک معنی میں واجب کرتا ہے پھر اسی فرض کو دوسرے معنی میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے واجب کر دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق پاخانہ اور عورتوں سے ہمبستری کرنا وضو کو واجب کر دیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر کو پانی کی عدم موجودگی میں پاخانہ اور عورتوں سے ہمبستری کرنے کے بعد تیمّم کرنے کا حُکم دیا ہے۔ لہٰذا کتاب اللہ کے حُکم کے مطابق تندرست آدمی کو پانی کی موجودگی میں پاخانہ اور عورتوں سے ہمبستری کے بعد وضو کرنا پڑے گا کیونکہ پاک مٹی سے تیمّم کرنے کو مسافر اور مریض کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں وضو کا متبادل بنایا گیا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ وضو پاخانے اور عورتوں سے مباشرت کے علاوہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے کہ پیشاب اور نیند میں سے ہر ایک وضو واجب کر دیتا ہے حالانکہ پیشاب کرنے والا اور سونے والا، پاخانہ کرنے اور عورتوں سے ہمبستری کرنے والے کے علاوہ ہیں۔ میں عنقریب اللہ تعالیٰ کی مشئیت اور نصرت سے وضو کو واجب کرنے والے ایسے احداث بیان کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت ہیں اور وہ قرآن مجید میں مذکور احداث پاخانے اور عورتوں سے مباشرت کے علاوہ ہیں۔ اس شخص کے قول کے خلاف، جو معتبر عالم نہیں ہے وہ کہتا ہے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک حکم ذکر کریں اور اسے مشروط واجب کریں، پھر وہی حکم قرآن مجید میں مذکور شرط کے بغیر ہی واجب ہو جائے۔
زر بن حبیش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موزوں پر مسح کرنے کے متعلق دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے زر، کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا کہ علم کی تلاش میں (حاضر ہوا ہوں)۔ انہوں نے فرمایا کہ اے زر، بیشک فرشتے طالب علم کی علمی طلب اور جستجو پر رضامندی اور خوشی کے اظہار کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کی کہ قضائے حاجت کے بعد موزوں پر مسح کرنے کے متعلق میرے دل میں کھٹکا سا ہے، اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں (سنا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جب ہم مسافر ہوں تو جنابت کے سوا اپنے موزے تین دن رات تک نہ اتاریں۔ پاخانہ، پیشاب اور نیند (کی وجہ) سے (اتارنے کی ضرورت نہیں) یہ مخزومی کی روایت ہے۔ احمد بن عبدہ کی روایت میں ہے: ”مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «اسناده حسن، سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب في فضل التوبة والاستغفار وما ذكر من رحمة الله لعباده، رقم: 3535، و سنن نسائی، رقم: 127، ارواء الغليل: 106، سنن ابن ماجه: 471، مسند احمد بن حنبل: 239/4، 240/4، 241، 17394، البيهقي في السننه الكبرى: 557، 574، 1225»
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 17
فوائد:
➊ اس حدیث میں وضو توڑنے والی تین چیزوں پاخانہ، پیشاب اور نیند کا بیان ہے۔ اول الذکر دو چیزوں کے بارے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ پاخانہ اور پیشاب ناقض وضو ہیں البتہ نیند کے ناقض وضو ہونے کے بارے علماء کا اختلاف ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کے متعلق علماء کے آٹھ مختلف مذاہب بیان کیے ہیں، جن میں سے راجح مذہب یہ ہے کہ نیند (جس سے شعور زائل ہو جائے اور ہوش و حواس قائم نہ رہیں، تقلیل و کثیر ہر صورت میں ناقض وضو ہے۔ یہ حسن بصری، مزنی، ابو عبید قاسم بن سلام اور الحق بن راہویہ رحمہ اللہ کا موقف ہے اور ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں بھی اسی مسلک کا قائل ہوں۔ [نيل الاوطار: 208/1]
➋ جس چیز سے غسل واجب ہو جائے، اس سے لامحالہ وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
➌ وضو ٹوٹنے سے موزوں اور جرابوں کا مسح قائم رہتا ہے، لیکن غسل واجب ہونے سے مسح زائل ہو جاتا ہے اور غسل واجب ہونے کی صورت میں تمام بدن کا غسل لازم آتا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 17
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 56
´مدت مسح کا آغاز و اختتام` «. . . وعن صفوان بن عسال رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يامرنا إذا كنا سفرا ؛ ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة، ولكن من غائط وبول ونوم . . .» ”. . . سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ”ہم تین دن اور تین راتیں موزے نہ اتاریں، الایہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے۔ البتہ بیت الخلاء جانے کی صورت میں، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 56]
� لغوی تشریح: «سَفْرًا»”سین“ کے فتحہ اور ”فا“ کے سکون کے ساتھ ہے۔ «مُسَافِرِين» کے معنی میں ہے، «سَافِرٌ» کی جمع ہے جیسے «رَكْبٌ» اور «تَجْرٌ»، «رَاكِبٌ» اور «تَاجِرٌ» کی جمع ہیں۔ «خِفَافٌ» «خُفٌّ» کی جمع ہے۔ «إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ» یہ «أَنْ لَّا نَنْزِعَ» کی نفی سے استثنا ہے۔ جنابت کی حالت لاحق ہونے کی صورت میں موزے اتارنے ضروری ہیں، خواہ ابھی تین دن اور تین راتیں مدت پوری نہ ہوئی ہو، البتہ بول و براز اور نیند کی وجہ سے موزے اتارنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، تین دن اور تین راتیں مدت پوری ہونے پر اتارنا پڑیں گے۔
