وحدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، انه كان يقول: لو رايت الظباء بالمدينة ترتع ما ذعرتها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بين لابتيها حرام" وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ بِالْمَدِينَةِ تَرْتَعُ مَا ذَعَرْتُهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا حَرَامٌ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے: اگر میں ہرنوں کو چرتے ہوئے دیکھوں مدینہ میں تو ہرگز نہ چھیڑوں ان کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ کے دونوں کنارے حرام ہیں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1869، 1873، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1372، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3751، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 4272، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3921، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10063، 10064، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7217، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 11»
وحدثني مالك، عن يونس بن يوسف ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي ايوب الانصاري ، انه وجد غلمانا قد الجئوا ثعلبا إلى زاوية فطردهم عنه، قال مالك: لا اعلم إلا انه قال: " افي حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع هذا؟" وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يُونُسَ بْنِ يُوسُفَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنَّهُ وَجَدَ غِلْمَانًا قَدْ أَلْجَئُوا ثَعْلَبًا إِلَى زَاوِيَةٍ فَطَرَدَهُمْ عَنْهُ، قَالَ مَالِك: لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " أَفِي حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْنَعُ هَذَا؟"
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے لڑکوں کو دیکھا انہوں نے ایک لومڑی کو گھیر رکھا تھا ایک کونے میں، تو آپ نے لڑکوں کو ہنکا دیا اور لومڑی کو چھوڑ دیا (کیونکہ مدینہ کے جانور کو پکڑنا حرام ہے جیسے مکّہ میں)۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے یہ کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں ایسا کام ہوتا ہے؟
وحدثني وحدثني يحيى، عن مالك، عن رجل ، قال: دخل علي زيد بن ثابت وانا بالاسواف" قد اصطدت نهسا، فاخذه من يدي فارسله" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَنَا بِالْأَسْوَافِ" قَدْ اصْطَدْتُ نُهَسًا، فَأَخَذَهُ مِنْ يَدِي فَأَرْسَلَهُ"
ایک شخص (شرجیل بن سعد) سے روایت ہے کہ میرے پاس سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آئے اور میں اسواف (ایک موضع ہے اطراف مدینہ میں) میں تھا، اور میں نے شکار کیا تھا ایک چڑیا کا۔ انہوں نے میرے ہاتھ سے اس کو لے کر چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10083، 10084، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21909، والحميدي فى «مسنده» برقم: 404، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17148، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 37378، والطبراني فى «الكبير» برقم: 4910، 4911، وابن عبدالبر فى ”الاستذكار“ برقم: 40/26-41، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 13»
وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ام المؤمنين، انها قالت: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك ابو بكر، وبلال، قالت: فدخلت عليهما، فقلت: يا ابت كيف تجدك؟ ويا بلال كيف تجدك؟ قالت: فكان ابو بكر إذا اخذته الحمى، يقول: كل امرئ مصبح في اهله والموت ادنى من شراك نعله وكان بلال إذا اقلع عنه يرفع عقيرته، فيقول: الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل؟ وهل اردن يوما مياه مجنة؟ وهل يبدون لي شامة وطفيل قالت عائشة: فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال: " اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة او اشد، وصححها وبارك لنا في صاعها ومدها، وانقل حماها فاجعلها بالجحفة" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ، وَبِلَالٌ، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِمَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ وَيَا بِلَالُ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَتْ: فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى، يَقُولُ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْهُ يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ، فَيَقُولُ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ؟ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجِنَّةٍ؟ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ" .
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کو بخار آیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس گئیں اور کہا: اے میرے باپ! کیا حال ہے؟ اے بلال! کیا حال ہے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب بخار آتا تو وہ ایک شعر پڑھتے، جس کا ترجمہ یہ ہے: ہر آدمی صبح کرتا ہے اپنے گھر میں، اور موت اس سے نزدیک ہوتی ہے اس کے جوتی کے تسمے سے۔ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار اترتا تو اپنی آواز نکالتے اور پکار کر کہتے: کاش کہ مجھے معلوم ہوتا کہ میں ایک رات پھر مکّہ کی وادی میں رہوں گا، اور میرے گرد اذخر اور جلیل ہوں گی (اذخر اور جلیل دونوں گھاس ہیں مکّہ کی)، اور کبھی میں پھر اتروں گا مجنہ کے پانی پر (مجنہ ایک جگہ ہے کئی میل پر مکّہ سے، وہاں زمانۂ جاہلیت میں بازار تھے)، اور کبھی پھر دکھلائی دیں گے مجھے شامہ طفیل (دو پہاڑ ہیں مکّہ سے تیس میل پر، یا دو چشمے ہیں)۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ باتیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر بیان کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے پروردگار! محبت ڈال دے ہمارے دلوں میں مدینہ کی جتنی محبت تھی مکّہ کی یا اس سے بھی زیادہ، اور صحت اور تندرستی کر دے مدینہ میں، اور برکت دے اس کے صاع اور مد میں، اور دور کر دے بخار وہاں کا، اور بھیج دے اس بخار کو جحفہ میں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1889، 3926، 5654، 5677، 6372، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1376، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3724، 5600، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4257، 4258، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6690، وأحمد فى «مسنده» برقم: 26771، والحميدي فى «مسنده» برقم: 225، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 26562، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1303، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 14»
