كتاب القبلة کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل 13. بَابُ: الْمُصَلِّي يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الإِمَامِ سُتْرَةٌ باب: نمازی اور امام کے درمیان پردہ حائل ہونے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 81 (730) مختصراً، اللباس 43 (5861)، صحیح مسلم/المسافرین 30 (782)، سنن ابی داود/الصلاة 317 (1368) (من قولہ: اکلفوا من العمل الخ)، سنن ابن ماجہ/إقامة 36 (942) مختصراً، (تحفة الأشراف: 17720)، مسند احمد 6/40، 61، 241، (ولیس قولہ: ”ثم ترک م صلاة۔۔۔حتی قبضہ اللہ‘‘ عند أحد سوی المؤلف (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|