فوائد و مسائل: ➊ موزوں پر مسح بلا اختلاف جائز ہے۔ ➋ موزوں پر مسح کی روایات بیان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد اسّی (80) کے لگ بھگ ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔ ➌ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے۔ ➍ امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح خفین کی احادیث تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں۔ انکار کرنے والے کے بارے میں ان کا قول ہے کہ مجھے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ ➎ مقیم اور مسافر کی مدت مختلف ہے۔ مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن رات شرعی حد ہے۔ مدت کا آغاز وضو ٹوٹنے کے بعد وضو کرتے وقت پہلے مسح سے شروع ہو گا، موزے پہننے کے وقت سے نہیں، مثلاً: ایک شخص نماز ظہر کے وقت وضو کر کے موزے پہنتا ہے اور اس کا وضو شام کو جا کر ٹوٹتا ہے تو اس کے لیے آغاز مدت وضو کرتے وقت پہلے مسح سے ہو گا نہ کہ وضو ٹوٹنے کے وقت سے۔ ➏ مسح کا طریقہ اس طرح ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے تر کر کے ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے آغاز تک کھینچ لیا جائے۔ ➐ حدث لاحق ہونے (بےوضو ہونے) کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے اور اختتام مدت کے بعد بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ اور بعینہ یہ سارے احکام جرابوں پر مسح کے بھی ہیں۔ اور ہر قسم کی جراب، خواہ موٹی ہو یا باریک، اس پر مسح جائز ہے۔
راوی حدیث: سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ صفوان ”صاد“ کے فتحہ اور ”فا“ کے سکون کے ساتھ ہے۔ «عَسَّال»”عین“ کے فتحہ اور ”سین“ کی تشدید کے ساتھ ہے۔ صفوان بن عسال مرادی جملی، مشہور ومعروف صحابی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑے جانے والے 12 غزوات میں شریک ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے روایت کی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 56
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 127
´مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کے وقت کی تحدید کا بیان۔` زر کہتے ہیں کہ میں نے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: جب ہم مسافر ہوتے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے کہ ہم اپنے موزوں پر مسح کریں، اور اسے تین دن تک پیشاب، پاخانہ اور نیند کی وجہ سے نہ اتاریں سوائے جنابت کے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 127]
127۔ اردو حاشیہ: ➊ موزوں پر مسح حضر اور سفر دونوں حالتوں میں جائز ہے۔ بعض لوگ اسے سفر کے ساتھ خاص کرتے ہیں لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر و حضر دونوں حالتوں میں مسح کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو [ذخيرة العقبي، شرح سنن النسائي: 95-86/3] ➋ چونکہ مسافر کو سفر میں کافی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے لیے مدت مسح زیادہ رکھی گئی۔ عام حالات میں مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی اجازت ہے۔ اگر سفری مشقت زیادہ ہو، قافلے سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہو یا اگر انہیں روکا جائے تو اس وجہ سے وہ اذیت محسوس کریں، یا کوئی ایسی صورت لاحق ہو جائے کہ واقعتاً جرابوں یا موزوں کو اتارنے اور پھر وضو کرنے میں وقت یقینی ہو تو عمومی معینہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے، یہ حالتِ مجبوری میں ایک رخصت ہے۔ اس رخصت کی دلیل سنن ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس مصر سے آئے، انہوں نے پوچھا: تو نے کب سے یہ موزے نہیں اتارے، انہوں نے جواب دیا: جمعے سے جمعے تک، حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے سنت طریقے کو پا لیا ہے۔ دیکھیے: [سنن ابن ماجه، الطھارة، حدیث: 558] بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فتح دمشق کی خوشخبری لے کر آئے تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ مسافر کے لیے تو تین دن رات مسح کرنے کی رخصت ہے جبکہ اس حدیث سے تو ایک ہفتے تک مسح کا جواز بلکہ ضروریات کے تحت مزید ایام کی رخصت ہے، البتہ مذکورہ عذر کی صورت میں زیادہ دیر تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [تيسير الفقه الجامع للاختيارات الفقهية: 159/1، والصحيحة للألباني: 239/6] ➍ مدت مسح وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے شمار ہو گی جیسے کہ مسح کی احادیث کے عموم سے ظاہر ہوتا ہے۔ ➎ مسح وضو میں ہو گا نہ کہ غسل میں۔ اگر غسل فرض ہو جائے تو موزے اتارنے ہوں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 127
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 158
