Note: Copy Text and to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
95. باب كَوْنِ هَذِهِ الأُمَّةِ نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ:
باب: جنت کے آدھے لوگ اس امت کے ہوں گے۔
حدیث نمبر: 529
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، مَا الْمُسْلِمُونَ فِي الْكُفَّارِ، إِلَّا كَشَعْرَةٍ بَيْضَاءَ فِي ثَوْرٍ أَسْوَدَ أَوْ كَشَعْرَةٍ سَوْدَاءَ فِي ثَوْرٍ أَبْيَضَ ".
ابو احوص نے ابو اسحاق سے حدیث سنائی، انہوں نےعمرو بن میمون سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےہم سے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم اہل جنت کا چوتھا حصہ ہو؟ ہم نے (خوشی) اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہ ہوگے کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو؟ کہا کہ ہم نے (دوبارہ) نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ تم اہل جنت کانصف ہو گے اور (یہ کیسے ہو گا؟) میں اس کے بارے میں ابھی بتاؤں گا۔ کافروں (کے مقابلے) میں مسلمان اس سے زیادہ نہیں جتنے سیاہ رنگ کے بیل میں ایک سفید بال یا سفید رنگ کے بیل میں ایک
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: کیا تم جنتیوں کا چوتھائی ہونے پر راضی ہو؟ ہم نے (خوشی سے) اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں ہو، کہ تم اہلِ جنت کا تہائی حصہ ہو؟ تو ہم نے اللہ اکبر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے امید ہے، تم جنتیوں کا نصف ہو گے اور میں تمھیں اس کا سبب بتاتا ہوں۔ مسلمانوں کی کافروں سےنسبت ایسی ہے، جیسے ایک سیاہ بیل میں ایک سفید بال ہو، یا ایک سفید بالوں والے بیل میں ایک سیاہ بال ہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: الحشر برقم (6528) وفي الايمان والنذور، باب: كيف كانت یمین النبي صلى الله عليه وسلم برقم (6642) والترمذي في ((جامعه)) في ((صفة الجنة)) باب: ما جاء فى صفة اهل الجنة برقم (5247) وقال: هذا حديث حسن صحيح وابن ماجه في ((سننه)) في الزهد، باب: صفة امة محمد صلی اللہ علیہ وسلم برقم (4283) انظر ((التحفة)) برقم (9483)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 529 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 529  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافروں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے،
اور ہر نبیؑ کے دور میں کافر زیادہ رہے ہیں،
اگر پہلے انبیاءؑ کے ادوار میں کافروں کی تعداد کم ہوتی،
تو ان کے امتیوں کی زیادہ تعداد جنت میں ہوتی اور ہم اہل جنت کا نصف نہ بن سکتے۔
(2)
آپ نے اہل جنت میں مسلمانوں کی تعداد بتدریج بتائی ہے،
پہلی ہی دفعہ نہیں فرمایا:
کہ تم نصف ہو گے،
تاکہ صحابہ کرامؓ کی مسرت وشاد مانی میں اضافہ ہو اور تکرار بشارت سے ان کے احسان کی شکر گزاری کا جذبہ قوی ہو،
اور اس کی عظمت وجلالت میں جاگزیں ہو۔
ایک اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
جو ترمذی اور طبرانی میں ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس (120)
صفیں ہوں گی اور ان میں امت محمدیہ کی صفیں اسی (80)
ہوں گی،
جس سے معلوم ہوا،
مسلمان جنتیوں کا دو تہائی ہوں گے۔
(فتح الملھم: 1/381)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 529   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4283  
´امت محمدیہ کی صفات۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمے میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی اور خوش ہو گے کہ تمہاری تعداد جنت والوں کے چوتھائی ہو، ہم نے کہا: کیوں نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم خوش ہو گے کہ تمہاری تعداد جنت والوں کے ایک تہائی ہو، ہم نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تمہاری تعداد تمام اہل جنت کا نصف ہو گی، ایسا اس لیے ہے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی جائے گا، اور مشرکین کے مقابلے میں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4283]
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
بتدریج کم سے زیادہ خوشخبری کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔
اور نعمت کی عظمت کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔

(2)
امت محمدیہ کا زمانہ بھی طویل ہے اور افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے اس لئے جنتیوں میں ان کی تعداد زیادہ ہوگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4283   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 530  
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک خیمہ میں تقریباً چالیس افراد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اہلِ جنت کا چوتھائی حصہ ہونے پر رضامند ہو؟ ہم نے کہا: ہاں! تو آپ ﷺنے فرمایا: کیا تم اہلِ جنت کا تہائی ہونے پر خوش ہو؟ تو ہم نے کہا: ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے، کہ تم اہلِ جنت کا نصف ہو گے، اور اس کی وجہ یہ ہے، کہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:530]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
کہ صرف ایماندار جنت میں داخل ہوں گے،
کوئی کافر جنت میں نہیں جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 530   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6528  
6528. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک خیمے میں تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پرخوش ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم اس پر خوش ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہوگے۔ یہ اس لیے جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور تم اہل شرک کے مقابلے میں اس طرح ہوگے جس طرح سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہو یا جسے سرخ بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6528]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے جیسے سفید بیل میں ایک بال کالا ہو۔
مقصود یہ ہے کہ دنیا میں مشرکوں اور فاسقوں کی تعداد بہت زیادہ ہی رہی ہے اور اللہ کے موحد و مؤمن بندے ان مشرکوں اور کافروں سے ہمیشہ کم ہی رہے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
قرآن مجید میں صاف مذکورہے ﴿وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾ (سبا: 13)
میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
عام طور پر یہی حال ہے اور مسلمانوں میں توحید و سنت والوں کی تعداد بھی ہمیشہ تھوڑی ہی چلی آ رہی ہے جو لوگ آج کل اہل سنت والجماعت کہلانے والے ہیں ان کی تعداد عرسوں اور تعزیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مشرکین و مبتدعین بکثرت ملیں گے۔
اہل توحید، پابند شریعت، فدائے سنت بالکل اقل قلیل ہیں۔
اللہ پاک ہم کو توحید و سنت کا عامل اور اسلام کا سچا تابع فرمان بنائے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6528   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6528  
6528. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ ایک خیمے میں تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پرخوش ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تم اس پر خوش ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہوگے۔ یہ اس لیے جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور تم اہل شرک کے مقابلے میں اس طرح ہوگے جس طرح سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہو یا جسے سرخ بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6528]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عالم رنگ و بو میں کفار و فساق کی تعداد اہل ایمان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے موحد بندے بہت تھوڑے رہے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
(سبا: 34/13)
اس امر کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اَسی صفیں میری امت کی ہوں گی۔
(مسند أحمد: 347/5) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں مسلمانوں کی تعداد تدریجاً ذکر کی تاکہ ان کی خوشی اور مسرت میں اضافہ ہوتا رہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6528