(سعید بن مسیب کے بجائے) ابو یونس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت سے ستر ہزار افراد جنت میں داخل ہوں گے، چاند کی سی صورت میں، ان کا ایک گروہ ہو گا۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار افراد جنت میں داخل ہوں گے، ایک ہی گروہ چاند سی صورت و شکل پر۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (15468)»
حدثنا يحيى بن خلف الباهلي ، حدثنا المعتمر ، عن هشام بن حسان ، عن محمد يعني ابن سيرين ، قال: حدثني عمران ، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " يدخل الجنة من امتي سبعون الفا بغير حساب، قالوا: ومن هم يا رسول الله؟ قال: هم الذين لا يكتوون، ولا يسترقون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عكاشة، فقال: ادع الله ان يجعلني منهم، قال: انت منهم، قال: فقام رجل، فقال: يا نبي الله، ادع الله ان يجعلني منهم، قال: سبقك بها عكاشة.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيرِينَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِمْرَانُ ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ، قَالُوا: وَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: أَنْتَ مِنْهُمْ، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ.
محمد بن سیرین نے کہا کہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزا اشخاص حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہیں جو داغنے کے عمل سے علاج نہیں کراتے، نہ دم ہی کراتے ہیں اور اپنے رب پر کامل بھروسہ کرتے ہیں۔“ عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان میں (شامل) کر دے۔آپ نے فرمایا: ”تم ان میں سے ہو۔“(عمران رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا او رکہنے لگا: اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے (بھی) ان میں (شامل) کر دے، آپ نے فرمایا: ”اس میں عکاشہ تم سے سبقت لے گئے۔“
حضرت عمران ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار (70000) اشخاص بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو داغ نہیں لگاتے، نہ دم کرواتے ہیں اور اپنے رب پر اعتماد کرتے ہیں۔“ تو عکاشہؓ کھڑے ہو کر کہنے لگے: اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان میں سے ہے۔“ تو ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجیے! کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (10841)»
حکم بن اعرج نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میری امت کے ستر ہزار لوگ حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: ا ے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہیں جو دم نہیں کرواتے، شگون نہیں لیتے، داغنے کے ذریعے سے علاج نہیں کرواتے او راپنے رب پر پورا بھروسہ کرتے ہیں۔“
عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار افراد بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ جو دم نہیں کرواتے، نہ بد شگونی پکڑتے ہیں اور نہ داغ لگواتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (10819)»
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي حازم ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ليدخلن الجنة من امتي سبعون الفا، او سبع مائة الف، لا يدري ابو حازم ايهما، قال: متماسكون، آخذ بعضهم بعضا، لا يدخل اولهم حتى يدخل آخرهم، وجوههم على صورة القمر ليلة البدر ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا، أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ، لَا يَدْرِي أَبُو حَازِمٍ أَيَّهُمَا، قَالَ: مُتَمَاسِكُونَ، آخِذٌ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، لَا يَدْخُلُ أَوَّلُهُمْ حَتَّى يَدْخُلَ آخِرُهُمْ، وُجُوهُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ".
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (ابو حازم کو شک ہے کہ سہل رضی اللہ عنہ نے کون سا عدد بتایا) اس طرح جنت میں داخل ہوں گے کہ وہ یکجا ہوں گے، ایک دوسرےکو پکڑے ہوئے، ان میں سے پہلا فرد اس وقت تک داخل نہیں ہو گا جب تک آخری فرد (بھی ساتھ ہی) داخل نہ ہو گا، اکٹھے ہی (جنت کے وسیع دروازے سے) اندر جائیں گے۔ ان کے چہرے چو دھویں رات کے چاندجیسے ہوں گے۔“
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد (ابو حازم کو شک ہے، کہ سہل نے کون سا عدد بتایا) جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے، کہ وہ ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے اکٹھے ہوں گے۔ ان میں پہلا فرد اس وقت تک داخل نہیں ہو گا جب تک آخری فرد داخل نہیں ہو گا، ان کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: صفة الجنة والنار برقم (6554) انظر ((التحفة)) برقم (4715) 366»
حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا هشيم ، اخبرنا حصين بن عبد الرحمن ، قال: " كنت عند سعيد بن جبير ، فقال: ايكم راى الكوكب الذي انقض البارحة؟ قلت: انا، ثم قلت: اما إني لم اكن في صلاة، ولكني لدغت، قال: فماذا صنعت؟ قلت: استرقيت، قال: فما حملك على ذلك؟ قلت: حديث حدثناه الشعبي ، فقال: وما حدثكم الشعبي؟ قلت: حدثنا عن بريدة بن حصيب الاسلمي ، انه قال: لا رقية إلا من عين او حمة، فقال: قد احسن من انتهى إلى ما سمع، ولكن حدثنا ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " عرضت علي الامم، فرايت النبي ومعه الرهيط، والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي ليس معه احد، إذ رفع لي سواد عظيم، فظننت انهم امتي، فقيل لي: هذا موسى عليه السلام وقومه، ولكن انظر إلى الافق، فنظرت، فإذا سواد عظيم، فقيل لي: انظر إلى الافق الآخر، فإذا سواد عظيم، فقيل لي: هذه امتك، ومعهم سبعون الفا يدخلون الجنة بغير حساب، ولا عذاب، ثم نهض فدخل منزله فخاض الناس في اولئك الذين يدخلون الجنة بغير حساب، ولا عذاب، فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحبوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال بعضهم: فلعلهم الذين ولدوا في الإسلام ولم يشركوا بالله، وذكروا اشياء، فخرج عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ما الذي تخوضون فيه؟، فاخبروه، فقال: هم الذين لا يرقون، ولا يسترقون، ولا يتطيرون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عكاشة بن محصن، فقال: ادع الله ان يجعلني منهم، فقال: انت منهم؟، ثم قام رجل آخر، فقال: ادع الله ان يجعلني منهم، فقال: سبقك بها عكاشة،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ رَأَى الْكَوْكَبَ الَّذِي انْقَضَّ الْبَارِحَةَ؟ قُلْتُ: أَنَا، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَكُنْ فِي صَلَاةٍ، وَلَكِنِّي لُدِغْتُ، قَالَ: فَمَاذَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: اسْتَرْقَيْتُ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قُلْتُ: حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ الشَّعْبِيُّ ، فَقَالَ: وَمَا حَدَّثَكُمْ الشَّعْبِيُّ؟ قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَنْ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الأَسْلَمِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ، فَقَالَ: قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ وَمَعَهُ الرُّهَيْطُ، وَالنَّبِيَّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي، فَقِيلَ لِي: هَذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ وَقَوْمُهُ، وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ الآخَرِ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: هَذِهِ أُمَّتُكَ، وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَلَا عَذَابٍ، ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَلَا عَذَابٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الإِسْلَامِ وَلَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ، وَذَكَرُوا أَشْيَاءَ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا الَّذِي تَخُوضُونَ فِيهِ؟، فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لَا يَرْقُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: أَنْتَ مِنْهُمْ؟، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ،
ہشیم نے کہا: ہمیں حصین بن عبد الرحمن نے خبر دی، کہا کہ میں سعید بن جبیر کے پاس موجود تھا، انہوں نے پوچھا: تم میں سے وہ ستارا کس نے دیکھا تھا جو کل رات ٹوٹا تھا۔ میں نے کہا: میں نے، پھر میں نے کہا کہ میں نماز میں نہیں تھا بلکہ مجھے ڈس لیا گیا تھا (کسی موذی جانور نے ڈس لیا تھا۔) انہوں نے پوچھا: پھر تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے دم کروایا۔ انہوں نےکہا: تمہیں کس چیز نےاس پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا: اس حدیث نے جو ہمیں شعبی نے سنائی۔ انہوں نے پوچھا: شعبی نے تمہیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا: انہوں (شعبی) نےہمیں بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت سنائی، انہوں نے بتایا کہ نظر بد لگنے اور زہریلی چیز کےڈسنے کے علاوہ اور کسی چیز کے لیے جھاڑ پھونک نہیں۔ تو سعید نے کہا: جس نے سنا، اسے اختیار کیا تو اچھا کیا۔ لیکن ہمیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنائی کہ آپ نے فرمایا: ”میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں، میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کےساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، اچانک ایک بڑی جماعت میرے سامنے لائی گئی، مجھے گمان ہوا کہ یہ میرے امتی ہیں، اس پر مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ رضی اللہ عنہ اور ان کی قوم ہے لیکن آپ افق کی طرف دیکھیں، میں نے دیکھا تو (وہاں بھی) ایک بہت بڑی جماعت تھی، مجھے بتایا گیا: یہ آپ کی امت ہے۔ اور ان کےساتھ ایسے ستر ہزار (لوگ) ہیں جو کسی حساب کتاب اور کسی عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔“ پھر آپ اٹھے اور ا پنے گھر کے اندر چلے گئے، وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو میں مصروف ہو گئے، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان میں سے بعض نے کہا: شاید وہ لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ بعض نے کہا: شاید یہ لوگ وہ ہوں گے جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور (ایک لمحہ بھی) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا اور انہوں نے بعض دوسری باتوں کا بھی تذکرہ کیا پھر (کچھ دیربعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکل کر ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ” تو کن باتوں میں لگے ہوئے ہو؟“ انہوں نے آپ کو وہ باتیں بتائیں، اس پر آپ نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں، نہ شگون لیتے ہیں اور وہ اپنے رب پر پوراتوکل کرتے ہیں۔“ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئےاور عرض کی: اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں (شامل) کر دے تو آپ نے فرمایا: ” تو ان میں سے ہے۔“ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: دعا فرمائیے! اللہ مجھے (بھی) ان میں سے کردے تو آپ نے فرمایا: ”عکاشہ اس (فرمائش) کے ذریعے سے تم سے سبقت لے گئے۔“
