9. باب: بعد استبرأ کے قیدی عورت سے صحبت کرنا درست ہے اگرچہ اس کا شوہر بھی موجود ہو بمجرد قید ہونے کے نکاح ٹوٹ جانے کا بیان۔
Chapter: It is permissible to have intercourse with a female captive after it is established that she is not pregnant, and if she has a husband, then her marriage is annulled when she is captured
یزید بن زُرَیع نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سعید بن ابوعروبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوخلیل صالح سے، انہوں نے ابوعلقمہ ہاشمی سے اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حنین کے دن (جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوطاس کی جانب ایک لشکر بھیجا، ان کا دشمن سے سامنا ہوا، انہوں نے ان (دشمنوں) سے لڑائی کی، پھر ان پر غالب آ گئے اور ان میں سے کنیزیں حاصل کر لیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض لوگوں نے ان کے مشرک خاوندوں (کی موجودگی) کی بنا پر ان سے مجامعت کرنے میں حرج محسوس کیا، اس پر اللہ عزوجل نے اس کے بارے میں (یہ آیت) نازل فرمائی: "اور شادی شدہ عورتیں (بھی حرام ہیں) سوائے ان (لونڈیوں) کے جن کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ ہوں۔" یعنی جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو (تمہاری لونڈیاں بن جانے کی بنا پر) وہ تمہارے لیے حلال ہیں
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر ایک لشکر وادی اوطاس کی طرف روانہ کیا، ان کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا اور باہمی جنگ کے نتیجہ میں مسلمان ان پر غالب آ گئے اور ان کی عورتوں کو قید کر لیا، تو گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ساتھیوں نے، ان کے مشرک خاوند موجود ہونے کی وجہ سے ان سے صحبت کرنا گناہ خیال کیا۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (شادی شدہ عورتیں تمہارے لیے جائز نہیں ہیں مگر جو عورتیں تمہارے قبضہ میں آ جائیں وہ۔)(سورۃ النساء: 24)
عبدالاعلی نے ہمیں سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے ابوخلیل سے روایت کی کہ ابوعلقمہ ہاشمی نے حدیث بیان کی، انہیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن ایک سریہ بھیجا۔۔۔ (آگے) یزید بن زریع کی حدیث کے ہم معنی ہے لیکن انہوں نے کہا: سوائے ان (لونڈیوں) کے جن کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ ہوں، وہ تمہارے لیے حلال ہیں۔ اور انہوں نے "جب ان کی عدت پوری ہو جائے" کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔ (اس سریہ میں جو کنیزیں ہاتھ آئیں یہ واقعہ ان کے بارے میں ہے
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے موقع پر ایک دستہ بھیجا، مذکورہ روایت بیان کی، مگر اس روایت میں یہ ہے، شادی شدہ عورتوں میں سے جو تمہارے ملک (قبضہ) میں آ جائیں، وہ تمہارے لیے حلال ہیں۔ لیکن عدت کے خاتمہ کا ذکر نہیں کیا۔
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوخلیل سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: اوطاس کے دن صحابہ کو لونڈیاں ملیں جن کے خاوند بھی تھے، اس پر وہ (ان سے تعلقات، قائم کرتے ہوئے) ڈرے (کہ یہ گناہ نہ ہو) اس پر یہ آیت نازل کی گئی: "اور شادی شدہ عورتیں (بھی حرام ہیں) سوائے ان (لونڈیوں) کے جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہو جائیں
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جنگ اوطاس کے دن ایسی عورتوں کو قیدی بنایا جن کے خاوند موجود تھے، اس لیے ان سے صحبت سے اندیشہ محسوس کیا تو یہ آیت اتاری گئی: (اور شادی شدہ عورتیں تم پر حرام ہیں، مگر وہ عورتیں جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔)
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث. ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة ، انها قالت: اختصم سعد بن ابي وقاص، وعبد بن زمعة في غلام، فقال سعد: هذا يا رسول الله، ابن اخي عتبة بن ابي وقاص، عهد إلي انه ابنه انظر إلى شبهه؟ وقال عبد بن زمعة: هذا اخي يا رسول الله، ولد على فراش ابي من وليدته، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شبهه فراى شبها بينا بعتبة، فقال: " هو لك يا عبد، الولد للفراش، وللعاهر الحجر، واحتجبي منه يا سودة بنت زمعة "، قالت: فلم ير سودة قط، ولم يذكر محمد بن رمح، قوله: يا عبد،حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ. ح وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْح ، أَخْبَرَنا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَت: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي غُلَامٍ، فقَالَ سَعْدٌ: هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ؟ وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: هَذَا أَخِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ وَلِيدَتِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَبَهِهِ فَرَأَى شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فقَالَ: " هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتَ زَمْعَةَ "، قَالَت: فَلَمْ يَرَ سَوْدَةَ قَطُّ، وَلَمْ يَذْكُرْ مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، قَوْلَهُ: يَا عَبْدُ،
