وحدثنا محمود بن غيلان، قال: قلت لابي داود الطيالسي: قد اكثرت، عن عباد بن منصور، فما لك لم تسمع منه حديث العطارة، الذي روى لنا النضر بن شميل، قال لي: اسكت، فانا لقيت زياد بن ميمون، وعبد الرحمن بن مهدي، فسالناه، فقلنا له: هذه الاحاديث التي ترويها، عن انس؟ فقال: ارايتما رجلا يذنب فيتوب، اليس يتوب الله عليه؟ قال: قلنا: نعم. قال: ما سمعت من انس، من ذا قليلا ولا كثيرا، إن كان لا يعلم الناس، فانتما لا تعلمان، اني لم الق انسا، قال ابو داود: فبلغنا بعد انه يروي، فاتيناه انا وعبد الرحمن، فقال: اتوب، ثم كان بعد يحدث، فتركناه،وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي دَاوُدَ الطَّيَالِسِيِّ: قَدْ أَكْثَرْتَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، فَمَا لَكَ لَمْ تَسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَ الْعَطَّارَةِ، الَّذِي رَوَى لَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ لِيَ: اسْكُتْ، فَأَنَا لَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، فَسَأَلْنَاهُ، فَقُلْنَا لَهُ: هَذِهِ الأَحَادِيثُ الَّتِي تَرْوِيهَا، عَنْ أَنَسٍ؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتُمَا رَجُلًا يُذْنِبُ فَيَتُوبُ، أَلَيْسَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ أَنَسٍ، مِنْ ذَا قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، إِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ النَّاسُ، فَأَنْتُمَا لَا تَعْلَمَانِ، أَنِّي لَمْ أَلْقَ أَنَسًا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: فَبَلَغَنَا بَعْدُ أَنَّهُ يَرْوِي، فَأَتَيْنَاهُ أَنَا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: أَتُوبُ، ثُمَّ كَانَ بَعْدُ يُحَدِّثُ، فَتَرَكْنَاهُ،
۔ محمود بن غیلان نے کہا: میں نے ابوداود طیالسی سے کہا: آپ نے عباد بن منصور سے بہت زیادہ روایتیں لی ہیں، پھر کیا ہوا کہ آپ نے عطارہ والی روایت جو نضر بن شمیل نے ہمارے سامنے بیان کی، ان سے نہیں سنی؟ انہوں نے مجھ سے کہا: خاموش رہو، میں اور عبد الرحمن بن مہدی زیاد بن میمون سے ملے اور اس سے پوچھتے ہوئے کہا: یہ احادیث جو تم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہو (کیا ہیں؟) تو وہ کہنے لگا: تم دونوں دیکھو کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، پھر توبہ کر لیتا ہے تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرتا! کہا: ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: میں نے ان (احادیث) میں سے انس رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا، نہ کم نہ زیادہ، اگر لوگ نہیں جانتے تو (کیا) تم دونوں بھی نہیں جانتے کہ میں انس رضی اللہ عنہ سے نہیں ملا!۔ ابوداود نے کہا: پھر ہمیں یہ خبر پہنچی کہ وہ (وہی) روایتیں بیان کرتا ہے تو میں اور عبد الرحمن اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا: میں توبہ کرتا ہوں، پھر اس کے بعد بھی وہ وہی حدیثیں بیان کرتا تھا تو ہم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا۔