حصین بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں، کہ میں سعید بن جبیر کے پاس تھا، انھوں نے پوچھا: کل شام ٹوٹنے والا ستارہ تم میں سے کس نے دیکھا؟ میں نے کہا: میں نے۔ پھر میں نے کہا: میں نماز میں نہیں تھا، کیونکہ مجھے بچھو نے ڈسا تھا۔ انھوں نے کہا: تو تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں نے دم کروایا۔ انھوں نے کہا: تو تمھیں کس چیز نے اس پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا: اس حدیث نے، جو ہمیں شعبی نے سنائی۔ تو انھوں نےکہا: شعبی نے تمھیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا: شعبی نے ہمیں بریدہ بن حصیب اسلمیؓ سے روایت سنائی، انھوں نے بتایا: دم، نظرِ بد لگنے اور زہریلی چیز کے ڈسنے سے ہی ہے۔ تو سعید نے کہا: جس نے جو سنا اس پر عمل کیا، تو نے اچھا کیا، لیکن ہمیں عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنایا آپ نے فرمایا: ”مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں، میں نے بعض انبیاءؑ کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا۔ کسی نبیؑ کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، بعض کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا۔ اچانک میرے سامنے ایک بہت بڑی جماعت ظاہر ہوئی، میں نے خیال کیا یہ لوگ میرے امتی ہیں، تو مجھے بتایا گیا: یہ موسیٰؑ اور ان کی قوم ہے، لیکن آپ آسمان کے افق (کنارے) کی طرف دیکھیں۔ میں نے دیکھا، تو ایک بہت بڑی جماعت تھی، تو مجھے کہا گیا: دوسرے آسمانی کنارے کی طرف دیکھو! تو میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی جماعت تھی۔ تو مجھے بتایا گیا یہ تیری امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار افراد ہیں، جو بلا حساب و عذاب جنت میں داخل ہوں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور گھر چلے گئے، تو لوگ (صحابہ کرام ؓ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو کرنے لگے، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ تو بعض نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہوں گے، جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفاقت کا شرف حاصل ہے۔ بعض نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہوں گے، جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔ اور بعض نے کچھ اور باتوں کا تذکرہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”تم کن باتوں میں مشغول ہو؟ یعنی (کس مسئلہ پر بحث کر رہے ہو) انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، اس پر آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہیں، جو نہ دم کرتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں اور اور نہ بد شگونی پکڑتے ہیں، اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“ اس پر عکاشہ بن محصنؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ایسے لوگوں سے کر دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان میں سے ہے۔“ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! دعا فرمائیے! اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے عکاشہ سبقت لے گیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في احاديث الانبياء وفاة موسى ذكره بعد حدیث (3410) مختصراً وفى الطب، باب: مناکتوی، او کوی غیره، وفضل من لم يكتو برقم (5705) وفي باب: من لم يرق برقم (5752) وفي الرقاق، باب: ﴿ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ برقم (6472) وفي، باب: يدخل الجنة سبعون الفا بغير حساب برقم (6541) والترمذي في ((جـامـعـه)) في الزهد، باب: 16 برقم (22446) وقال: هذا حديث حسن صحيح ((تحفة الاشراف)) (5493)»
حصین بن عبد الرحمن سے (ہشیم کے بجائے) محمد بن فضیل نے سعید بن جبیر کے حوالے سے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نےحدیث سنائی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرےسامنے تمام امتیں پیش کی گئیں .....“ پھر حدیث کا باقی حصہ ہشیم کی طرح بیان کیا اور ابتدائی حصے (حصین کےواقعے) کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں۔“ پھر حدیث کا باقی حصہ ہشیم کی طرح بیان کیا، اور حدیث کا ابتدائی حصہ (حصین کا واقعہ) بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (526)»
حدثنا هناد بن السري ، حدثنا ابو الاحوص ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما ترضون ان تكونوا ربع اهل الجنة؟ قال: فكبرنا، ثم قال: اما ترضون ان تكونوا ثلث اهل الجنة؟ قال: فكبرنا، ثم قال: إني لارجو ان تكونوا شطر اهل الجنة، وساخبركم عن ذلك، ما المسلمون في الكفار، إلا كشعرة بيضاء في ثور اسود او كشعرة سوداء في ثور ابيض ".حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، مَا الْمُسْلِمُونَ فِي الْكُفَّارِ، إِلَّا كَشَعْرَةٍ بَيْضَاءَ فِي ثَوْرٍ أَسْوَدَ أَوْ كَشَعْرَةٍ سَوْدَاءَ فِي ثَوْرٍ أَبْيَضَ ".