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رُمح نے کہا: لیث نے ہمیں ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما نے ایک لڑکے کے بارے میں جھگڑا کیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے، اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ اس کا بیٹا ہے، آپ اس کی مشابہت دیکھ لیں۔ عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے، اللہ کے رسول! یہ میرے باپ کی لونڈی سے اسی کے بستر پر پیدا ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشابہت دیکھی تو آپ نے واضھ طور پر عتبہ کے ساتھ مشابہت (بھی) محسوس کی، اس کے بعد آپ نے فرمایا: "عبد! یہ تمہارا (بھائی) ہے۔ (اس کا سبب یہ ہے کہ) بچہ صاحب فراش کا ہے، اور زنا کرنے والے کے لیے پتھر (ناکامی اور محرومی) ہے۔ اور سودہ بنت زمعہ! (تم) اس سے پردہ کرو۔" اس کے بعد اس نے کبھی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو نہیں دیکھا۔ اور محمد بن رمح نے آپ کے الفاظ "یا عبد" ذکر نہیں کیے
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بچے کے بارے میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد بن زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھگڑا کیا۔ حضرت سعد نے کہا، یہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بھائی کا بیٹا ہے اور میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص نے مجھے یہ تلقین کی تھی کہ یہ میرا بیٹا ہے، آپ اس کی (عتبہ سے) مشابہت پر نظر دوڑا لیں، اور عبد بن زمعہ نے کہا، یہ میرا بھائی ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے باپ کے بستر پر، اس کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شکل و شباہت پر نظر ڈالی، اور عتبہ کے ساتھ واضح مشابہت دیکھی، اور فرمایا: اے عبد، یہ تجھے ملے گا۔ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے نا کامی ہے اور ”اے سودہ تم اس سے پردہ کرو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں اس لڑکے نے کبھی حضرت سودہ کو نہیں دیکھا۔ محمد بن رمح کی روایت میں یا عبد کا لفظ نہیں ہے۔
سفیان بن عیینہ اور معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی۔ لیکن معمر اور ابن عیینہ کی حدیث میں ہے: "بچہ صاحب فراش کا ہے" اور ان دونوں نے "زانی کے لیے پتھر ہے" کے الفاظ ذکر نہیں کیے
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی سند سے زہری کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں، لیکن مذکورہ بالا حدیث سے اس حدیث میں یہ فرق ہے کہ معمر اور ابن عیینہ دونوں نے (اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشْ)
معمر نے زہری سے خبر دی، انہوں نے ابن مسیب اور ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچہ بستر والے کا ہے اور زانی کے لیے پتھر (ناکامی اور محرومی) ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکا بستر کا ہے اور زانی کے لیے ناکامی ہے۔“
سعید بن منصور، زہیر بن حرب، عبدالاعلیٰ بن حماد اور عمرو ناقد سب نے کہا: ہمیں سفیان نے زہری سے خبر دی۔ ابن منصور نے کہا: سعید نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ عبدالاعلی نے کہا: ابوسلمہ سے یا سعید سے روایت ہے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ زہیر نے کہا: سعید یا ابوسلمہ نے ان دونوں میں سے ایک نے یا دونوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ اور عمرو نے ایک بار کہا: ہمیں سفیان نے زہری کے حوالے سے سعید اور ابوسلمہ سے، اور ایک بار کہا: سعید یا ابوسلمہ سے، اور ایک بار کہا: سعید نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔۔ (آگے) جس طرح معمر کی حدیث ہے
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن ان میں یہ اختلاف ہے کہ یہ ابو ہریرہ کے کس شاگرد کی روایت ہے سعید بن المسیب کی یا ابو سلمہ کی یا دونوں کی، یا ان میں سے کسی ایک کی۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، ومحمد بن رمح ، قال: اخبرنا الليث. ح وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة ، انها قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل علي مسرورا تبرق اسارير وجهه، فقال: " الم تري ان مجززا نظر آنفا، إلى زيد بن حارثة، واسامة بن زيد "، فقال: إن بعض هذه الاقدام لمن بعض.حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْح ، قَالَ: أَخْبَرَنا اللَّيْثُ. ح وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَت: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فقَالَ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ آنِفًا، إِلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ "، فقَالَ: إِنَّ بَعْضَ هَذِهِ الْأَقْدَامِ لَمِنْ بَعْضٍ.
لیث نے ہمیں ابن شہاب سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش خوش میرے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے (پیشانی) کے خطوط چمک رہے تھے، آپ نے فرمایا: "تم نے دیکھا نہیں کہ ابھی ابھی (بنو مدلج کے قیافہ شناس) مُجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو دیکھا ہے، اور کہا ہے: ان قدموں میں سے ایک (قدم) دوسرے میں سے ہے۔" (ایک بیٹے کا ہے، دوسرا باپ کا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے خطوط دمک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مجزز نے ابھی زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ تعلیٰ عنہ کو دیکھ کر کہا، یہ قدم ایک دوسرے کا جز اور حصہ ہیں۔“