مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 20633
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا سلام بن مسكين ، عن عقيل بن طلحة ، حدثنا ابو جري الهجيمي ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إنا قوم من اهل البادية، فعلمنا شيئا ينفعنا الله به، قال: " لا تحقرن من المعروف شيئا، ولو ان تفرغ من دلوك في إناء المستسقي، ولو ان تكلم اخاك ووجهك إليه منبسط، وإياك وتسبيل الإزار، فإنه من الخيلاء، والخيلاء لا يحبها الله، وإن امرؤ سبك بما يعلم فيك، فلا تسبه بما تعلم فيه، فإن اجره لك، ووباله على من قاله" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ طَلْحَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو جُرَيٍّ الْهُجَيْمِيُّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَعَلِّمْنَا شَيْئًا يَنْفَعُنَا اللَّهُ بِهِ، قَالَ: " لَا تَحْقِرَنَّ مِنِ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ الْمُسْتَسْقِي، وَلَوْ أَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَوَجْهُكَ إِلَيْهِ مُنْبَسِطٌ، وَإِيَّاكَ وَتَسْبِيلَ الْإِزَارِ، فَإِنَّهُ مِنَ الْخُيَلَاءِ، وَالْخُيَلَاءُ لَا يُحِبُّهَا اللَّهُ، وَإِنْ امْرُؤٌ سَبَّكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ، فَلَا تَسُبَّهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ، فَإِنَّ أَجْرَهُ لَكَ، وَوَبَالَهُ عَلَى مَنْ قَالَهُ" ..
حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کی یارسول اللہ میں کچھ چیزوں کے متعلق آپ سے سوال کرتا ہوں اور چونکہ میں دیہاتی ہوں اس لئے سوال میں تلخی ہوسکتی ہے آپ مجھے تعلیم دیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو اگرچہ وہ نیکی اپنے ڈول میں سے کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں پانی کے قطرے ٹپکانا ہی ہو تکبر سے بچو کیونکہ تکبر اللہ کو پسند نہیں ہے اور اگر تمہیں کوئی شخص گالی دے یا کسی ایسی بات کا طعنہ دے جس کا اسے تمہارے متعلق علم ہو تو تم اسے کسی ایسی بات کا طعنہ نہ دو جو تمہیں اسکے متعلق معلوم ہو کہ یہ چیز تمہارے لئے باعث ثواب اور اس کے لئے باعث وبال بن جائے گی اور کسی کو گالی مت دو (اس کے بعد میں نے کسی انسان کو بکری کو اور اونٹ تک کو گالی نہیں دی)۔ حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کی یارسول اللہ میں کچھ چیزوں کے متعلق آپ سے سوال کرتا ہوں۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا تم اسے کسی ایسی بات کا طعنہ نہ دو جو تمہیں اسکے متعلق معلوم ہو کہ یہ چیز تمہارے لئے باعث ثواب اور اس کے لئے باعث وبال بن جائے گی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 20634
Save to word اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا سلام ، حدثنا عقيل بن طلحة ، عن ابي جري الهجيمي ، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم في اناس من اهل البادية، فقالوا: إنا من اهل البادية، فذكر الحديث، إلا انه قال:" فلا تشتمه بما تعلم فيه، فإن اجر ذلك لك ووباله عليه".حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا سَلَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَقِيلُ بْنُ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي جُرَيٍّ الْهُجَيْمِيِّ ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالُوا: إِنَّا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" فَلَا تَشْتُمْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ، فَإِنَّ أَجْرَ ذَلِكَ لَكَ وَوَبَالَهُ عَلَيْهِ".

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 20635
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا يونس ، حدثنا عبيدة الهجيمي ، عن ابي تميمة الهجيمي ، عن جابر بن سليم ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محتب بشملة له، وقد وقع هدبها على قدميه، فقلت ايكم محمد، او رسول الله؟ فاوما بيده إلى نفسه، فقلت: يا رسول الله، إني من اهل البادية وفي جفاؤهم، فاوصني، فقال: " لا تحقرن من المعروف شيئا، ولو ان تلقى اخاك ووجهك منبسط، ولو ان تفرغ من دلوك في إناء المستسقي، وإن امرؤ شتمك بما يعلم فيك، فلا تشتمه بما تعلم فيه، فإنه يكون لك اجره وعليه وزره، وإياك وإسبال الإزار، فإن إسبال الإزار من المخيلة، وإن الله لا يحب المخيلة، ولا تسبن احدا"، فما سببت بعده احدا ولا شاة ولا بعيرا .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ الْهُجَيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْتَبٍ بِشَمْلَةٍ لَهُ، وَقَدْ وَقَعَ هُدْبُهَا عَلَى قَدَمَيْهِ، فَقُلْتُ أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ، أَوْ رَسُولُ اللَّهِ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى نَفْسِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ وَفِيَّ جَفَاؤُهُمْ، فَأَوْصِنِي، فَقَالَ: " لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ وَوَجْهُكَ مُنْبَسِطٌ، وَلَوْ أَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ الْمُسْتَسْقِي، وَإِنْ امْرُؤٌ شَتَمَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ، فَلَا تَشْتُمْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ، فَإِنَّهُ يَكُونُ لَكَ أَجْرُهُ وَعَلَيْهِ وِزْرُهُ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ، فَإِنَّ إِسْبَالَ الْإِزَارِ مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ، وَلَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا"، فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ أَحَدًا وَلَا شَاةً وَلَا بَعِيرًا .
حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف خود اشارہ کیا یا لوگوں نے اشارے سے بتایا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کے ساتھ احتباء کیا ہوا تھا جس کا پھندنا (کونا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آگیا تھا میں نے عرض کی یارسول اللہ میں کچھ چیزوں کے متعلق آپ سے سوال کرتا ہوں اور چونکہ میں دیہاتی ہوں اس لئے سوال میں تلخی ہوسکتی ہے آپ مجھے تعلیم دیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو اگرچہ وہ نیکی اپنے ڈول میں سے کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں پانی کے قطرے ٹپکانا ہی ہو تکبر سے بچو کیونکہ تکبر اللہ کو پسند نہیں ہے اور اگر تمہیں کوئی شخص گالی دے یا کسی ایسی بات کا طعنہ دے جس کا اسے تمہارے متعلق علم ہو تو تم اسے کسی ایسی بات کا طعنہ نہ دو جو تمہیں اسکے متعلق معلوم ہو کہ یہ چیز تمہارے لئے باعث ثواب اور اس کے لئے باعث وبال بن جائے گی اور کسی کو گالی مت دو (اس کے بعد میں نے کسی انسان کو بکری کو اور اونٹ تک کو گالی نہیں دی)

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبيدة الجهيمي، لكنه توبع
حدیث نمبر: 20636
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثناه وهيب ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي تميمة الهجيمي ، عن رجل من بلهجيم، قال: قلت: يا رسول الله، إلام تدعو؟ قال:" ادعو إلى الله وحده، الذي إن مسك ضر فدعوته، كشف عنك، والذي إن ضللت بارض قفر فدعوته، رد عليك، والذي إن اصابتك سنة فدعوته، انبت عليك"، قال: قلت: فاوصني، قال: " لا تسبن احدا، ولا تزهدن في المعروف، ولو ان تلقى اخاك وانت منبسط إليه وجهك، ولو ان تفرغ من دلوك في إناء المستسقي، وائتزر إلى نصف الساق، فإن ابيت فإلى الكعبين، وإياك وإسبال الإزار، فإن إسبال الإزار من المخيلة، وإن الله لا يحب المخيلة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَاهُ وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَلْهُجَيْمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَامَ تَدْعُو؟ قَالَ:" أَدْعُو إِلَى اللَّهِ وَحْدَهُ، الَّذِي إِنْ مَسَّكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ، كَشَفَ عَنْكَ، وَالَّذِي إِنْ ضَلَلْتَ بِأَرْضٍ قَفْرٍ فَدَعَوْتَهُ، رَدَّ عَلَيْكَ، وَالَّذِي إِنْ أَصَابَتْكَ سَنَةٌ فَدَعَوْتَهُ، أَنْبَتَ عَلَيْكَ"، قَالَ: قُلْتُ: فَأَوْصِنِي، قَالَ: " لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا، وَلَا تَزْهَدَنَّ فِي الْمَعْرُوفِ، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ، وَلَوْ أَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ الْمُسْتَسْقِي، وَائْتَزِرْ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ، فَإِنَّ إِسْبَالَ الْإِزَارِ مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ" .