ابو احوص نے ابو اسحاق سے حدیث سنائی، انہوں نےعمرو بن میمون سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےہم سے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو؟“ ہم نے (خوشی) اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا: ” کیا تم اس پر راضی نہ ہوگے کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو؟“ کہا کہ ہم نے (دوبارہ) نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا: ”میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کانصف ہو گے اور (یہ کیسے ہو گا؟) میں اس کے بارے میں ابھی بتاؤں گا۔ کافروں (کے مقابلے) میں مسلمان اس سے زیادہ نہیں جتنے سیاہ رنگ کے بیل میں ایک سفید بال یا سفید رنگ کے بیل میں ایک
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ”کیا تم جنتیوں کا چوتھائی ہونے پر راضی ہو؟“ ہم نے (خوشی سے) اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس پر راضی نہیں ہو، کہ تم اہلِ جنت کا تہائی حصہ ہو؟“ تو ہم نے اللہ اکبر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے امید ہے، تم جنتیوں کا نصف ہو گے اور میں تمھیں اس کا سبب بتاتا ہوں۔ مسلمانوں کی کافروں سےنسبت ایسی ہے، جیسے ایک سیاہ بیل میں ایک سفید بال ہو، یا ایک سفید بالوں والے بیل میں ایک سیاہ بال ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: الحشر برقم (6528) وفي الايمان والنذور، باب: كيف كانت یمین النبي صلى الله عليه وسلم برقم (6642) والترمذي في ((جامعه)) في ((صفة الجنة)) باب: ما جاء فى صفة اهل الجنة برقم (5247) وقال: هذا حديث حسن صحيح وابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: صفة امة محمد صلی اللہ علیہ وسلم برقم (4283) انظر ((التحفة)) برقم (9483)»
حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال: " كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة، نحوا من اربعين رجلا، فقال: اترضون ان تكونوا ربع اهل الجنة؟ قال قلنا: نعم، فقال: اترضون ان تكونوا ثلث اهل الجنة؟ فقلنا: نعم، فقال: والذي نفسي بيده، إني لارجو ان تكونوا نصف اهل الجنة وذاك ان الجنة لا يدخلها إلا نفس مسلمة، وما انتم في اهل الشرك، إلا كالشعرة البيضاء في جلد الثور الاسود، او كالشعرة السوداء في جلد الثور الاحمر ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ، نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِينَ رَجُلًا، فَقَالَ: أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ قُلْنَا: نَعَمْ، فَقَالَ: أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَذَاكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ، إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ ".