محمود بن غیلان ؒ کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد طیالسیؒ سے کہا: آپ نے عباد بن منصور سے بہت سی روایات بیان کی ہیں، تو کیا وجہ ہے؟ آپ نے اس سے عطارہ کی حدیث نہیں سنی، جو ہمیں نضر بن شمیل ؒنے سنائی ہے؟ انھوں نے مجھ سے کہا: ”خاموش ہو جا! کیونکہ میں اور عبدالرحمٰن بن مہدیؒ دونوں زیاد بن میمون کو ملے، تو ہم نے اس سے پوچھا: یہ احادیث جو تم حضرت انسؓ سے بیان کرتے ہو؟ (ان کی کیا حقیقت ہے) تو اس نے کہا: بتاؤ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، پھر توبہ کر لیتا ہے، تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرلیتا؟ ہم نے کہا معاف کر دیتا ہے۔ اس نے کہا میں نے ان احادیث میں سے کم یا زیادہ حضرت انسؓ سے کچھ نہیں سنا، اگر عام لوگوں کو علم نہیں ہے تو کیا آپ دونوں کو بھی علم نہیں ہے؟ میری حضرت انسؓ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ ابو داؤد ؒ کہتے ہیں: ہمیں بعد میں خبر پہنچی، کہ وہ پھر حضرت انسؓ سے روایت کرتا ہے، تو میں اور عبدالرحمٰن بن مہدیؒ اس کے پاس آئے، تو اس نے کہا: میں توبہ کرتا ہوں، بعد میں وہ پھر بیان کرنے لگا، تو ہم نے اس کو چھوڑ دیا (کہ یہ تو جھوٹا آدمی ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18782 و 18807)»
حدثنا حسن الحلواني، قال: سمعت شبابة، قال: كان عبد القدوس يحدثنا، فيقول: سويد بن عقلة: قال شبابة: وسمعت عبد القدوس، يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتخذ الروح عرضا، قال: فقيل له: اي شيء هذا! قال: يعني تتخذ كوة في حائط، ليدخل عليه الروح، قال مسلم: وسمعت عبيد الله بن عمر القواريري، يقول: سمعت حماد بن زيد، يقول لرجل بعد ما جلس مهدي بن هلال بايام: ما هذه العين المالحة التي نبعت قبلكم؟ قال: نعم يا ابا إسماعيل،حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِي، قَالَ: سَمِعْتُ شَبَابَةَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ الْقُدُّوسِ يُحَدِّثُنَا، فَيَقُولُ: سُوَيْدُ بْنُ عَقَلَةَ: قَالَ شَبَابَةُ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ الْقُدُّوسِ، يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ يُتَّخَذَ الرَّوْحُ عَرْضًا، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: أَيُّ شَيْءٍ هَذَا! قَالَ: يَعْنِي تُتَّخَذُ كُوَّةٌ فِي حَائِطٍ، لِيَدْخُلَ عَلَيْهِ الرَّوْحُ، قَال مُسْلِمٌ: وسَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ لِرَجُلٍ بَعْدَ مَا جَلَسَ مَهْدِيُّ بْنُ هِلَالٍ بِأَيَّامٍ: مَا هَذِهِ الْعَيْنُ الْمَالِحَةُ الَّتِي نَبَعَتْ قِبَلَكُمْ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا إِسْمَاعِيل،
حسن حلوانی نے بیان کیا، کہا: میں نے شبابہ سے سنا (کہا: عبد القدوس ہمارے سامنے حدیث بیان کرتا تھا اور کہتا تھا: سوید بن عقلہ) شبابہ نے کہا: میں نے بعد القدوس سے سنا، کہتا تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”رَوح کو عَرض“ بنانے سے منع فرمایا ہے (کہا) اس سے کہا گیا: اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس نے کہا: مطلب یہ ہے کہ دیوار میں سوراخ رکھا جائے تاکہ اس میں ہوا داخل ہو۔ (امام) مسلم نے کہا: میں نے عبید اللہ بن عمر قواریری سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے حماد بن زید سے سنا، وہ (مہدی بن ہلال کے علمی مجلس منعقد کرنے سے چند دن بعد) ایک آدمی سے کہہ رہے تھے: یہ نمکین چشمہ کیا ہے جو آپ کی طرف سے پھوٹا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اے ابواسماعیل! (آپ کی بات ٹھیک ہے
