كتاب الصيد کتاب: شکار کے احکام و مسائل 2. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ اقْتِنَاءِ الْكَلْبِ إِلاَّ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ حَرْثٍ أَوْ مَاشِيَةٍ باب: کھیت یا ریوڑ کی رکھوالی کرنے والے اور شکاری کتوں کے علاوہ دوسرے کتے پالنا منع ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کتا پالے گا اس کے عمل میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہو گا، سوائے کھیت یا ریوڑ کے کتے کے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 10 (1575)، (تحفة الأشراف: 15390)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحرث 3 (2323)، بدء الخلق 17 (3324)، سنن ابی داود/الصید 1 (2844)، سنن الترمذی/الصید 17 (1490)، سنن النسائی/الصید 14 (4294)، مسند احمد (2/267، 345) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں روزانہ دو قیراط کی کمی کا ذکر ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے شاید کتوں کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جس میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے، اور دوسری وہ ہے جس میں دو قیراط کی کمی ہوتی ہے، بعض لوگوں نے اختلاف مقامات کا اعتبار کیا ہے، اور کہا کہ اگر بے ضرورت مکہ یا مدینہ میں کتا پالے تو دو قیراط کی کمی ہو گی اور اس کے علاوہ دیگر شہروں میں ایک قیراط کی کمی ہو گی کیونکہ مکہ اور مدینہ کا افضل اور اعلی مقام ہے، وہاں کتا پالنا زیادہ غیرمناسب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کتے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتے، تو میں یقیناً ان کے قتل کا حکم دیتا، پھر بھی خالص کالے کتے کو قتل کر ڈالو، اور جن لوگوں نے جانوروں کی حفاظت یا شکاری یا کھیتی کے علاوہ دوسرے کتے پال رکھے ہیں، ان کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہو جاتے ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصید ا (2845مختصراً)، سنن الترمذی/الأحکام 3 (1486مختصراً) سنن النسائی/الصید 10 (4385)، (تحفة الأشراف: 9649)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/85، 86، 5/54، 56، 57، سنن الدارمی/الصید 2 (2049) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام نووی فرماتے ہیں کہ کاٹنے والے کتوں کو قتل کر دینے پر اجماع ہے، امام الحرمین کہتے ہیں کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کتوں کے مارنے کا حکم دیا، پھر یہ منسوخ ہو گیا، اور کالا سیاہ اسی حکم پر باقی رہا، بعد اس کے یہ ٹھہرا کہ جب تک وہ نقصان نہ پہنچائے کسی قسم کا کتا نہ مارا جائے یہاں تک کالا بھجنگ بھی، اور ثواب کم ہونے کا سبب یہ ہو گا کہ فرشتے اس کے گھر میں نہیں جا سکتے جس کے پاس کتا ہوتا ہے، اور بعضوں نے کہا کہ اس وجہ سے کہ لوگوں کو اس کے بھونکنے اور حملہ کرنے سے ایذا ہوتی ہے اور یہ جو فرمایا: اگر مخلوق نہ ہوتی مخلوقات میں سے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کتا بھی کائنات کی مخلوقات میں سے ایک ایسی مخلوق ہے جس ختم کرنا ممکن نہیں، اس لئے قتل کا حکم دینا بے کار ہے، کتنے ہی قتل کرو لیکن جب تک دنیا باقی ہے، دنیا میں کتے ضرور باقی رہیں گے، آپ دیکھئے کہ سانپ، بچھو، شیر اور بھیڑئیے، لوگ سیکڑوں اور ہزاروں سال سے جہاں پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں، مگر کیا یہ حیوانات دنیا سے مٹ گئے؟ ہرگز نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص کتا پالے اور وہ اس کے کھیت یا ریوڑ کے کام نہ آتا ہو تو اس کے عمل (ثواب) سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے“، لوگوں نے سفیان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے خود اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اس مسجد کے رب کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 3 (2323)، بدء الخلق 17 (3325)، صحیح مسلم/المساقاة 10 (1576)، سنن النسائی/الصید 12 (4290)، (تحفة الأشراف: 4476)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الإستئذان 5 (12)، مسند احمد (5/219، 220)، سنن الدارمی/الصید 2 (2048) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|