ایک صحابی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک آدمی آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہنے لگا کیا آپ ہی اللہ کے پیغمبر ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کہ آپ کن چیزوں کی دعوت دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں جو یکتا ہے یہ بتاؤ کہ وہ کون سی ہستی ہے کہ جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ تمہاری مصیبت دور کردیتی ہے؟ وہ کون ہے جب تم قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہو اور اس سے دعاء کرتے ہو تو وہ پیداوار کو ظاہر کردیتا ہے؟ وہ کون ہے کہ جب تم کسی بیابان جنگل میں راستہ بھول جاؤ اور اس سے دعاء کرو وہ تمہیں واپس پہنچا دیتا ہے؟ یہ سن کر وہ مسلمان ہوگیا اور کہنے لگا یارسول اللہ مجھے کوئی وصیت کیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کو گالی نہ دینا وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں نے کسی اونٹ یا بکری تک کو گالی نہیں دی جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے اور نیکی سے بےرغبتی ظاہر نہ کرنا اگرچہ وہ بات کرتے ہوئے اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو پانی مانگنے والے کے برتن میں اپنے ڈول سے پانی دینا اور تہبند نصف پنڈلی تک باندھنا اگر یہ نہیں کرسکتے تو ٹخنوں تک باندھ لینا لیکن تہبند کو لٹکنے سے بچانا کیونکہ یہ تکبر ہے اور اللہ کو تکبر پسند نہیں ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 20637
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا جرير بن حازم ، قال: سمعت الحسن ، يقول: ويزيد بن هارون ، اخبرنا جرير بن حازم ، حدثنا الحسن ، قال: دخل عائذ بن عمرو قال يزيد: وكان من صالحي اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم على عبيد الله بن زياد، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " شر الرعاء الحطمة"، قال عبد الرحمن فاظنه قال: إياك ان تكون منهم ولم يشك يزيد فقال: اجلس إنما انت من نخالة اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، قال: وهل كانت لهم، او فيهم نخالة؟! إنما كانت النخالة بعدهم وفي غيرهم .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، يَقُولُ: وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، قَالَ: دَخَلَ عَائِذُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ يَزِيدُ: وَكَانَ مِنْ صَالِحِي أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " شَرُّ الرِّعَاءِ الْحُطَمَةُ"، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأَظُنُّهُ قَالَ: إِيَّاكَ أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ وَلَمْ يَشُكَّ يَزِيدُ فَقَالَ: اجْلِسْ إِنَّمَا أَنْتَ مِنْ نُخَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَهَلْ كَانَتْ لَهُمْ، أَوْ فِيهِمْ نُخَالَةٌ؟! إِنَّمَا كَانَتْ النُّخَالَةُ بَعْدَهُمْ وَفِي غَيْرِهِمْ .
حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں انتہائی نیک صحابی تھے ایک مرتبہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے بدترین نگہبان ظالم بادشاہ ہوتا ہے تم ان میں سے ہونے سے بچو ابن زیاد نے (گستاخی سے) کہا بیٹھو تم تو محمد کے ساتھیوں کا بچاہوا تلچھٹ ہو حضرت عائذ نے فرمایا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں بھی تلچھٹ ہوسکتی ہے؟ یہ تو بعد والوں میں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں میں ہوتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1830
حدیث نمبر: 20638
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي شمر الضبعي ، قال: سمعت عائذ بن عمرو " ينهى عن الدباء، والحنتم، والمزفت، والنقير"، فقلت له: عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: نعم .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي شِمْرٍ الضُّبَعِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو " يَنْهَى عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ، وَالنَّقِيرِ"، فَقُلْتُ لَهُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ .
ابوشمر ضبعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائذ بن عمرو کو دباء اور حنتم اور مزفت سے منع کرتے ہوئے سنا تو پوچھا کہ کیا وہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں!

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 20639
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سليمان يعني التيمي ، عن شيخ في مجلس ابي عثمان، عن عائذ بن عمرو ، قال:" كان في الماء قلة، فتوضا رسول الله صلى الله عليه وسلم في قدح، او في جفنة، فنضحنا به"، قال: والسعيد في انفسنا من اصابه، ولا نراه إلا قد اصاب القوم كلهم، قال:" ثم صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الضحى" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي التَّيْمِيَّ ، عَنْ شَيْخٍ فِي مَجْلِسِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ:" كَانَ فِي الْمَاءِ قِلَّةٌ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَدَحٍ، أَوْ فِي جَفْنَةٍ، فَنَضَحَنَا بِهِ"، قَالَ: وَالسَّعِيدُ فِي أَنْفُسِنَا مَنْ أَصَابَهُ، وَلَا نُرَاهُ إِلَّا قَدْ أَصَابَ الْقَوْمَ كُلَّهُمْ، قَالَ:" ثُمَّ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الضُّحَى" .