شبابہؒ کہتے ہیں: عبدالقدوس ہمیں حدیث سناتا اور راوی کا نام سوید بن عقلہ لیتا، اور متن یوں سناتا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روح کو عرض بنانے سے منع فرمایا۔ اس سے پوچھا گیا: کہ یہ کیا ہوا؟ یعنی: اس کا مطلب کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ہوا کے داخل ہونے کے لیے دیوار میں سوراخ یا کھڑکی رکھنا منع فرمایا۔ عبید اللہ بن عمیر قواریریؒ کہتے ہیں، میں نے سنا حماد بن زیدؒ کسی آدمی کو کہہ رہے تھے، جب کہ وہ شخص مہدی بن ہلال کے پاس چند روز بیٹھ چکا تھا: ”یہ تمھاری طرف پھوٹنے والا نمکین چشمہ کیسا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں اے ابو اسماعیل! (یہ حماد بن زیدؒ کی کنیت ہے) وہ ایسا ہی ہے۔ یعنی واقعی ضعیف ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18589 و 18798)»
وحدثنا الحسن الحلواني، قال: سمعت عفان، قال: سمعت ابا عوانة، قال: ما بلغني عن الحسن حديث، إلا اتيت به ابان بن ابي عياش، فقراه علي.وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَفَّانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَوَانَةَ، قَالَ: مَا بَلَغَنِي عَنِ الْحَسَنِ حَدِيثٌ، إِلَّا أَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ، فَقَرَأَهُ عَلَيَّ.
عفان نے کہا: میں نے ابو عوانہ سے سنا، کہا: مجھے حسن (بصری) سے کوئی حدیث نہ پہنچی مگر میں اسے ابان بن ابی عیاش کے پاس لے گیا تو اس نے اسے میرے سامنے پڑھا
ابو عوانہؒ کہتےہیں مجھے حسنؒ سے جو روایت بھی پہنچی میں وہ لے کر ابان بن عیاشؒ کے پاس آگیا، تو اس نے وہ مجھے (جھوٹ کے طور پر) سنادی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19518)»
وحدثنا سويد بن سعيد، حدثنا علي بن مسهر، قال: سمعت انا وحمزة الزيات من ابان بن ابي عياش، نحوا من الف حديث، قال علي:" فلقيت حمزة فاخبرني، انه راى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام، فعرض عليه ما سمع من ابان، فما عرف منها إلا شيئا يسيرا، خمسة او ستة،وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ مِنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، نَحْوًا مِنْ أَلْفِ حَدِيثٍ، قَالَ عَلِيٌّ:" فَلَقِيتُ حَمْزَةَ فَأَخْبَرَنِي، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَا سَمِعَ مِنْ أَبَانَ، فَمَا عَرَفَ مِنْهَا إِلَّا شَيْئًا يَسِيرًا، خَمْسَةً أَوْ سِتَّةً،
علی بن مسہر نے بیان کیا، کہا: میں نے اور حمزہ زیات نے ابان بن ابی عیاش سے تقریباً ایک ہزار احادیث سنیں۔ علی نے کہا: پھر (کچہ عرصے بعد) میں حمزہ سے ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ ا سنے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ احادیث جو ابان سے سنی تھیں آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے ان میں بہت معمولی حصے، پانچ یا چھ حدیثوں کے سوا کسی چیز کو نہ پہچانا۔
علی بن مسہرؒ کہتے ہیں: میں نے اور حمزہ زیاتؒ نے ابان بن ابی عیاش سے تقریباً ایک ہزار روایات سنیں۔ علی بن مسہرؒ کہتے ہیں: بعد میں، میں حمزہؒ سے ملا، تو اس نے مجھے بتایا: ”کہ میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ابان سے سنی ہوئی احادیث پیش کیں، تو آپ نے ان میں سے چند ایک، پانچ یا چھے کے سوا کسی حدیث کو نہ پہچانا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18596)»
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، اخبرنا زكرياء بن عدي، قال: قال لي ابو إسحاق الفزاري: اكتب عن بقية ما روى عن المعروفين، ولا تكتب عنه ما روى عن غير المعروفين، ولا تكتب عن إسماعيل بن عياش، ما روى عن المعروفين، ولا عن غيرهم،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ: اكْتُبْ عَنْ بَقِيَّةَ مَا رَوَى عَنِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا تَكْتُبْ عَنْهُ مَا رَوَى عَنْ غَيْرِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا تَكْتُبْ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، مَا رَوَى عَنِ الْمَعْرُوفِينَ، وَلَا عَنْ غَيْرِهِمْ،
