وحدثني وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عطاء ، عن ابي صالح الزيات ، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال الله عز وجل: " كل عمل ابن آدم له إلا الصيام، فإنه لي وانا اجزي به، والصيام جنة، فإذا كان يوم صوم احدكم، فلا يرفث يومئذ ولا يسخب، فإن سابه احد او قاتله، فليقل: إني امرؤ صائم "، والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم، اطيب عند الله يوم القيامة من ريح المسك، وللصائم فرحتان يفرحهما: إذا افطر فرح بفطره، وإذا لقي ربه فرح بصومه.وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الزَّيَّاتِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ، فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَسْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ "، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ، أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ بِفِطْرِهِ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
عطاء نے ابو صالح الزیا ت سے روایت کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل نے فرمایا: ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا۔اور روزہ ڈھال ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ اس دن فحش گفتگو نہ کرے اور نہ شور وغل کرے۔اگر کوئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے: میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جا ن ہے!قیامت کے دن روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہو گی۔اور روزہ دار کے لیے دوخوشی کے موقع ہیں وہ ان دونوں پر خوش ہو تا ہے: جب وہ (روزہ) افطار کرتا ہے تو اپنے افطار سے خوش ہو تا ہے اور جب اپنے رب کو ملے گا تو اپنے روزے (کی وجہ) سے خوش ہو گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزو جل کا فرمان ہے ابن آدم انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے مگر روزہ کیونکہ وہ میرے لیے ہے تو میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو تو اس دن وہ بیہودہ اور فحش گفتگو نہ کرے اور نہ شور شغب کرے، پس اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرنے کی کوشش کرے تو وہ کہہ دے میں روزہ دار ہوں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے روزہ دار کی منہ کی بو قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہو گی اور روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں جو اس کے لیے شادمانی کا باعث بنتی ہیں جب وہ روزہ کھولتا ہے تو اپنے فطرسے خوش ہوتا ہے، نمبر2 اور جب اپنے رب کو ملے گا تو اپنے روزہ کی وجہ سے خوش ہو گا۔"
اعمش نے ابو صالح سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہاؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ؒابن آدم کا ہر عمل بڑھا یا جا تا ہے۔نیکی دس گنا سے ساتھ سو گنا تک (بڑھا دی جا تی ہے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سوائے روزے کے (کیونکہ) وہ (خالصتاً) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔وہ میری خاطر اپنی خواہش اور اپنا کھا نا پینا چوڑ دیتا ہے۔روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس کے (روزہ) افطار کرنے کے وقت کی اور (دوسری) خوشی اپنے رب سے ملا قات کے وقت کی۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند یدہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے ہر اچھے عمل کا اجر دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے مگر روزہ کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا میری خاطر بندہ اپنی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑتا ہے روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں ایک مسرت افطار کے وقت اور دوسری مسرت اللہ کی بارگاہ میں شرف باریابی کے وقت اور اس کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔“
وحدثنا وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن ابي سنان ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، وابي سعيد رضي الله عنهما، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل يقول: " إن الصوم لي وانا اجزي به، إن للصائم فرحتين: إذا افطر فرح، وإذا لقي الله فرح "، والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك،وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: " إِنَّ الصَّوْمَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، إِنَّ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَيْنِ: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ اللَّهَ فَرِحَ "، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ،
محمد بن فضیل نے ابو سنان سے، انھوں نے ابو صالح سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، ان دونوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل فر ماتا ہے۔بلا شبہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔بلا شبہ روزہ دار کے لیے دوخوشیاں ہیں: جب وہ (روزہ) افطار کرتا ہے خوش ہو تا ہے۔اور جب وہ اللہ سے ملا قات کرے گا۔خوش ہو گا، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے!اللہ کے ہاں، روزہ دار کے منہ کی بو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل کا ارشاد ہے بلا شبہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جب روزہ افطار کرتا ہے خوش ہوتا ہے اور جب اللہ سے ملاقات ہو گی خوش ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے روزہ دار کی منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔“
عبد العزیز بن مسلم نے کہا: ہمیں ضرار بن مرہ (ابوسنان) نے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے ما نند) حدیث سنائی، کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب وہ اللہ سے ملے گا اور اللہ اس کو اجرو ثواب عطا کرے گا تو وہ خوش ہو گا۔
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے ابو سنان ضرار بن مرہ کی ہی سند سے بیان کرتے ہیں اس میں ہے۔ ”جب اللہ کے حضور شرف باریابی ملے گا اور وہ اسے اجرو ثواب سے نوازے گا خوش ہو گا۔“