´پاخانہ اور پیشاب سے وضو کا بیان۔` زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے پاس آیا جسے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا، میں ان کے دروازہ پر بیٹھ گیا، تو وہ نکلے، تو انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا: طالب علم کے لیے فرشتے اس چیز سے خوش ہو کر جسے وہ حاصل کر رہا ہو اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، پھر پوچھا: کس چیز کے متعلق پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: دونوں موزوں کے متعلق کہا: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم انہیں تین دن تک نہ اتاریں، الاّ یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے، لیکن پاخانہ، پیشاب اور نیند (تو ان کی وجہ سے نہ اتاریں)۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 158]
158۔ اردو حاشیہ: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نیا کرنا پڑے گا، ورنہ موزے اتارنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔ ➋ بعض کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے پر جھکانے سے مراد تعظیم و احترام ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے: ﴿واخفض لھما جناح الذل من الرحمة﴾[بنی اسرآءیل 24: 17] ”اور ان دونوں (والدین) کے لیے نیاز مندی سے عاجزی کا بازو جھکائے رکھ۔“ واللہ أعلم۔ ➌ اس حدیث میں طالب علم کا شرف و مرتبہ بھی بیان ہوا ہے کہ فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں۔ ➍ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم سے سوال پوچھنے کے لیے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 158
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث478
´جاگنے کے بعد وضو کرنے کا بیان۔` صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اپنے موزوں کو تین دنوں تک جنابت کے سوا پاخانے، پیشاب اور نیند کے سبب نہ اتاریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 478]
اردو حاشہ: (1) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح پیشاب یا پاخانے کے بعد وضو کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نیند کے بعد بھی وضو کی ضرورت ہوتی ہے۔
(2) وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہیں لیکن اگر موزے پہنے ہوئے ہوں توان پر مسح کرلینا کافی ہے بشرطیکہ پہننے سے پہلے پورا وضو کیا ہو، اور اس میں پاؤں بھی دھوئے ہوئے ہوں۔ ((صحيح مسلم، الطهارة، باب المسح علي الخفين، حديث: 272)
(3) تین دن کی یہ مدت مسافر کے لیے ہے۔ مقیم صرف ایک دن رات تک مسح کرسکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے (موزوں پر مسح کے لیے) مسافر کے لیے تین دن رات کی مدت مقرر فرمائی ہے اور مقیم کے لیے ایک دن رات کی۔ (صحیح مسلم، الطھارۃ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین، حدیث: 276)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 478
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 96
´مسافر اور مقیم کے مسح کی مدت کا بیان۔` صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک، پیشاب، پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 96]
اردو حاشہ: 1؎: یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدّت کی تحدید پر دلالت کرتی ہے: مسافر کے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات، یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہوگی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے، حدث لاحق ہونے کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے، نیز مدّت ختم ہو جانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 96
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3535
´توبہ و استغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کا بیان۔` زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی الله عنہ کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا، انہوں نے (مجھ سے) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے، میں نے کہا: علم کی تلاش و طلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے کہا: فرشتے علم کی طلب و تلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں، میں آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3535]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3535
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3536
´توبہ و استغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کا بیان۔` زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی الله عنہ کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تمہیں کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ ”فرشتے طالب علم کے کام (و مقصد) سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں“، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: میرے جی میں یہ خیال گزرا یا میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ بات کھٹکی، تو کیا اس بارے میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یاد ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ہم جب سفر میں ہوں (یا سفر کرنے و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3536]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: (الأنعام:158)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3536