حضرت عائذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ پانی کی قلت واضح ہوگئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالے یا ٹب میں وضو کیا اور ہم نے اس کے چھینٹے اپنے اوپر مارے اور ہماری نظروں میں وہ شخص بہت خوش نصیب تھا جسے وہ پانی مل گیا اور ہمارا خیال ہے کہ سب ہی کو وہ پانی مل گیا تھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن عائذ بن عمرو
حدیث نمبر: 20640
Save to word اعراب
حدثنا مهنا بن عبد الحميد ابو شبل ، وحسن يعني ابن موسى ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، المعنى، عن ثابت ، عن معاوية بن قرة ، عن عائذ بن عمرو ، ان سلمان وصهيبا وبلالا كانوا قعودا في اناس، فمر بهم ابو سفيان بن حرب، فقالوا: ما اخذت سيوف الله من عنق عدو الله ماخذها بعد، فقال ابو بكر: اتقولون هذا لشيخ قريش وسيدها؟! قال: فاخبر بذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال" يا ابا بكر، لعلك اغضبتهم؟ فلئن كنت اغضبتهم لقد اغضبت ربك"، فرجع إليهم فقال: اي إخوتنا، لعلكم غضبتم؟ فقالوا: لا يا ابا بكر، يغفر الله لك ..حَدَّثَنَا مُهَنَّأُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ أَبُو شِبْلٍ ، وَحَسَنٌ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، الْمَعْنَى، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ سَلْمَانَ وَصُهَيْبًا وبِلَالًا كَانُوا قُعُودًا فِي أُنَاسٍ، فَمَرَّ بِهِمْ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَقَالُوا: مَا أَخَذَتْ سُيُوفُ اللَّهِ مِنْ عُنُقِ عَدُوِّ اللَّهِ مَأْخَذَهَا بَعْدُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتَقُولُونَ هَذَا لِشَيْخِ قُرَيْشٍ وَسَيِّدِهَا؟! قَالَ: فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ" يَا أَبَا بَكْرٍ، لَعَلَّكَ أَغْضَبْتَهُمْ؟ فَلَئِنْ كُنْتَ أَغْضَبْتَهُمْ لَقَدْ أَغْضَبْتَ رَبَّكَ"، فَرَجَعَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: أَيْ إِخْوَتَنَا، لَعَلَّكُمْ غَضِبْتُمْ؟ فَقَالُوا: لَا يَا أَبَا بَكْرٍ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ ..
حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سلمان صہیب اور بلال کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوسفیان بن حرب کا وہاں سے گزر ہوا یہ حضرات کہنے لگے کہ اللہ تلواروں نے اللہ کی دشمنوں کی گردنیں اس طرح بعد میں نہیں پکڑی ہوں گی حضرت صدیق اکبر نے یہ سن کر فرمایا کہ تم یہ بات قریش کے شیخ اور سردار سے کہہ رہے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی خبر ہوئی تو فرمایا اے ابوبکر کہیں تم نے ان لوگوں کو ناراض تو نہیں کردیا اس لئے کہ اگر وہ ناراض ہوگئے تو اللہ ناراض ہوجائے گا یہ سن کر حضرت ابوبکر ان لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا بھائیو شاید تم ناراض ہوگئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اے ابوبکر! اللہ آپ کو معاف فرمائے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2504
حدیث نمبر: 20641
Save to word اعراب
حدثنا هدبة ، حدثنا حماد بن سلمة ، مثله بإسناده.حَدَّثَنَا هُدْبَةُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، مِثْلَهُ بِإِسْنَادِهِ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2504
حدیث نمبر: 20642
Save to word اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ابو الاشهب ، حدثنا عامر الاحول شيخ له، عن عائذ بن عمرو ، قال: احسبه رفعه، قال:" من عرض له شيء من هذا الرزق، فليوسع به في رزقه، فإن كان عنه غنيا فليوجهه إلى من هو احوج إليه منه" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْولُ شَيْخٌ لَهُ، عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَحْسَبُهُ رَفَعَهُ، قَالَ:" مَنْ عَرَضَ لَهُ شَيْءٌ مِنْ هَذَا الرِّزْقِ، فَلْيُوَسِّعْ بِهِ فِي رِزْقِهِ، فَإِنْ كَانَ عَنْهُ غَنِيًّا فَلْيُوَجِّهْهُ إِلَى مَنْ هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنْهُ" ..
حضرت عائذ رضی اللہ عنہ سے غالباً مرفوعاً مروی ہے جس شخص کو اس رزق میں سے کچھ حاصل ہو اسے چاہئے کہ اس کے ذریعے اپنے رزق میں کشادگی کرے اور اگر اس کو اس کی ضرورت نہ ہو تو کسی ایسے شخص کو دے دے جو اس سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سلمان صہیب اور بلال کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ حضرت عائذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے پھر انہوں نے حدیث مسئلہ ذکر کی

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، عامر الأحول لم يدرك عائذا

Previous    84    85    86    87    88    89    90    91    92    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.