زکریا بن عدی نے کہا: مجھ سے ابو اسحاق فزاری نے کہا: بقیہ سے وہی احادیث لکھو جو اس نے معروف لوگوں سے روایت کی ہیں، وہ نہ لکھو جو اس نے غیر معروف لوگوں سے روایت کی ہیں اور اسماعیل بن عیاش سے، جو اس نے معروف لوگوں سے روایت کیں یا غیر معروف سے، کچھ نہ لکھو۔
زکریا ابنِ عدی کہتے ہیں مجھ سے ابو اسحاق فزاری نے کہا، بقیہ سے صرف وہ احادیث لکھوجو وہ معروف اور مشہور راویوں سے بیان کرتا ہے اور جو روایات وہ غیر معروف راویوں سے بیان کرتا ہے وہ نہ لکھو، اور اسماعیل بن عیاش سے کسی قسم کی روایت نہ لکھو چاہے وہ معروف راویوں سے بیان کرتا ہو یا غیر معروف سے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في الامثال، باب: ما جاء في مثل الله علباده بعد حديث (2859) انظر ((التحفة)) برقم (18391)»
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، قال: سمعت بعض اصحاب عبد الله، قال: قال ابن المبارك: نعم الرجل بقية، لولا انه كان يكني الاسامي ويسمي الكنى، كان دهرا يحدثنا، عن ابي سعيد الوحاظي، فنظرنا فإذا هو وعبد القدوس،وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: نِعْمَ الرَّجُلُ بَقِيَّةُ، لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ يَكْنِي الْأَسَامِيَ وَيُسَمِّي الْكُنَى، كَانَ دَهْرًا يُحَدِّثُنَا، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْوُحَاظِيِّ، فَنَظَرْنَا فَإِذَا هُوَ وَعَبْدُ الْقُدُّوسِ،
اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، کہا: میں نے عبد اللہ کے اصحاب (شاگردوں) میں سے ایک سے سنا، کہا: ابن مبارک نے فرمایا: بقیہ اچھا آدمی ہے اگر یہ نہ ہوتا کہ وہ ناموں کو کنیتوں سے بدل دیتا ہے اور کنیتوں کو ناموں سے۔ وہ ایک زمانے تک ہمیں ابو سعید وحاظی سے روایتیں سناتا رہا، ہم نے اچھی طرح غور کیا تو وہ عبد القدوس نکلا۔
عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں: ”بقیہؒ اچھا آدمی تھا، اگر وہ ناموں کی جگہ کنیت اور کنیت کی جگہ نام نہ لیتا۔ ایک عرصہ تک وہ ہمیں ابو سعید وحاظی سے روایت سناتا رہا، جب ہم نے غور و فکر کیا تو معلوم ہوا وہ عبدالقدوس ہے (جو ضعیف راوی ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18930)»
عبد الرزاق کہتے ہیں: میں نے ابن مبارک کو (ایسا کرتے) نہیں دیکھا کہ وہ کھل کر اپنی یہ بات (رائے) کہہ دیں کہ فلاں جھوٹا ہے، سوائے عبد القدوس کے۔ میں نے انہیں خود یہ کہتے سنا کہ وہ جھوٹا ہے۔
عبدالرزاقؒ بیان کرتے ہیں: ”میں نے عبداللہ بن مبارکؒ کو کبھی عبدالقدوس کے سوا کسی کو صاف طور پر جھوٹا کہتے نہیں سنا۔ میں نے ان سے اس کو کذّاب کہتے سنا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18931)»
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي، قال: سمعت ابا نعيم، وذكر المعلى بن عرفان، فقال: قال: حدثنا ابو وائل، قال: خرج علينا ابن مسعود بصفين، فقال ابو نعيم: اتراه بعث بعد الموت؟.حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نُعَيْمٍ، وَذَكَرَ الْمُعَلَّى بْنَ عُرْفَانَ، فَقَال: قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو وَائِلٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا ابْنُ مَسْعُودٍ بِصِفِّينَ، فَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: أَتُرَاهُ بُعِثَ بَعْدَ الْمَوْتِ؟.