ابو اسحاق سے (ابو احوص کے بجائے) شعبہ نے حدیث سنائی، انہو ں نے عمرو بن میمون سے ا ور انہوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہم تقریباً چالیس افراد ایک خیمے میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ نے فرمایا: ” کیا تم اس بات پر راضی ہو گے کہ تم اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہو؟“ ہم نےکہا: ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس پر راضی ہو جاؤ گے کہ تم اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہو؟“ ہم نےکہا: ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: ” اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت میں سے آدھے ہو گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں اس انسان کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا جس نے خود کو اللہ کے سپرد کر دیا۔ اور مشرکوں میں تمہاری تعداد ایسی ہی ہے جیسے سیاہ بیل کی جلد پر ایک سفید بال یا سرخ بیل کی جلد پر ایک سیاہ بال۔“
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک خیمہ میں تقریباً چالیس افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا تم اہلِ جنت کا چوتھائی حصہ ہونے پر رضامند ہو؟“ ہم نے کہا: ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اہلِ جنت کا تہائی ہونے پر خوش ہو؟ “ تو ہم نے کہا: ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے، کہ تم اہلِ جنت کا نصف ہو گے، اور اس کی وجہ یہ ہے، کہ جنت میں صرف فرمانبردار لوگ داخل ہوں گے، اور مشرکوں میں تمھاری تعداد ایسی ہی ہے، جیسے سیاہ چمڑے والے بیل میں ایک سفید بال یا سرخ کھال والے بیل میں ایک سیاہ بال۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (528)»
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا مالك وهو ابن مغول ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاسند ظهره إلى قبة ادم، فقال: " الا لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، اللهم هل بلغت، اللهم اشهد، اتحبون انكم ربع اهل الجنة؟ فقلنا: نعم يا رسول الله، فقال: اتحبون ان تكونوا ثلث اهل الجنة؟ قالوا: نعم يا رسول الله، قال: إني لارجو ان تكونوا شطر اهل الجنة، ما انتم في سواكم من الامم، إلا كالشعرة السوداء في الثور الابيض، او كالشعرة البيضاء في الثور الاسود ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ وَهُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ ظَهْرَهُ إِلَى قُبَّةِ أَدَمٍ، فَقَالَ: " أَلَا لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، أَتُحِبُّونَ أَنَّكُمْ رُبُعُ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: أَتُحِبُّونَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، مَا أَنْتُمْ فِي سِوَاكُمْ مِنَ الأُمَمِ، إِلَّا كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي الثَّوْرِ الأَبْيَضِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي الثَّوْرِ الأَسْوَدِ ".
مالک بن مغول نے ابو اسحاق کےواسطے سے عمرو بن میمون سے حدیث سنائی انہوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب کیا آپ نے چمڑے کے ایک خیمے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی اور فرمایا: ”یاد رکھو! جنت میں اسلام لانے والی روح کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا۔ اے اللہ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہو؟“ ہم نےکہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: ”کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہو؟“ صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے، دوسری امتوں میں تم (اس سے زیادہ) نہیں ہو مگر (ایسے) جس طرح ایک سیاہ بال جو سفید رنگ کے بیل پر ہو یا ایک سفید بال جو سیاہ بیل پر ہو۔“
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چمڑے کے خیمہ سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا (خطاب کیا) اور فرمایا: ”یاد رکھو! جنت میں صرف مسلمان و اطاعت گزار انسان داخل ہو گا، اے اللہ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! تو گواہ ہو جا! کیا تم پسند کرتے ہو، کہ تم اہلِ جنت کا چوتھائی ہو؟ تو ہم نے کہا: ہاں! اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: ” کیا تم چاہتے ہو، کہ تم اہلِ جنت کا تہائی ہو؟“ صحابہ ؓ نے کہا: ہاں! اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: ”مجھے امید ہے، کہ تم اہلِ جنت کا نصف ہو گے۔ تم اپنے سوا امتوں میں اس سیاہ بال کی طرح ہو جو سفید بیل میں ہوتا ہے، یا اس سفید بال کی طرح ہو جو سیاہ بیل میں ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (528)»
حدثنا حدثنا عثمان بن ابي شيبة العبسي ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي سعيد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يقول الله عز وجل، يا آدم، فيقول: لبيك، وسعديك، والخير في يديك، قال: يقول: اخرج بعث النار، قال: وما بعث النار؟ قال: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعين، قال: فذاك حين يشيب الصغير، وتضع كل ذات حمل حملها، وترى الناس سكارى وما هم بسكارى، ولكن عذاب الله شديد، قال: فاشتد عليهم، قالوا: يا رسول الله، اينا ذلك الرجل؟ فقال: ابشروا، فإن من ياجوج وماجوج الفا، ومنكم رجل، قال: ثم قال: والذي نفسي بيده، إني لاطمع ان تكونوا ربع اهل الجنة، فحمدنا الله وكبرنا، ثم قال: والذي نفسي بيده، إني لاطمع ان تكونوا ثلث اهل الجنة، فحمدنا الله وكبرنا، ثم قال: والذي نفسي بيده، إني لاطمع ان تكونوا شطر اهل الجنة، إن مثلكم في الامم كمثل الشعرة البيضاء في جلد الثور الاسود، او كالرقمة في ذراع الحمار ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْعَبْسِيُّ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، يَا آدَمُ، فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ، وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، قَالَ: يَقُولُ: أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ، قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، قَالَ: فَذَاكَ حِينَ يَشِيبُ الصَّغِيرُ، وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا، وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى، وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ، قَالَ: فَاشْتَدَّ عَلَيْهِمْ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّنَا ذَلِكَ الرَّجُلُ؟ فَقَالَ: أَبْشِرُوا، فَإِنَّ مِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ أَلْفًا، وَمِنْكُمْ رَجُلٌ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَطْمَعُ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَحَمِدْنَا اللَّهَ وَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَطْمَعُ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَحَمِدْنَا اللَّهَ وَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَطْمَعُ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، إِنَّ مَثَلَكُمْ فِي الأُمَمِ كَمَثَلِ الشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أَوْ كَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الْحِمَارِ ".