عن يحيى بن سعيد، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: وكان عامر بن فهيرة يقول: قد رايت الموت قبل ذوقه... إن الجبان حتفه من فوقه.عَنْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: وَكَانَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ يَقُولُ: قَدْ رَأَيْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهْ... إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِنْ فَوْقِهْ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عامر بن فہیرہ کہتے تھے: میں نے موت کو مرنے سے آگے دیکھ لیا ... نامرد کی موت اوپر سے آتی ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه النسائي فى «الكبريٰ» برقم: 4272، 7519، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5600، والحميدي فى «مسنده» برقم: 223، دلائل النبوة للبيھقي: 566/2، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 15»
وحدثني، عن مالك، عن نعيم بن عبد الله المجمر ، عن ابي هريرة ، انه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " على انقاب المدينة ملائكة لا يدخلها الطاعون ولا الدجال" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَى أَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ لَا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”مدینہ کی راہوں پر فرشتے ہیں، اس میں نہ طاعون آتا ہے، نہ دجال۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1880، 5731، 7133، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1379، 1386، 1387، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3737، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8724، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4254، 4259، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3114، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7233، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17154، 17155، 17156، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 5465، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 16»
وحدثني، عن مالك، عن إسماعيل بن ابي حكيم ، انه سمع عمر بن عبد العزيز ، يقول: كان من آخر ما تكلم به رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان قال: " قاتل الله اليهود، والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مساجد، لا يبقين دينان بارض العرب" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَكِيمٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، يَقُولُ: كَانَ مِنْ آخِرِ مَا تَكَلَّمَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ قَالَ: " قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ، لَا يَبْقَيَنَّ دِينَانِ بِأَرْضِ الْعَرَبِ"
حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری کلام یہ فرمایا: ”اللہ جل جلالہُ تباہ کرے یہود اور نصاریٰ کو، انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجدیں بنایا۔ آگاہ رہو عرب میں دو دین نہ رہیں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11856، 18818، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2205، دلائل النبوة للبيهقي برقم: 204/7، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9987، 19368، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5960 شیخ سلیم ہلالی نے اس روایت کو صحیح لغیرہ کہا ہے، کیونکہ اس روایت کے متعدد شواہد موجود ہیں جنہیں علامہ الابانی ؒ نے تحذیر المساجد میں ص 11- 23 میں جمع کیا ہے۔، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 17»
وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يجتمع دينان في جزيرة العرب" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ" .
ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جزیرۂ عرب میں دو دین نہ رہیں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11743، 18819، والبزار فى «مسنده» برقم: 7786، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7208، 9984، 9990، 14468، 19359، 19367، 19369 شیخ سلیم ہلالی نے اس روایت کو صحیح لغیرہ کہا ہے کیونکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی روایت حسن سند کے ساتھ مروی ہے جو اس کی شاہد ہے: دیکھئے أحمد " 274/6، طبرانی فی المعجم الأوسط: 1066۔ سیرۃ ابن ھشام، نصب «الراية» : 454/3۔، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 18»
قال مالك: قال ابن شهاب: ففحص عن ذلك عمر بن الخطاب حتى اتاه الثلج واليقين ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يجتمع دينان في جزيرة العرب"، فاجلى يهود خيبر. قال مالك: وقد اجلى عمر بن الخطاب يهود نجران وفدك، فاما يهود خيبر فخرجوا منها ليس لهم من الثمر ولا من الارض شيء، واما يهود فدك فكان لهم نصف الثمر ونصف الارض، لان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان صالحهم على نصف الثمر ونصف الارض، فاقام لهم عمر نصف الثمر ونصف الارض قيمة من ذهب وورق وإبل وحبال واقتاب، ثم اعطاهم القيمة واجلاهم منهاقَالَ مَالِك: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَفَحَصَ عَنْ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حَتَّى أَتَاهُ الثَّلْجُ وَالْيَقِينُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ"، فَأَجْلَى يَهُودَ خَيْبَرَ. قَالَ مَالِك: وَقَدْ أَجْلَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَهُودَ نَجْرَانَ وَفَدَكَ، فَأَمَّا يَهُودُ خَيْبَرَ فَخَرَجُوا مِنْهَا لَيْسَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ وَلَا مِنَ الْأَرْضِ شَيْءٌ، وَأَمَّا يَهُودُ فَدَكَ فَكَانَ لَهُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ وَنِصْفُ الْأَرْضِ، لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ صَالَحَهُمْ عَلَى نِصْفِ الثَّمَرِ وَنِصْفِ الْأَرْضِ، فَأَقَامَ لَهُمْ عُمَرُ نِصْفَ الثَّمَرِ وَنِصْفَ الْأَرْضِ قِيمَةً مِنْ ذَهَبٍ وَوَرِقٍ وَإِبِلٍ وَحِبَالٍ وَأَقْتَابٍ، ثُمَّ أَعْطَاهُمُ الْقِيمَةَ وَأَجْلَاهُمْ مِنْهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابن شہاب نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کا تجسس کیا، جب ان کی تشفّی ہوگئی اور یقین ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جزیرۂ عرب میں دو دین نہ رہیں“ تو انہوں نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر سے نکال دیا، اور فدک اور نجران کے یہودیوں کو بھی نکال دیا، لیکن خیبر کے یہودی ان کی نہ زمین تھی نہ درخت، اور فدک کے یہودیوں کا آدھا میوہ تھا اور آدھی زمین، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر پر ان سے صلح کر لی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس آدھی زمین اور میوے کی قیمت لگا کر ان کے حوالے کر دی اور ان کو نکال دیا۔
وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم طلع له احد، فقال: " هذا جبل يحبنا ونحبه" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ، فَقَالَ: " هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ"
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اُحد کو دیکھ کر: ”یہ پہاڑ ہم کو چاہتا ہے، ہم بھی اسے چاہتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2889، 2893، 3367، 4084، 5425، 6363، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1365، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17169، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 37928، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3922، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12538، فواد عبدالباقي نمبر: 45 - كِتَابُ الْجَامِعِ-ح: 20»