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں ایک (ایسا) دروازہ ہے جسے "الریان"کہا جا تا ہے قیامت کے دن اس میں سے روزہ دار داخل ہوں گے ان کے ساتھ ان کے سوا کوئی اور داخل نہیں ہوں گے۔جب ان میں سے آخری (فرد) داخل ہو جا ئے گا۔تو وہ (دروازہ بند کر دیا جا ئے گا، اس کے بعدکوئی اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔"
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک خاص دروازہ ہے جسے ”الریان“ کہا جاتا ہے اس سے قیامت کے دن صرف روزہ دار داخل ہوں گے، ان کے سوا کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ پکارا جائے گا کہاں ہیں روزہ دار؟ تو وہ اس سے داخل ہوں گے جب ان کا آخری فرد داخل ہو جائے گا دروازہ بند ہو جائے گا تو اس سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا۔“
ابن ہاد نے سہیل بن ابی صالح سے، انھوں نے نعمان بن ابی عیاش سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کوئی شخص نہیں جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے مگر اللہ تعا لیٰ اس دن (کے روزے) بدلے اس کے چہرے کو (جہنم کی) آگ سے ستر سال کی مسافت تک دورکردے گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ اس ایک روزے کے عوض اس کے چہرے (ذات) کو جہنم کی آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دے گا۔“
ابن جریج نے یحییٰ بن سعید اور سہیل بن ابی صالح سے خبر دی کہ ان دونوں نے نعمان بن عیاش زرقی صالح سے خبر دی کہ ان دونوں نے نعمان بن عیاش زرقی سے سنا، وہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیثبیان کر رہے تھے۔کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: "جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعا لیٰ اس کے چہرے کو (جہنم کی) آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کردے گا۔“
32. باب: زوال سے قبل نفلی روزے کی نیت کا جواز اور بلاعذر اس کے توڑ دینے کا بیان، اور بہتر یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جائے۔
Chapter: It is permissible to observe a voluntary fast with an intention formed during the day before the sun reaches its Zenith, and it is permissible for one who is observing a voluntary fast to break his fast with no excuse, although it is better for him to complete it
وحدثنا ابو كامل فضيل بن حسين ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا طلحة بن يحيى بن عبيد الله ، حدثتني عائشة بنت طلحة ، عن عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها، قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم: " يا عائشة، هل عندكم شيء؟ "، قالت: فقلت: يا رسول الله، ما عندنا شيء، قال: " فإني صائم "، قالت: فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاهديت لنا هدية، او جاءنا زور، قالت: فلما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، اهديت لنا هدية او جاءنا زور، وقد خبات لك شيئا، قال: " ما هو؟ "، قلت: حيس، قال: " هاتيه "، فجئت به، " فاكل "، ثم قال: " قد كنت اصبحت صائما "، قال طلحة فحدثت مجاهدا بهذا الحديث، فقال: ذاك بمنزلة الرجل يخرج الصدقة من ماله فإن شاء امضاها، وإن شاء امسكها.وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: " يَا عَائِشَةُ، هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ، قَالَ: " فَإِنِّي صَائِمٌ "، قَالَتْ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، وَقَدْ خَبَأْتُ لَكَ شَيْئًا، قَالَ: " مَا هُوَ؟ "، قُلْتُ: حَيْسٌ، قَالَ: " هَاتِيهِ "، فَجِئْتُ بِهِ، " فَأَكَلَ "، ثُمَّ قَالَ: " قَدْ كُنْتُ أَصْبَحْتُ صَائِمًا "، قَالَ طَلْحَةُ فَحَدَّثْتُ مُجَاهِدًا بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: ذَاكَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يُخْرِجُ الصَّدَقَةَ مِنْ مَالِهِ فَإِنْ شَاءَ أَمْضَاهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا.
عبدالواحد بن زیاد نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں طلحہ بن یحییٰ نے حدیث سنائی، (انھوں نے کہا:) مجھے عائشہ بنت طلحۃ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث سنائی، کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے عائشہ!کیا تمھارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟"کہا: تو میں نے عرض کی!اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس کوئی چیز نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو (پھر) میں روزے سے ہوں۔"اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس ہدیہ بھیجاگیا یا ہمارے پاس ملاقاتی (جو ہدیہ لائے) آگئے۔کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمیں ہدیہ دیا گیا ہے۔یا ہمارے پاس مہمان آئے۔اورمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ محفوظ کرکے رکھا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟"میں نے عرض کی: وہ حیس (کھجور، گھی اورپنیر سے بنا ہوا کھانا) ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے لایئے"تو میں اسے لے آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے ر وزے کی حالت میں صبح کی تھی۔" طلحہ نے کہا: میں نے یہ حدیث مجاہد کو سنائی تو انھوں نے کہا: یہ اس آدمی کی طرح ہے جو ا پنے مال سے صدقہ نکالتا ہے، اگر وہ چاہے تو دے دے اور اگر وہ چاہے تو اس کو روک لے۔
حضرت اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟“ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں روزہ دار ہوں۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو ہمارے پاس تحفہ بھیجا گیا یا ہمارے پاس مہمان آ گئے (ان کے پاس ہدیہ تھا یا ان کی خاطر ہدیہ پہنچا) تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس ہدیہ آیا ہے یا ہمارے پاس مہمان آئے ہیں اور میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کچھ چھپا رکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: وہ حیس ہے (کھجور،گھی اور پنیر کا آمیزہ) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لائیے۔“ تو میں اسے لے آئی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کھا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں روزے سے تھا۔“ طلحہ کہتے ہیں اس نے یہ حدیث مجاہد کو سنائی تو اس نے کہا: یہ ایسا ہی ہے کہ ایک آدمی اپنے مال سے نفلی صدقہ لاتا ہے تو اس کی مرضی ہے اس کو صدقہ کردے یا روک لے۔