۔ عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی نے مجھ سے بیان کیا، کہا: میں نے ابو نعیم سے سنا (اور انہوں نے معلی بن عرفان کا ذکر کیا) اور کہا: اس نے کہا: ہم سے ابو وائل نے بیان کیا، کہا: صفین میں ابن مسعود ہمارے سامنے نکلے تو ابو نعیم نے کہا: ان کے بارے میں تمہاری رائے ہے کہ وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے؟
ابو نعیمؒ کہتے ہیں: معلیٰ بن عرفانؒ نے کہا، ہمیں ابو وائلؒ نے بتایا: کہ جنگِ صفین کے موقع پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہمارے سامنے آئے۔ تو ابو نعیمؒ نے کہا: ”کیا تمھارے خیال کے مطابق وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے؟“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم»
حدثني عمرو بن علي وحسن الحلواني كلاهما، عن عفان بن مسلم، قال: كنا عند إسماعيل ابن علية، فحدث رجل عن رجل، فقلت: إن هذا ليس بثبت، قال: فقال الرجل: اغتبته؟ قال إسماعيل: ما اغتابه، ولكنه حكم انه ليس بثبت.حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ عَفَّانَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ، فَحَدَّثَ رَجُلٌ عَنْ رَجُلٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِثَبْتٍ، قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: اغْتَبْتَهُ؟ قَالَ إِسْمَاعِيل: مَا اغْتَابَهُ، وَلَكِنَّهُ حَكَمَ أَنَّهُ لَيْسَ بِثَبْتٍ.
۔ عفان بن مسلم سے روایت ہے، کہا: ہم اسماعیل بن عُلیہ کے ہاں تھے تو ایک آدمی نے ایک دوسرے آدمی سے روایت (بیان) کی۔ میں نے کہا: ہ مضبوط (ثقہ کا ہم پلہ) نہیں۔ تو اس آدمی نے کہا: تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ اسماعیل کہنے لگے: انہوں نے اس کی غیبت نہیں کی بلکہ حَکم (فیصلہ) بیان کیا ہے وہ ثبت نہیں ہے۔
عفان بن مسلمؒ کہتے ہیں: ہم اسماعیل بن علیہؒ کی مجلس میں حاضر تھے، کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے حدیث بیان کی تو میں نے کہا یہ تو ثقہ اور قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ اس نے کہا: تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ اسماعیلؒ نے کہا: ”اس نے غیبت نہیں کی، لیکن حقیقت بتائی ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہے (اور راوی کی اصلیت ظاہر کرنا غیبت نہیں ہے)۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18437)»
وحدثنا ابو جعفر الدارمي، حدثنا بشر بن عمر، قال: سالت مالك بن انس، عن محمد بن عبد الرحمن الذي يروي، عن سعيد بن المسيب، فقال: ليس بثقة، وسالته عن صالح مولى التوامة، فقال: ليس بثقة، وسالته عن ابي الحويرث، فقال: ليس بثقة، وسالته عن شعبة الذي روى عنه ابن ابي ذئب، فقال: ليس بثقة، وسالته عن حرام بن عثمان، فقال: ليس بثقة، وسالت مالكا، عن هؤلاء الخمسة، فقال: ليسوا بثقة، في حديثهم وسالته عن رجل آخر نسيت اسمه، فقال: هل رايته في كتبي؟ قلت: لا، قال: لو كان ثقة، لرايته في كتبيوحَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الَّذِي يَرْوِي، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ شُعْبَةَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُهُ عَنْ حَرَامِ بْنِ عُثْمَانَ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، وَسَأَلْتُ مَالِكًا، عَنْ هَؤُلَاءِ الْخَمْسَةِ، فَقَالَ: لَيْسُوا بِثِقَةٍ، فِي حَدِيثِهِمْ وَسَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ آخَرَ نَسِيتُ اسْمَهُ، فَقَالَ: هَلْ رَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: لَوْ كَانَ ثِقَةً، لَرَأَيْتَهُ فِي كُتُبِي
بشر بن عمر بنے ہم سے بیان کیا، کہا: میں نے امام مالک بن انس سے محمد بن عبد الرحمن کے بارے میں پوچھا جو سعید بن مسیب سے احادیث روایت کرتا ہے تو انہوں نے کہا: وہ ثقہ نہیں۔ میں نے مالک بن انس سے ابو حویرث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: وہ ثقہ نہیں۔ (پھر) میں نے ان سے اس شعبہ کے بارے میں سوال کیا جس سے ابن ابی ذئب روایت کرتے ہیں تو فرمایا: وہ ثقہ نہیں۔ میں نے ان سے صالح مولیٰ تَواَمَہ کے بارے میں سوال کیا تو کہا: ثقہ نہیں۔ میں نے ان سے حرام بن عثمان کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: ثقہ نہیں۔ میں نے امام مالک سے ان پانچوں کے بارے میں پوچھا، انہوں نے فرمایا: یہ سب حدیث کے بیان کرنے میں ثقہ نہیں۔ میں نے ان سے ایک اور شخص کے بارے میں پوچھا جس کا (اب) میں نام بھول گیا ہوں تو انہوں نے کہا: کیا تم نے میری کتابوں میں اس کا نام دیکھا ہے۔ میں نے عرض کی: نہیں۔ فرمایا: اگر ثقہ ہوتا تو تم اس کا ذکر میری کتابوں میں دیکھتے
بشر بن عمرؒ کہتے ہیں: کہ میں نے امام مالک بن انس ؒ سے محمد بن عبدالرحمٰن جو حضرت سعید بن مسیّب ؒ سے روایت کرتا ہے، کے بارے میں پوچھا تو انھوں نےجواب دیا: ”وہ قابلِ اعتماد نہیں ہے۔“ اور میں نے ان سے توامہ کے آزاد کردہ غلام صالح کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے فرمایا: ”وہ ثقہ نہیں ہے۔“ میں نے ان سے ابو الحویرث (عبدالرحمٰن بن معاویہ) کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے کہا: ”وہ معتبر نہیں ہے۔“ میں نے ان سے اس شعبہ کے بارے میں پوچھا، جس سے ابن ابی ذئب (محمد بن عبدالرحمٰن بن مغیرہ القرشی) روایت کرتے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا: ”وہ قابلِ اعتماد نہیں ہے۔“ اور میں نے ان سے حرام بن عثمان کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے فرمایا: ”وہ قابلِ اعتماد نہیں۔“ میں نے امام مالکؒ سے ان پانچ کے بارے میں دریافت کیا، چنانچہ انھوں نے ان سب کے بارے میں فرمایا: ”وہ حدیث بیان کرنے میں معتبر نہیں ہیں۔“ اور میں نے ان سے ایک اور آدمی کے بارے میں پوچھا جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا، تو انھوں نے جواب دیا: ”کیا تم نے اس سے میری کتابوں میں روایت دیکھی ہے؟“ میں نے کہا: نہیں! فرمایا: ”اگر وہ ثقہ ہوتا تو اس سے میری کتابوں میں روایت دیکھ لیتے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19249)»