جریر نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عز وجل فرمائے گا: اے آدم! وہ کہیں گے: میں حاضر ہوں (میرے رب!) قسمت کی خوبی (تیری عطا ہے) اور ساری خیر تیرے ہاتھ میں ہے! کہا: اللہ فرمائے گا: دوزخیوں کی جماعت کو الگ کر دو۔ آدم رضی اللہ عنہ عرض کریں گے: دوزخیوں کی جماعت (تعداد میں) کیا ہے؟ اللہ فرمائے گا: ہر ہزار میں سے نوسو ننانوے۔یہ وقت ہو گا جب بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش کی طرح دیکھو گے، حالانکہ وہ (نشےمیں) مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہو گا۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ بات ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہ) پر حد درجہ گراں گزری۔ انہوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! ہم میں سے وہ (ایک) آدمی کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، ہزار یا جوج ماجوج میں سے ہیں اور ایک تم میں سے ہے، (ابو سعید رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا چوتھائی (حصہ) ہو گے۔“ ہم نےاللہ تعالیٰ کی حمد کی او رتکبیر کہی (اللہ اکبرکہا۔)، پھر آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا تہائی (حصہ) ہو گے۔“ ہم نے اللہ کی حمد کی اور تکبیر کہی، پھر فرمایا: ” اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا آدھا حصہ ہو گے۔ (دوسری) امتوں کے مقابلے میں تمہاری مثال اس سفید بال کی سی ہے جو سیاہ بیل کی جلدپر ہوتا ہے یا اس چھوٹے سے نشان کی سی ہے جو گدھے کے اگلے پاؤں پر ہوتا ہے۔“
حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزو جل فرمائے گا: اے آدم! وہ عرض کریں گے: میں تیری اطاعت کی سعادت کے حصول کے لیے بار بار حاضر ہوں! ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ فرمائے گا: آگ کی جماعت نکالیے! آدم ؑ عرض کریں گے: دوزخیوں کی جماعت سے کیا مراد ہے؟ (ان کی تعداد کتنی ہے) اللہ فرمائے گا: ہر ہزار سے نو سو ننانوے۔ یہ وہ وقت ہو گا، جب بچے (خوف سے) بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل وضع ہو جائے گا اور تم تمام لوگوں کو مدہوش دیکھو گے، حالانکہ وہ مدہوش (نشہ میں) نہیں ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔“ تو یہ بات صحابہ کرام ؓ کے لیے انتہائی ناگوار گزری۔ انھوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ ایک آدمی ہم میں سے کون ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ! یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار اور تم میں سے ایک آدمی ہو گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری خواہش ہے، کہ تم اہلِ جنت کا چوتھائی ہو گے۔“ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری خواہش ہے، کہ تم اہلِ جنت کا تہائی ہو۔“ تو ہم نے اللہ کی حمد بیان کی اور تکبیر کہی (اس کی کبریائی کا اعتراف کیا) پھر آپ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم اہلِ جنت کا آدھا حصہ ہو گے۔ امتوں کے مقابلہ میں تمھاری تمثیل اس سفید بال کی ہے جو سیاہ بیل کی کھال میں ہوتا ہے، یا اس نشان کی ہے جو گدھے کے پاؤں (پنڈلی کے اوپر والا حصہ) میں ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى احاديث الانبياء، باب: قصة ياجوج وماجوج برقم (3348) وفي الرقاق، باب: قول الله عز وجل ﴿ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴾ برقم (6530) وفي التفسير، باب: ﴿ وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ ﴾ برقم (4741) وفي التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ﴾ - الى قوله - ﴿ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ﴾ برقم (7483) انظر ((التحفة)) برقم (4005)»