وهو من الجنس الذي قد اعلمت ان الله قد يوجب الحكم في كتابه بشرط، ويوجبه على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم بغير ذلك الشرط، إذ الله عز وجل لم يذكر في آية الوضوء المذي، والنبي صلى الله عليه وسلم قد اوجب الوضوء من المذي، واتفق علماء الامصار قديما وحديثا على إيجاب الوضوء من المذيوَهُوَ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي قَدْ أَعْلَمْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ يُوجِبُ الْحُكْمَ فِي كِتَابِهِ بِشَرْطٍ، وَيُوجِبُهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِغَيْرِ ذَلِكَ الشَّرْطِ، إِذِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَذْكُرْ فِي آيَةِ الْوُضُوءِ الْمَذْيَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَوْجَبَ الْوُضُوءَ مِنَ الْمَذْيِ، وَاتَّفَقَ عُلَمَاءُ الْأَمْصَارِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا عَلَى إِيجَابِ الْوُضُوءِ مِنَ الْمَذْيِ
یہ حکم اسی قسم سے ہے جسے میں نے بیان کیا تھا کہ کبھی اللہ تعالیٰ ایک حکم کو اپنی کتاب میں مشروط واجب کرتا ہے پھر اسی حکم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے غیر مشروط واجب کر دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیتِ وضو میں مذی کا ذکر نہیں کیا جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذی سے وضو واجب قرار دیا ہے۔ تمام شہروں کے قدیم و جدید علماء کا اتفاق ہے کہ مذی سے وضو واجب ہو جاتا ہے۔
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ مذی والا شخص تھا، میں نے (اس بارے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پُوچھنے میں شرم محسوس کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھی، میں نے ایک آدمی کو (یہ مسئلہ پوچھنے کا) حکم دیا تو اُس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ مسئلہ) پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مذی (نکلنے) سے وضو کرنا ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «صحیح بخارى، كتاب العلم، باب من استحيا فامر غيره بالسؤال رقم: 132، 178، 269، سنن نسائی، رقم: 152، مسند: احمد: 125/1، امن طريق أبى حصین، ابن ماجه رقم: 504، ارواء الغليل 47 - 125»