كتاب الصيد کتاب: شکار کے احکام و مسائل 18. بَابُ: الطَّافِي مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ باب: پانی پر تیرنے والے مردہ سمندری شکار کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے“۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آدھا علم ہے اس لیے کہ دنیا بحر و بر یعنی خشکی اور تری کا نام ہے، تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتا دیا، اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 41 (83)، سنن الترمذی/الطہارة 52 (69)، سنن النسائی/الطہارة 47 (59)، الصید 35 (4361)، (تحفة الأشراف: 14618)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 3 (12)، مسند احمد (2/37، 361، 373)، سنن الدارمی/الطہارة 52 (755) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحابہ کی ایک جماعت، تابعین، مالک، شافعی اور اہل حدیث کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور ابوحنیفہ کے نزدیک ناجائز، ان کی دلیل آگے آتی ہے، امام نووی کہتے ہیں: سمندر کے سب مردے حلال ہیں، خواہ خود بخود مر جائیں یا شکار سے مریں، اور مچھلی کی حلت پر اجماع ہے لیکن طافی مچھلی (یعنی جو مر کر خود بخود پانی پر تیر آئے) میں اختلاف ہے، اصحاب شافعیہ کے نزدیک مینڈ ک حرام ہے، اور باقی سمندر کے جانوروں میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سمندر کے کل جانور حلال ہیں، دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں ہے، تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں،ان کی شبیہ سمندر میں بھی حلال ہے جیسے سمندری گھوڑے، سمندری بکری، سمندری ہرن اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کے شبیہ سمندر میں بھی حرام ہے جیسے سمندری کتا، سمندری سور۔واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس جانور کو سمندر نے کنارے پر ڈال دیا ہو یا پانی کم ہو جانے سے وہ مر جائے تو اسے کھاؤ، اور جو سمندر میں مر کر اوپر آ جائے اسے مت کھاؤ“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 36 (3815)، (تحفة الأشراف: 2657) (ضعیف)» (سند میں یحییٰ بن سلیم طائفی ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|